سیلاب سے فصلیں شدید متاثر، چاول کی برآمدات میں بڑی کمی کے خدشات منڈلانے لگے

اپ ڈیٹ 20 نومبر 2022
سندھ میں بد ترین سیلاب کی وجہ سے چاول کی فصل میں ایک ماہ کی تاخیر ہوئی — فائل فوٹو: اے ایف پی
سندھ میں بد ترین سیلاب کی وجہ سے چاول کی فصل میں ایک ماہ کی تاخیر ہوئی — فائل فوٹو: اے ایف پی

ملک کی تاریخ کے بدترین سیلاب کی وجہ سے فصلوں کو پہنچنے والے نقصان کے باعث سندھ میں پیداوار 30 فیصد تک کم ہونے کے خدشے کے پیش نظر چاول برآمد کنندگان مشکل صورتحال سے دوچار ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس کے علاوہ برآمد کنندگان کو بھارت سے سخت مسابقت کا بھی سامنا ہے جو غیر ملکی خریداروں کو کم قیمت کی پیشکش کر رہا ہے۔

چاول برآمد کنندگان کی نمائندہ تنظیم رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان (آر ای اے پی) کے چیئرمین چیلا رام کیولانی نے کہا کہ گزشتہ مالی سال (22-2021) میں پاکستان نے 48 لاکھ 80 ہزار ٹن چاول مختلف ممالک کو برآمد کرکے 2 ارب 50 کروڑ ڈالر حاصل کیے ہیں۔

یہ اعداد و شمار گزشتہ سال کے مقابلے میں 11 لاکھ 90 ہزار ٹن زیادہ تھے جس سے ملک کو 2 ارب ڈالر سے کچھ زیادہ حاصل کرنے میں مدد ملی۔

چیلا رام کیولانی نے کہا کہ میرے خیال میں سندھ میں فصل کو پہنچنے والے نقصان کے پیش نظر رواں مالی سال (23-2022) میں چاول کی برآمدات 35 لاکھ ٹن تک گر سکتی ہیں جب کہ انہوں نے پنجاب کے اعداد و شمار پر اطمینان کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ سندھ میں چاول کی فصل اکتوبر میں آنی تھی لیکن حالیہ بدترین تباہ کن سیلاب کی وجہ سے اس میں ایک ماہ کی تاخیر ہوئی۔

گزشتہ سال ملک میں چاول کی پیداوار 85 لاکھ ٹن تھی جب کہ مقامی کھپت 30 لاکھ ٹن تھی۔

شعبے کو حاصل مراعات سے متعلق چیئرمین آر ای اے پی نے عدم اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ وزیر خزانہ نے گزشتہ ماہ برآمدی شعبے کے لیے بڑے ریلیف کا اعلان کیا اور چاول برآمد کنندگان کو نظر انداز کیا گیا۔

پاکستان شماریات بیورو کے مطابق باسمتی چاول کی برآمدات جولائی سے اکتوبر کے عرصے میں ایک لاکھ 73 ہزار 684 ٹن پر آگئی جو کہ 2 لاکھ 29 ہزار 791 ٹن تھی، یہ کمی مقدار میں 24.4 اور مالیت کے لحاظ سے 8.4 ہے۔

فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) کی چاول کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر فیصل انیس مجید نے برآمدات کم ہونے کی صورتحال پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ غیر ملکی خریدار بھارت کا رخ کر رہے ہیں جہاں چاول کی قیمت پاکستان کے مقابلے میں 80 سے 100 ڈالر فی ٹن تک کم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ ماہ روپے کی قدر میں ہونے والی کمی نے بھی برآمد کنندگان کے لیے مسائل پیدا کیے کیونکہ اس سے برآمدات مزید مہنگی ہوگئیں۔

دوسری جانب یہ نوٹ کیا گیا ہے کہ گزشتہ مالی سال میں بڑے پیمانے پر برآمدات کی وجہ سے صارفین مقامی چاول کی زیادہ قیمت ادا کر رہے ہیں۔

گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران چاول کی مختلف اقسام کی قیمتوں میں 60 سے 70 فیصد اضافہ ہوا، اس کے ساتھ ہی مارکیٹ ذرائع نے بتایا کہ چاول کی ذخیرہ اندوزی پر بھی کوئی نظر نہیں رکھی گئی جس کی وجہ سے مافیا نے مصنوعی قلت پیدا کر کے زیادہ منافع حاصل کرنے کے لیے اجلاس کو مارکیٹ میں آنے نہیں دیا۔

چاول کی مختلف اقسام کے ہول سیل نرخ 85 سے 320 روپے فی کلو کے درمیان ہیں جب کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ منافع کے مارجن میں بڑے فرق کی وجہ سے ریٹیل قیمتوں کی کوئی مقررہ حد نہیں ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں