اس سلسلے کی بقیہ اقساط یہاں پڑھیے۔


کل کے دن کا آغاز فیفا کے صدر گیانی انفینٹینو کی دھماکے دار پریس کانفرنس سے ہوا۔ اس پریس کانفرنس میں انہوں نے قطر پر تنقید کرنے والے مغربی میڈیا اور یورپ پر ایک سخت حملہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں یورپی ہوں، دوسروں کو اخلاقی درس دینے سے قبل ہمیں چاہیے کہ 3 ہزار سال سے دنیا بھر میں ہم جو کچھ کرتے رہے ہیں، اس پر اگلے 3 ہزار سال تک معافی مانگیں‘۔

شاید اس تند و تیز پریس کانفرنس کا مقصد یہی تھا کہ ساری توجہ قطر سے ہٹ کر فیفا ورلڈ کپ پر آجائے اور ایسا ہوا بھی۔ اس کے بعد بھی کچھ پریس کانفرنسیں ہوئیں لیکن اگر وہ نہ بھی ہوتیں تو نقصان نہ ہوتا کیونکہ فیفا کے صدر کی پریس کانفرنس نے ہی سارا کام کردیا تھا۔

بہرحال دن بھر کی رپورٹیں لکھنے کے بعد میرا فیفا فین فیسٹیول جانا ہوا اور وہاں جاکر لگا کہ اب قطر میں ورلڈ کپ کی گہما گہمی شروع ہوگئی ہے۔ وہاں دنیا بھر سے آئے ہوئے شائقین نظر آئے۔ مجھے ارجنٹینا اور میکسیکو کے علاوہ کولمبیا کے فینز بھی نظر آئے حالانکہ کولمبیا اس ورلڈ کپ میں نہیں ہے۔ وہاں تونس کے فینز بھی تھے جو بہت ہی پُرجوش تھے۔

اس فین فیسٹیول میں میری ملاقات ایک بھارتی فین سے ہوئی جس نے برازیل میں ہونے والے ورلڈ کپ میں بھی شرکت کی تھی۔ اس نے قطر کے فین فیسٹیول کے حوالے سے بتایا کہ یہ برازیل میں ہونے والے فین فیسٹیول سے کہیں زیادہ بڑا ہے۔

قطر نے کچھ سڑکیں گاڑیوں کے لیے بند کی ہوئی ہیں جس کی وجہ سے کافی پیدل چلنا پڑا لیکن اس سے فائدہ یہ ہوا کہ ہمیں شائقین کی تعداد کا کچھ اندازہ ہوگیا۔ ہمیں پیدل چلتے ہوئے، بس اور میٹرو لیتے ہوئے ہزاروں شائقین نظر آئے۔ پھر قطر کا موسم بھی کچھ تبدیل ہوا ہے، کل رات کے وقت ٹھنڈی ہوائیں چلنا شروع ہوگئی تھیں جس سے گرمی میں کمی آئی۔ یوں قطر میں اب تک جو بوریت کا احساس تھا وہ ختم ہوتا محسوس ہورہا ہے۔

گزشتہ ورلڈ کپ میں روس نے شائقین کو سہولیات دینے کا آغاز کیا تھا جس میں ویزا آن آرائیول اور میٹرو میں مفت سفر جیسی سہولیات شامل تھیں۔ یہاں قطر نے بھی ایسا ہی کچھ کیا ہے۔ میں نے اوپر ذکر کیا کہ قطر میں ورلڈ کپ کے دوران کچھ سڑکیں ٹریفک کے لیے بند ہیں تو قطر نے ان سڑکوں پر شائقین کے لیے مفت بسیں چلائی ہیں جن کے ذریعے شائقین پورے کارنیش پر ایک مقام سے دوسرے مقام تک سفر کرسکتے ہیں۔

ویسے تو ایونٹ شروع ہونے سے پہلے ہی تمام ٹکٹس فروخت ہوچکے ہیں مگر اس ورلڈکپ کی ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ہم ایشیائی لوگوں کو یہ اپنا ایونٹ لگ رہا ہے۔ یہاں جو فینز بھی آئیں گے وہ ہم پاکستانیوں یا جنوبی ایشیائی باشندوں کے لیے کچھ اپنے جیسے ہوں گے۔ کل فین فیسٹیول میں بھی میں نے دیکھا کہ یہاں امریکی اور یورپی فینز سے زیادہ جنوبی امریکا، ایشیا اور خاص طور پر جنوبی ایشیا کے فینز تھے۔ اس وجہ سے ایسا لگ رہا ہے کہ یہ ورلڈ کپ اس خطے کا ورلڈ کپ ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں