لندن: پاکستان کا نامور نجی ٹی وی نیٹ ورک اے آر وائی نشاط گروپ کے مالک میاں محمد منشا کو 2 لاکھ 75 ہزار پاؤنڈ جرمانے کے طور پر ادا کرے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک عوامی نوٹس میں کارٹر رک نامی وکلا کمپنی نے کہا ہے کہ لندن ہائی کورٹ کے جسٹس نکلن نے ایک رضامندی کے حکم کی منظوری دے دی جس کے تحت اے آر وائی نیٹ ورک لمیٹڈ میاں منشا کو 2 لاکھ پاؤنڈ قانونی اخراجات اور 75 ہزار پاؤنڈ حقیقی نقصانات کی مد میں بطور جرمانہ ادا کرے گا۔

عوامی نوٹس کے مطابق یہ کیس میاں منشا کی جانب سے دائر کیا گیا تھا جس میں انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ اے آر وائی نے نومبر 2015 میں اپنے پروگرام ’کب تک‘ میں ان کے خلاف جھوٹی خبر چلائی تھی۔

میاں منشا کا اپنے کیس میں کہنا تھا کہ اے آر وائی نیٹ ورک نے سینٹ جیمز ہوٹل اور کلب لمیٹڈ کی خریداری کے حوالے سے نشاط گروپ کے مالک پر منی لانڈرنگ کا جھوٹا الزام عائد کیا تھا۔

مزید پڑھیں: عدالتی کارروائی پر تبصرہ، اے آر وائی نیوز کو نوٹس جاری

بعدِ ازاں ٹی وی چینل نے ایک ماہ بعد میاں منشا کے سینٹ جیمز ہوٹل میں قیام کے حوالے سے ایسی ہی ایک خبر نشر کی۔

سینٹ جیمز ہوٹل نشاط گروپ نے 2010 میں ممکنہ طور پر 6 کروڑ امریکی ڈالر کے عوض خریدا تھا، جولائی 2015 میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) سے اس معاملے کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے سوال کیا کہ یہ بتایا جائے کہ اس خریداری کی رقم بیرونِ ملک کیسے منتقل ہوئی۔

تاہم اس حوالے سے مرکزی بینک نے اپنا جواب جمع کرایا اور بتایا کہ اس نے ترسیلات کے حوالے سے کارروائی کے اجازت نامے پر پیش رفت نہیں کی۔

یہ بھی پڑھیں: نشاط گروپ کا برقی، ہائبرڈ گاڑیاں متعارف کرانے کا منصوبہ

بعدِ ازاں اس مبینہ منی لانڈرنگ کی خبریں پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں گردش کرتی نظر آئیں، جن کی میاں منشا کے وکلا کی جانب سے تردید بھی کی گئی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے فروری 2016 میں اس معاملے کو اٹھاتے ہوئے قومی احتساب بیورو (نیب)، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) سے اس ہوٹل کی خریداری کیلئے لندن منتقل ہونے والی رقم کے حوالے سے جواب طلب کیا تھا۔

میاں منشا کے اہلِ خانہ نے اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے یہ رقم قانونی طور پر پاکستان میں ہی کمائی تھی اور اس کا ٹیکس بھی ادا کیا تھا اور بعد میں قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے اسے ہوٹل کی خریداری کے لیے لندن منتقل کیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں