ایک قدیم قانون
برے قوانین آمریت کی بدترین مثال ہیں۔اگر اس مقولہ کی صداقت آزمانے کیلئے کسی ثبوت کی ضرورت ہو تو صرف ہفتہ کو اسلام آباد میں ہونے والے واقعے پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ دو آدمیوں کی شکایت ہے کہ وہ دامنِ کوہ کے پُرفضا پہاڑی مقام پر اپنی گاڑی میں سافٹ ڈرنکس سے لطف اندوز ہور ہے تھے جب انہیں ایک پولیس والے کی بدتمیزی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کانسٹیبل نے انہیں بتا یا کہ وہ رمضان کے قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہیں جن کے تحت اور احکامات کے علاوہ روزے کے اوقا ت کے دوران عوامی مقامات پر کھانے پینے پرپابندی کا بھی حکم ہے۔
شکایت کنندگان کے مطابق انہیں نزدیکی چیک پوسٹ پر لے جایا گیا جہا ں انہیں تین پولیس والوں نے تشدد کا شکار بنانے کے بعد جانے کی اجازت دی۔ متاثرہ افراد کا کہنا ہے کہ عوامی مقام پر کھانے پینے سے کسی کی دل آزاری ہونے کے خدشے کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہی انہوں نے جان بوجھ کر ایک سنسان جگہ کا انتخاب کیا تھا۔
یہاں دو باتیں توجہ طلب ہیں۔ پہلی تویہ کہ چاہے ان لوگوں نے قانون کی خلاف ورزی کی ہو یا نہیں،پولیس کے اس قسم کے برتاؤ کا کوئی جواز ممکن نہیں۔ان پولیس والوں کو بظاہرغصے پر قابو نہ رکھنے پر نظم وضبط کے دائر ہ کار میں لانے کی اشد ضرورت ہے۔ قانون چاہے قدامت پسند ہی اس معاملے میں اسکی پاسداری نسبتاً بہتر طریقہ کارسے ہو سکتی تھی۔ مگر اس سے بھی اہم اس نقطہ پر غور کرنا ہے کہ ناانصافی پر مبنی قانون سازی متعصب لوگوں کی کیسے پشت پناہی کرتی ہے اور انکے رویوں کو کس قدر سخت کردیتی ہے۔
ضیاء دور حکومت میں ہونے والی ریاستی اسلامائزیشن کے دوران ایسے کئی مشکوک قوانین کو متعارف کرایا گیا جن میں سے کئی کو ختم کرنا نہایت مشکل ثابت ہوا ہے۔ مشہور زمانہ توہین رسالت قانون جتنا قابل اعتراض تو نہیں مگر ۱۹۸۱ کا رمضان آرڈیننس بھی انہیں قوانین میں سے ایک ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جہاں ابتدائی برسوں میں اس قانون کو انتہائی سختی سے لاگو کیا گیا تھا ، آج اسکا استعمال شہریوں کے خلاف عام طور پر نہیں کیا جاتااوراسلام آباد کے واقعے جیسے افسوس ناک اور محض اکا دکا واقعات میں ہی اسکا ذکر سنائی دیتا ہے۔ جبکہ بنیادی طور پر یہ سنیما اور ریسٹورنٹس کو روزے کے اوقات میں بند رکھنے کا حکم دیتا ہے۔معاشرہ کچھ حوالوں سے آزاد ہو چکا ہے اور علماء بھی رمضان کو رواداری کے مہینے کے طور پر پیش کرتے ہیں تو ایسے قوانین جو تعصب کو پروان چڑھاتے ہوں شاید ان پر بحث شروع کرنے کا وقت اب آچکا ہے ۔
تبصرے (2) بند ہیں