شیر دریا، پانی کے دیوتا اور زندہ پیر کی کتھا (آخری حصہ)

اس سلسلے کی پہلی تحریر یہاں پڑھیے۔


رچرڈ ایف برٹن تو بکھر کا قلعہ دیکھنے کے لیے چلے گئے ہیں۔ ہینری کزنس اپنی تحقیق میں مشغول ہیں۔ اس سے پہلے یہ مناسب ہوگا کہ ہم ابن بطوطہ سے اس جزیرے کے متعلق کچھ باتیں سن لیں۔ وہ محمد بن تغلق کے زمانے (1333ء) یعنی آج سے تقریباً 700 برس پہلے یہاں آئے تھے۔

یہ ایک الگ کہانی ہے کہ ابن بطوطہ 2 بار سندھ آئے۔ پہلی بار تو بڑے طمطراق سے آئے مگر دوسری بار 1341ء میں جب سیہون آئے تو کپڑے پھٹے ہوئے اور پاؤں ننگے تھے۔ یہ درد بھری حقیقت کسی اور موقع پر میں آپ کو ضرور سناؤں گا۔ ابن بطوطہ جب زیریں (جنوبی) سندھ گھوم پھر کر لوٹے تو تحریر کرتے ہیں کہ ’میں نے لاھری بندر سے بکھر کا رخ کیا۔ یہ بہت خوبصورت شہر ہے، دریائے سندھ کی ایک شاخ اس کے درمیان سے گزرتی ہے۔ شاخ کے وسط میں ایک شاندار خانقاہ ہے جہاں پر وارد و صادر کو کھانا ملتا ہے، اسے کشلو خان نے تعمیر کیا تھا۔ یہاں میری ملاقات امام عبداللہ حنفی سے اور قاضی شہر ابو حنیفہ اور شمس الدین محمد شیرازی سے ہوئی، شیخ شمس الدین کی عمر ان کے بیان کے مطابق 120 برس ہے‘۔

قطب الدین مبارک شاہ 8 محرم 717ھ (22 مارچ 1317ء بروز منگل) کو تخت پر بیٹھا اور مئی 1320ء میں اس کے محبوب خسرو خان نے اسے دھوکے سے قتل کردیا۔ ان دنوں میں کشلو خان ملتان کا گورنر تھا۔ اس کا بیٹا اور غیاث الدین تغلق کا بیٹا جونا خان (محمد تغلق) خسرو خان کے ہاں ملازم تھا، غیاث الدین نے اپنے بیٹے کو لکھا کہ جتنا جلد ممکن ہوسکے تم کشلو خان کے بیٹے کو لے کر دہلی سے نکل آؤ۔ کشلو خان کی مدد سے غیاث الدین تغلق نے خسرو سے حکومت چھینی اور بادشاہ بنا۔ تاریخ فرشتہ کے مطابق ’غیاث الدین تغلق نے بادشاہ بننے کے بعد اپنے منہ بولے بھائی بہرام ایبہ کو ’کشلو خان‘ کا خطاب دیا اور ملتان کی حکومت عطا کی۔ یہ الگ بات ہے کہ غیاث کی وفات (725ھ) کے بعد تخت پر اس کا بیٹا سلطان محمد شاہ تغلق بیٹھا، اس کے زمانے میں بہرام ایبہ نے بغاوت کی اور ملتان کے قریب محمد تغلق کے ہاتھوں قتل ہوا‘۔

   بکھر کے مقامی لوگ، پس منظر میں خواجہ خضر کا مزار (1910ء)
بکھر کے مقامی لوگ، پس منظر میں خواجہ خضر کا مزار (1910ء)

تاریخِ سکھر کے مصنف مولائی شیدائی اس سلسلے میں تحریر کرتے ہیں کہ اس پہاڑی (جزیرے) کے متعلق بہت ساری پراسرار روایتیں ہیں، ریورٹی کے مطابق ’خانقاہ تعمیر ہونے سے پہلے روز رات کو لوگوں کو دیے کی روشنی نظر آتی تھی اور جب کشتی پر اس دیے کو دیکھنے کے لیے پہنچتے تو روشنی غائب ہو جاتی۔ ہندوؤں نے اس پہاڑی پر زندہ پیر اور دوسرا نام اڈیرو لال رکھا۔ مسلمان اڈیرو لال کو شیخ طاہر کہتے ہیں۔ ان کے عقیدے کے مطابق سمندر کی پلا مچھلی سمندر سے دریائے سندھ میں سفر کرکے یہاں زندہ پیر کی زیارت کرنے کے لیے آتی ہے کیونکہ یہ پانی کا پیر ہے اور پانی پر حکمرانی کرتا ہے۔ سلطان محمد تغلق کی بادشاہی کے زمانے میں بکھر کے نواب کشلو خان نے اس پہاڑی پر ایک خانقاہ بنائی۔ خانقاہ کا مرکزی شاہی دروازہ جو روہڑی کے طرف تھا اور یہاں ایک شاندار گنبدی عمارت تھی جس کو کاشی کی خوبصورت اینٹوں سے سنوارا گیا تھا‘۔

ایچ ٹی سورلی اپنی کتاب ’بھٹ جو شاہ‘ میں ریورٹی کا حوالہ دے کر لکھتے ہیں کہ ’خواجہ خضر کے لیے کہا جاتا ہے کہ اس نے آبِ حیات پیا تھا اس لیے وہ تاحیات رہے گا۔ اس لیے سندھ میں اس کو زندہ پیر کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ اس کو سندھو دریا کے دیوتا کے طور پر مانا جاتا ہے۔ مسلمان اِن کے آستان پر پھول اور دیے نذرانے کے طور پر دیتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ان کی مشکلوں کو آسان کرنے اور رکے ہوئے کاموں کو پورا کرنے میں زندہ پیر ضرور مدد کریں گے۔ یہاں جو سالانہ میلہ لگتا ہے وہ مقرر ماہ کی پہلی جمعرات کو لگتا ہے۔ کئی کشتیوں میں معتقدین اس سالانہ میلے میں شرکت کرنے کے لیے آتے ہیں۔ میلے کی شروعات اس روایت سے ہوتی جس میں ہاتھ سے بنائی ہوئی گھاس کی چھوٹی کشتی مقرر روایت کے مطابق دریا بادشاہ میں بہائی جاتی ہے۔ یہ روایت مہانوں،کشتی اور دریا کی دوستی کے ابتدائی دنوں کی یادگار لگتی ہے‘۔

اب ہم اس حوالے سے ’سندھ گزیٹیئر‘ سے رجوع کرتے ہیں۔ ولیم ہیوز لکھتے ہیں کہ ’روہڑی ضلع کی آبادی 2 بڑے طبقوں ہندوؤں اور مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ 1872ء کی مردم شماری کے مطابق روہڑی کی 5 تحصیلوں کی کل آبادی 2 لاکھ 17 ہزار 515 تھی جس میں ایک لاکھ 76 ہزار 789 مسلمان اور 37 ہزار 917 ہندو تھے جبکہ 3 ہزار کے قریب دوسرے مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہاں کتنے ہی دریا بادشاہ کی پوجا کرتے ہیں اور اسے زندہ پیر اور اڈیرو لال کے نام سے بلاتے ہیں اور ان کا احترام کرتے ہیں، روہڑی میں سالانہ 8 میلے لگتے ہیں جن میں سے 5 میلے تحصیل روہڑی میں ہی لگتے ہیں۔ ان میں خواجہ خضر کے جزیرے پر برس میں 2 بار میلا لگتا ہے۔ پہلا میلا 9 دن تک چلتا ہے اور دوسرا 3 دنوں تک جاری رہتا ہے۔ ان میلوں میں 10 سے 20 ہزار تک لوگوں کی شرکت ہوتی ہے۔ یہاں پہلا میلا 925ء میں دریا کے دیوتا کے اعزاز میں لگا جس کو ہندو جند پیر اور مسلمان خواجہ خضر کہتے ہیں‘۔

    خواجہ خضر کی ایک خیالی تصویر
خواجہ خضر کی ایک خیالی تصویر

ہم سکھر اور روہڑی کو ملانے والے پُل سے ہوتے ہوئے روہڑی پہنچے۔ جن آبادیوں یا شہروں کے قریب پانی کا بہاؤ ہو وہ اکثر آپ کو گنجان نظر آئیں گی۔ ان کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے تعمیرات نے ایک دوسرے کو اپنی بانہوں میں جکڑ کر رکھا ہو اور اس خوف سے جکڑ کر رکھا ہو کہ کل اگر پانی کو غصہ آگیا اور وہ بپھر گیا تو ہم کو بہا کر لے جائے گا اس لیے ایک دوسرے کو پکڑ کر رکھو کہ سہارے کے بادلوں سے حیات کی سوکھی زمین پر امیدوں کی فصلیں اُگتی ہیں۔

ٹھنڈے، مزیدار موسم میں ہر منظر ایسا نکھر جاتا ہے جیسے شیشے کو کسی زبردست کاریگر نے صاف کیا ہو اور ایک فوٹوگرافر کے لیے زندگی سے بھرا آسمان کا رنگ اسی موسم میں میسر آتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے آسمان سے رنگ کی بارش ہونے لگے گی۔ ہم جہاں جہاں سے گزرے قدیم اور جدید کا ایسا سنگم نظر آیا کہ نہ ماضی حال کو چھوڑنا چاہتا ہے اور نہ حال ماضی سے جدا ہونا چاہتا تھا۔ یہ ایک شہر کی کیفیت تھی اور روہڑی شہر کی کیفیت تھی۔ چونکہ دیواریں، چھتیں، گلیاں اور نکڑ اپنے آپ نہیں بنتے بلکہ وہاں کے باسی بناتے ہیں اس لیے ہر بستی کی اپنی نفسیاتی کیفیت ہوتی ہے جس سے وہ بستیاں بنتی ہیں۔ کسی اور وقت میں آپ کو اپنے ساتھ اس قدیم بستی میں ضرور لے آؤں گا کہ یہاں بھی گزرے زمانوں کی کئی طویل داستانیں اس انتظار میں آنکھیں موندے پڑی ہیں کہ ایک دن کوئی سننے والا ضرور آئے گا اور یقیناً ہم وہ داستانیں ضرور سنیں گے۔

ہم روہڑی کی گلیوں سے ہوتے ہوئے سندھو دریا کے کنارے پہنچے۔ اگر میرے پاس جادو کی چَھڑی ہوتی تو مجھے اس بات کا پتا لگ جاتا کہ کیا میں وہیں کھڑا ہوں جہاں ڈیڑھ صدی پہلے رچرڈ ایف برٹن کھڑے تھے اور مہانے کی کشتی کا انتظار کرتے تھے؟ مگر یہ شاید ممکن نہ ہو لیکن اگر میں یہ سوچوں کہ ہاں یہ وہی جگہ ہے تو مجھے خوش ہونے کے لیے کسی اور کی اجازت کیوں چاہیے؟

اس لیے میں وہاں کھڑا تھا جہاں برٹن کھڑے تھے اور ان کو سامنے والے خواجہ خضر کے جزیرے سے نقاروں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ کیونکہ رچرڈ برٹن فروری کے مہینے میں یہاں آئے تھے اور دریا کے کنارے سے یہ آستان شمال میں ہے، میں بھی ٹھنڈے موسم میں کنارے پر کھڑا ہوں شمال کی ٹھنڈی ہوا آتی ہے مگر مجھے نقاروں کی آواز سنائی نہیں دے رہی کہ اب وہ شب و روز ہی نہیں رہے جب اس آستان پر نقارے بجتے تھے۔ اب آپ کو کسی کسی وقت پُل سے گزرتے ٹریفک کا شور سننے کو ضرور مل جاتا ہے۔

ہم جیسے کنارے پر پہنچے ایک تو ہمیں انتظار نہیں کرنا پڑا کہ 2، 3 کشتیاں کھڑی تھیں اور ان پر بیٹھے 2 ملاح سگریٹ کا دھواں پھیپھڑوں میں بھرتے تھے اور جیسے نکوٹین خون میں شامل ہوکر گردش کرتا وہ اس نشے کا سرور لیتے۔ ہمارے نزدیک جو کشتی تھی اس کا ملاح پہلے موبائل پر کچھ دیکھ رہا تھا ہم کو دیکھا تو موبائل ہاتھ میں لیے ہم سے مول تول کرنے لگا۔ ہم نے کہا کہ ہمیں سامنے جزیرے پر جانا ہے۔ اب دن کا ابتدائی وقت تھا اور سارا دن کوئی اور گھومنے والا آئے نہ آئے اس خیال سے اُس نے اپنی حکمت عملی ہم پر آزمائی۔

اس نے انگریزوں کے بنائے ہوئے پُل کو نیچے اور نزدیک سے دیکھنے کا کہا اور یہ بھی کہا کہ اس جیسا عجوبہ پُل اور ساری دنیا میں نہیں ہے۔ یہ پل ایک زمانے میں چابی پر اوپر نیچے ہوتا تھا، مگر گورے بابا نے سوچا کہ میرے مرنے کے بعد اور کوئی ایسا پُل نہ بناسکے اس لیے اس نے چابی دریا میں پھینک دی۔ تب سے پل اوپر نیچے نہیں ہوتا۔ بس یہیں کھڑا ہے۔ اس نے دریا کو بیج منجدھار میں چل کر دیکھنے کو کہا اور ساتھ میں روہڑی شہر کا دُور سے نظارا اور بکھر کے پرانے قلعے کی دیواروں کو نزدیک سے دیکھنے کا بھی کہا اور اس طرح وہ اپنی اِس کوشش میں پوری طرح سے کامیاب گیا کہ کم سے کم آج کی روکھی سوکھی روٹی کے لیے آٹے کی پریشانی سے تو نجات ملی۔

   دریا سے نظر آنے والا روہڑی شہر
دریا سے نظر آنے والا روہڑی شہر

ہم کشتی پر سوار ہوئے، سامنے شیر دریا کے گہرے مٹیالے پانی کی چادر بچھی تھی جس کی سطح پر ہماری کشتی کو شور کرنے والا یاماھا کا انجن دھکیلتا تھا اور سامنے لینسڈاؤن پل تھا جس کی چابی گورا انجنیئر اس دریا میں پھینک چکا تھا۔ ہم جب تک یہ سب دیکھ کر جزیرے پر پہنچیں تب تک میں آپ کو ’ایمپائرز آف دی انڈس‘ کی مصنفہ ایلائیس البینیا کا خواجہ خضر کے آستان کے متعلق تحقیق کا کچھ حصہ ضرور سنانا چاہوں گا۔ وہ تحریر کرتی ہیں کہ ’وقت گزرنے کے ساتھ دریائے سندھ کے متعلق ہندو اور مسلمانوں کے رویے میں تبدیلی نہیں آئی، صدیوں سے اس دریا کو جو مقام حاصل ہے وہ آج بھی ویسا ہی ہے۔ پانی کو ہندو اور مسلمان پاکی کا اہم وسیلہ سمجھتے ہیں۔ یہاں دریا پنتھی فرقے رہتے ہیں جن کی نظر میں دریا ایک دیوتا ہے۔ آج بھی ہندو اور مسلمان دریا کی پوجا کرتے ہیں اور اس کو نذر و نیاز دیتے ہیں۔ ان دنوں بھی 2 ایسی عبادت گاہیں ہیں۔ ایک حیدآباد کے قریب اڈیرو لال اور دوسری سکھر میں جہاں دریا پنتھیوں کے ہجوم آتے جاتے رہتے ہیں۔ زندہ پیر سے متعلق ماننے والے فقیروں کا کہنا ہے کہ دریا کے اس جزیرے پر ظاہر ہونے والے بزرگ دراصل خواجہ خضر ہیں جس کے لفظی معنیٰ سائیں سرسبز ہے اور اس کا ذکر ساری دنیا میں موجود مسلمانوں کے عقیدے میں بھی ملتا ہے۔ یہ بزرگ آبی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں اور ہر مشکل وقت میں گمنام رہ کر مدد کرتے رہتے ہیں۔

’سکندر اعظم کی مہمات کے متعلق یورپ اور ایشیا میں جو کتابیں لکھی گئیں ان میں خواجہ خضر، سکندرِ اعظم کا دوست بنا تھا اور آبِ حیات تک پہنچنے کا راستہ بتایا تھا۔ آبِ حیات کا یہ چشمہ خواجہ خضر نے اس وقت ڈھونڈ نکالا تھا جب وہ ایک مری ہوئی اور خشک مچھلی کو پانی میں پھینکنے کے لیے لے گیا تھا۔ اس نے جب یہ مچھلی اس چشمے میں ڈالی تو اسے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ وہ مچھلی نہ صرف زندہ ہوگئی بلکہ پہلے سے بھی زیادہ صحتمند ہو گئی تھی۔ اس نے اس چشمے کے کنارے پر دوپہر کی خوراک نوش کی، اس کے پاس دوسرا پانی نہیں تھا اس لیے اسی چشمے سے پیٹ بھر کر پانی پیا اور یہ ہی آبِ حیات والا چشمہ تھا جس کی وجہ سے اسے ابدیت حاصل ہوگئی۔ خواجہ خضر کو بھی یقین ہوگیا کہ یہ ہی آبِ حیات والا چشمہ ہے اس لیے وہ جلدی لوٹا اور سکندراعظم کو اپنے ساتھ لے کر اس چشمے والی جگہ پر آیا مگر تب وہ چشمہ غائب ہو چکا تھا۔

’19ویں صدی کے آخر تک سکھر میں ہندو اور مسلمان مل کر زندہ پیر کی پوجا کرتے تھے۔ 1874ء گزیٹ میں اس کا ذکر ملتا ہے۔ مگر جب 1919ء میں سندھ گزیٹیئر شائع ہوا تو اس وقت تک ہندو اس جزیرے سے نقل مکانی کر چکے تھے۔ کیونکہ 1880ء میں اس آستان پر ہندو مسلم تکرار ہوئی اور معاملہ انگریز سرکار کی عدالت تک گیا، عدالت نے مسلمانوں کے حق میں فیصلہ دیا۔ 1956ء میں دریائے سندھ میں آنے والا سیلاب اس جزیرے سے قدیم تعمیرات کو اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔ 1940ء کے ایک میگزین ’سندھین ورلڈ‘ کی رپورٹ میں یہ تحریر موجود ہے کہ، طغیانی کے موسم میں خواجہ خضر کشتی چلانے والوں کا محافظ ہوتا ہے۔ آج بھی فقیر اور مہانے یہ کہتے ہیں کہ زندہ پیر دریا کا بادشاہ ہے۔ وہ پانی میں رہتا ہے اور دریا اس کے حکم سے بہتا ہے وہ جس طرح چاہے کر سکتا ہے۔۔۔‘

   خواجہ خضر کے جزیرے سے شمال میں مہانوں کی چھونپڑیاں
خواجہ خضر کے جزیرے سے شمال میں مہانوں کی چھونپڑیاں

ہم جب دریا کے پانی کی بچھی چادر پر سفر کرتے تھے تو ایک ایسی کیفیت جنم لیتی تھی جس کے ذائقے سے میں پہلے واقف نہیں تھا۔ یہ شاید اس لیے بھی تھا کہ اس وسیع اور اسراروں سے بھرے دریا کے متعلق بے تحاشا مواد پڑھا تھا مگر اس پر سفر میں پہلی بار کر رہا تھا۔ میں جب آج صبح کے ابتدائی پہروں میں سادھ بیلو کے جزیرے پر گیا تھا تو جہاں نظر جاتی شیر دریا کا مٹیالا پانی نظر کے ساتھ ساتھ چلتا اور جس کی وسعت اور گہرائی دیکھ کر آپ کے اندر میں ایک عجیب کیفیت پنپتی ہے۔ یہ کیفیت احترام کے پرندے پر سوار ہوکر آپ کے ذہن اور دل کے آسمان پر گھومتی پھرتی ہے۔ اس کے دُور نظر آتے کناروں پر جب نظر پڑتی ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے یہ کسی جادوئی قلعے کی سرحدیں ہوں۔

ہم پانی کے بہاؤ پر چلتے بکھر قلعے کی قدیم دیواروں سے گزرے جن کو دریا کی ننھی منی لہریں ایسے تھپکتی تھیں جیسے کوئی اپنے پیارے کو پیار آنے پر تھپکتا ہے۔ سی گَل پرندے ہیں جو اڑتے ہیں اور تھوڑی دیر کسی پتھر یا کنارے کی ٹھنڈی مٹی پر بیٹھتے ہیں اور پھر اڑتے ہیں۔ ہم یہ سب شاندار منظر دیکھتے ایک سحر کی کیفیت میں خواجہ خضر کے جزیرے پر پہنچے۔ میرے پاس کچھ تصاویر ہیں جو برٹش زمانے کی ہیں آپ وہ دیکھ لیں تو آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ یہ ایک زمانے میں ایک وسیع جزیرہ رہا ہے۔ مگر اب زوال کے ان شب و روز سے گزر رہا ہے جس میں فنا کی وادی آباد ہوتی ہے۔

رچرڈ برٹن کے ساتھ اور بھی بہت سارے لوگوں کی آنکھیں کتنی خوش نصیب تھیں جن کو یہاں وہ شاندار مرکزی دروازہ دیکھنے کو ملا، گنبدوں والی خانقاہ بھی دیکھنے کو ملی، وہ غار بھی دیکھا جس کے متعلق بہت ساری کتھائیں مشہور ہیں۔ مگر اب یہ ایک مختصر سا جزیرہ ہے۔ جزیرے کے شمال اور مشرق میں پرانی تعمیرات کے تھوڑے سے نشان اب بھی دیکھے جاسکتے ہیں مگر جس تیزی سے دریا کا پانی دھیرے دھیرے اس جزیرے کو نگل رہا ہے تو آنے والے 50 برسوں تک کوئی معجزہ ہی اس جزیرے کو بچا سکتا ہے۔ گنبدی تعمیر کی جگہ پر ایک چھتری ہے جس پر آستانہ خواجہ خضر لکھا ہے۔ جزیرے کے جنوب مغربی کونے پر مسجد ہے اور کچھ کتبے ہیں۔ کچھ درخت اب بھی ہیں جو گرم دنوں میں یقیناً فرحت دیتے ہوں گے۔ کچھ لوگ ہیں جو یہاں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ ہمارے ہوتے ہوئے ایک دو کشتیوں پر لوگ خواجہ خضر کا آستان دیکھنے کے لیے آئے۔

   خواجہ خضر کا جزیرہ
خواجہ خضر کا جزیرہ

   خواجہ خضر یا زندہ پیر کا جزیرہ
خواجہ خضر یا زندہ پیر کا جزیرہ

   یہ جزیرہ رفتہ رفتہ دریا کی نظر ہورہا ہے
یہ جزیرہ رفتہ رفتہ دریا کی نظر ہورہا ہے

   جزیرے سے شمال کی جانب دیکھتے ہوئے
جزیرے سے شمال کی جانب دیکھتے ہوئے

   جزیرے کا ایک منظر
جزیرے کا ایک منظر

اس قدیم مقام کی خستگی کے متعلق میں نے روہڑی کے باسی اور تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے محترم امداد حسین شاہ سے پوچھا تو جواب آیا کہ 1956ء میں دریا کے سیلابی پانی میں خواجہ خضر کے اس آستان کا بہت بڑا حصہ بہہ گیا جس کی وجہ سے ایک بڑے حصے پر جو تعمیرات تھیں وہ بھی دریا برد ہوگئیں۔ اب یہ جزیرہ دھیرے دھیرے ختم ہو رہا ہے، جب دریا میں بارشوں یا میلٹنگ سیزن میں پانی زیادہ آتا ہے تو اس جزیرے کی زمین بہا کر لے جاتا ہے۔ اگر جزیرے کو بچانے کے لیے آرکیالوجی ڈپارٹمنٹ نے کوئی قدم نہیں اٹھایا، جیسے جزیرے کے گرد حفاظتی دیوار کی تعمیر وغیرہ، تو آنے والے 20 برس میں شاید یہاں اس جزیرے کا کوئی نشان بھی نہ بچے۔

آستان پر آئے زوال کے موسم کے ساتھ یہاں آپ کو قدیم دنوں کی یادگار ضرور ملے گی۔ وہاں پیپل کے درختوں کے نیچے دیے روشن کرنے کی مخصوص تعمیرات ہیں۔ شمال کی طرف ایک دیا اکثر روشن رہتا ہے۔ مگر دوسرے دیے بجھے ہوئے تھے۔ ان بجھے ہوئے دیوں کے متعلق جواب بھی ہمیں امداد حسین شاہ صاحب سے ملا کہ یہاں رات کو 5 دیے روشن کیے جاتے ہیں اور ان کو روشن کرنے کے لیے روہڑی کے میرانیوں کے ’عبداللہ پبو‘ کا خاندان جو روہڑی میں دریا کنارے رہتے ہیں ان کی یہ ڈیوٹی ہے کہ سانجھ کے وقت یہاں سے ان کا کوئی آدمی جیسے آج کل شیر محمد میرانی اپنی کشتی پر نکلتا ہے اور 5 دیے روشن کرکے لوٹ آتا ہے۔

   جزیرے پر دیے روشن کرنے کی جگہ
جزیرے پر دیے روشن کرنے کی جگہ

   یہاں روز رات کو 5 دیے روشن کیے جاتے ہیں
یہاں روز رات کو 5 دیے روشن کیے جاتے ہیں

یوں سورج ڈوبتے ہی اس آستان پر 5 دیے روشن ہو جاتے ہیں۔ میں چاہتا تھا کہ روہڑی کی بستی اور دریائے سندھ کے کنارے سے رات کے وقت اس جزیرے پر روشن ان 5 دیوں کو ضرور دیکھوں کہ اس سحر انگیز منظر کو ختم ہونے میں شاید کچھ زیادہ برس نہیں ہیں۔ مگر مسافروں کی اکثر تمنائیں کہاں پوری ہوتی ہیں۔ وہ کتنے خوش نصیب لوگ ہیں جو رات کو روشن دیوں کی روشنی دیکھتے ہوں گے اور جب اماوس کی راتیں ہوں گی تو دیے زیادہ روشن نظر آتے ہوں گے۔ شیر دریا میں پھرپور پانی بہتا ہوگا تو ان دیوں کے عکس اس کے مٹیالے پانی میں بھی ضرور نظر آتے ہوں گے۔ کتھا پھر وہاں لوٹ آتی ہے جہاں سے شروع ہوئی تھی کہ صدیوں پہلے اس وسیع جزیرے پر دیے کی روشنی نظر آتی تھی بس فرق اتنا ہے کہ ان زمانوں میں لوگ جب یہاں آتے تھے تو روشنی غائب ہو جاتی تھی مگر اب یہ روشنی غائب نہیں ہوتی۔

حوالہ جات

  • ’بندہ بشر‘ ۔ یووال نوح ہراری۔ 2019ء ۔ سٹی بک پوائنٹ، کراچی
  • ’سندھ منھنجی نظر میں‘۔ رچرڈ ایف برٹن۔ 2012ء۔ سندھیکا، کراچی
  • ’تاریخ کے مسافر‘۔ ابوبکر شیخ۔ 2018ء۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
  • ’سکھر‘۔ رحیمداد مولائی شیدائی۔ 2005ء۔ سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد
  • ’تاریخ فرشتہ‘۔ محمد قاسم فرشتہ۔ 2013ء۔ المیزان پبلشرز۔ لاہور
  • ’سفرنامہ ابن بطوطہ‘۔ رئیس احمد جعفری۔ 2016ء۔ بک کارنر، جہلم
  • ’سندھ گزیٹیئر‘ ۔ ای۔ ڈبلیو۔ ہیوز۔ 2017ء۔ روشنی پبلیکیشنز، حیدرآباد
  • ’بھٹ جو شاہ‘ ۔ ایچ۔ ٹی۔ سورلی۔ 2012ء ۔ سندھیکا، کراچی
  • Empires of the Indus. Alice Albinia. 2008. John Murray publisher, London.