اپنی کشتی لنگر انداز کرنے کی تیاری کرنے والے علی گل ملاح کو موسمیاتی تبدیلی کا علم نہیں ہے مگر وہ سیلابی پانی میں مچھلی کا شکار کرنے کو روزگار کی مجبوری قرار دیتے ہوئے اسی سے اہلِ خانہ کی کفالت کرتے ہیں۔

55 سالہ علی گل ملاح کا تعلق سندھ کے زرخیز ضلع میرپورخاص کی تحصیل جھڈو سے ہے جہاں موسمیاتی تبدیلی اور غیر معمولی بارشوں کے باعث آنے والے سیلاب نے شدید تباہی مچادی تھی جس کے نقصانات کا ازالہ تاحال نہیں ہوسکا۔

علی گل ملاح اپنے دو ساتھیوں کے ہمراہ کشتی لنگر انداز کرکے جھڈو کے ان علاقوں میں جانے کی تیاری کر رہے تھے جہاں ابھی تک سیلابی پانی موجود ہے مگر ان کو فکر ہے کہ وہ واپسی میں اپنے اہلِ خانہ کے لیے اشیا خورو نوش لا پائیں گے یا نہیں۔

علی گل ملاح اپنی کشتی لنگر انداز کرتے ہوئے— تصویر: اسحٰق ساگر
علی گل ملاح اپنی کشتی لنگر انداز کرتے ہوئے— تصویر: اسحٰق ساگر

’شدید بارشوں کے بعد آنے والے تباہ کن سیلاب نے ہماری زندگی کو شدید متاثر کیا ہے۔ اس کی وجہ سے ہمارے گھر زیرِ آب آگئے، روزگار مکمل طور پر ختم ہوگیا اور کافی عرصے تک کھلے آسمان تلے زمین پر زندگی گزارنا پڑی‘، علی گل نے اپنے حالات کا ذکر کرتے ہوئے کہا۔

علی گل نے مچھلی پکڑنے کا جال سیلابی پانی میں پھینکتے ہوئے کہا کہ ’جب سیلابی پانی ہمارے گھروں میں داخل ہوا تو یہ سوچ تھی کہ کسی طرح زندگی بچ جائے باقی گھر میں موجود تھوڑی بہت جمع پونجی تو پانی اپنے ساتھ بہا لے گیا تھا۔ ابھی تک ہمارے گھر نہیں بنے، زندگی مشکلات سے دوچار ہوگئی ہے، سیلابی پانی میں بڑی مشکل سے مچھلی کا شکار کرکے مقامی سطح پر فروخت کرتے ہیں مگر اس سے بھی روزمرہ کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہیں‘۔

علی گل ملاح— تصویر: اسحٰق ساگر
علی گل ملاح— تصویر: اسحٰق ساگر

علی گل نے کہا کہ ’بارشوں میں ہر طرف پانی ہی پانی تھا، نہ سونے کی جگہ نہ ہی زندگی کی ضروریات پوری کرنے کی اجازت تھی، لیکن امید تھی کہ یہ وقت جلد گزر جائے گا مگر ابھی تک وہی صورتحال ہے کیونکہ حکومت کی طرف سے نہ گھر بنائے گئے ہیں نہ ہی سیلابی پانی نکالا گیا ہے۔ اس کی وجہ سے آلودہ پانی سے انتہائی کم مقدار میں مچھلی پکڑی جاتی ہے اور گزارا مشکل سے ہی ہوتا ہے‘۔

صوبائی ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کے مطابق موسمِ گرما میں تباہ کن سیلاب کی وجہ سے صوبے بھر میں بچوں اور خواتین سمیت 814 افراد جاں بحق ہوگئے، 20 لاکھ خاندان اور ایک کروڑ 23 لاکھ 56 ہزار 860 افراد اس سے متاثر ہوئے، 8 ہزار 422 افراد زخمی ہوئے، 14 لاکھ 36 ہزار 914 گھر مکمل طور پر جبکہ 6 لاکھ 50 ہزار گھر جزوی طور پر متاثر ہوئے۔

پی ڈی ایم اے کے مطابق شدید بارشوں کے بعد آنے والے سیلاب کے دوران صوبے بھر میں 89 ہزار افراد بے گھر ہوئے، 37 لاکھ 80 ہزار ایکڑ پر مشتمل کھڑی فصلیں زیرِ آب آگئیں اور 4 لاکھ 37 ہزار مویشی ہلاک ہوئے۔

اسسٹنٹ کشمنر جھڈو ریحان ڈیتھو نے کہا کہ ’موسمِ گرما میں غیر معمولی بارشوں کے باعث سندھ پر ضلع میرپورخاص کا تعلقہ جھڈو سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ نران ندی میں اوور فلو اور ٹوٹ پھوٹ کے باعث جھڈو شہر زیر آب آیا جس نے تباہی مچادی اور ہزاروں لوگ بے گھر ہوگئے۔ تاہم ضلعی انتظامیہ متاثرین کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے پہلے دن سے انتھک محنت کر رہی ہے‘۔

اسسٹنٹ کمشنر نے کہا کہ ’حکومت کی طرف سے سیلاب متاثرین کے لیے وہ اقدامات نہیں کیے گئے جو ہونے چاہیے تھے جس کی وجہ سے ہزاروں لوگوں کو طویل عرصے تک مشکلات کا سامنا کرنا پڑا‘۔ انہوں نے کہا کہ ’اگست 2022ء میں عہدے کی ذمہ داری لینے کے بعد جھڈو شہر کے سیلاب متاثرین میں 25 ہزار سے زائد راشن بیگ اور 5 ہزار خیمے تقسیم کیے جبکہ این جی اوز بھی ضلعی انتظامیہ کی مدد سے کام کر رہی ہیں، اسی طرح اب تک مختلف تنظیموں کی جانب سے 30 ہزار سے زائد راشن بیگ تقسیم کیے جاچکے ہیں‘۔

ان کے مطابق ضلعی انتظامیہ نے جھڈو شہر میں 2 ریلیف کیمپ قائم کیے جہاں تقریباً 40 دنوں تک 1500 سے زائد افراد کی امداد کی گئی اور انہیں کھانا اور دیگر سہولیات فراہم کی گئیں۔

اسسٹنٹ کمشنر نے ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’لوگوں کی حالت بہت خراب تھی، تقریباً 30 ہزار لوگ شدید متاثر ہوچکے تھے، ایک افسر ہونے کے ناطے نہیں مگر ایک انسان ہونے کے ناطے میں دن رات اسی سوچ میں تھا کہ مصیبت سے دوچار شہریوں کی کس طرح مدد کی جائے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’جہاں تک جھڈو میں صحت کی سہولیات کا تعلق ہے تو یہاں 10 میڈیکل کیمپ لگائے گئے ہیں جن میں بچوں اور خواتین سمیت 15 ہزار سے زائد مریض آئے۔ ان میں جلد، ڈائریا، آنکھوں کی بیماری، گائنی، دل اور دیگر عام امراض کا معائنہ کیا گیا اور انہیں ادویات بھی فراہم کی گئیں‘۔

اسسٹنٹ کمشنر جھڈو ریحان ڈیتھو سیلاب کے دوران متاثرہ بچوں کے لیے قائم عارضی اسکول میں موجود—فوٹو: ضلعی انتظامیہ
اسسٹنٹ کمشنر جھڈو ریحان ڈیتھو سیلاب کے دوران متاثرہ بچوں کے لیے قائم عارضی اسکول میں موجود—فوٹو: ضلعی انتظامیہ

اسسٹنٹ کمشنر نے مزید کہا کہ ’بچوں کو تعلیمی سرگرمیوں میں شامل کرنے کے لیے 15 خیمہ اسکول قائم کیے گئے۔ اب تک بڑی تعداد میں متاثرین اپنے گھروں کو لوٹ چکے ہیں مگر اب بھی سیکڑوں ایسے متاثرین ہیں جو خیموں میں مقیم ہیں۔ جہاں تک پانی کی سطح کا تعلق ہے تو 95 فیصد پانی نکل چکا ہے لیکن 5 فیصد باقی ہے جو کہ نشیبی علاقوں میں ہے‘۔

محکمہ موسمیات کے مطابق پاکستان میں گزشتہ سال (2022ء میں) مون سون کا موسم 30 جون کو شروع ہوا اور ستمبر کے تیسرے ہفتے میں ختم ہوا تاہم 4 جولائی کے بعد سے مسلسل بارشیں ہوئیں اور پاکستان میں مجموعی طور پر اوسط سے بہت زیادہ بارشیں ہوئیں۔

محکمہ موسمیات نے واضح کیا ہے کہ مون سون موسم کے دوران دو صوبوں سندھ اور بلوچستان میں اوسط سے زیادہ بارشیں ہوئیں جہاں سندھ میں 426 فیصد اور بلوچستان میں 450 فیصد زیادہ بارشیں ہوئیں جبکہ پنجاب میں 70 فیصد اور خیبرپختونخوا میں 33 فیصد زیادہ بارشیں ہوئیں۔ بلوچستان، سندھ، جنوب مغربی پنجاب اور خیبر پختونخوا میں بڑے پیمانے پر تباہ کن سیلابی ریلوں کی وجہ سے 1700 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے جبکہ فصلوں اور املاک کا ناقابل تلافی نقصان ہوا۔

مون سون کے دوران جاں بحق ہونے والے افراد کا ڈیٹا—فوٹو: بشکریہ صوبائی ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی
مون سون کے دوران جاں بحق ہونے والے افراد کا ڈیٹا—فوٹو: بشکریہ صوبائی ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی

کیا سیلابی پانی کی مچھلی مضر صحت ہوتی ہے؟

عمومی طور پر جب مقامی سطح پر مچھیرے مچھلی کا شکار کرکے اسے بازار میں فروخت کرتے ہیں تو لوگوں کو شبہہ ہوتا ہے کہ کہیں یہ مچھلی مضر صحت تو نہیں ہے۔

اس سلسلے میں ڈپٹی ڈائریکٹر فشریز معیز گھانگھرو نے بتایا کہ ’اس کا انحصار پانی کی کمیسٹری پر ہے کہ وہ کس طرح کا ہے، اگر مچھلیاں سیلابی پانی میں ہے تو یقیناً وہ مقامی مچھلی فارمز سے بہہ کر آئی ہوں گی جہاں ان کا مکمل خیال رکھا جاتا ہے، لہٰذا وہ مچھلی مضر صحت نہیں ہے‘۔

سیلابی پانی میں نصب مچھلی پکڑنے کا جال— تصویر: اسحٰق ساگر
سیلابی پانی میں نصب مچھلی پکڑنے کا جال— تصویر: اسحٰق ساگر

معیز گھانگھرو نے بتایا کہ ’آلودہ اور طویل عرصے تک ٹہرے ہوئے پانی میں ہونے والی مچھلی کو اگر بہتر غذا ملتی رہی ہو تو وہ مضر صحت نہیں ہوتی لیکن اگر اس مچھلی کی صحت پر اس آلودہ پانی کا اثر ہو تو وہ ممکنہ طور پر صحت کے لیے نقصاندہ ہوسکتی ہے‘۔

ماہرِ ماحولیات ناصر علی پنہور نے بتایا کہ ’موسمیاتی تبدیلی انسان کی پیدا کی گئی ہے کیونکہ فوسل فیولز کے استعمال نے گلوبل وارمنگ میں اہم کردار ادا کیا ہے، لہٰذا اب وقت آگیا ہے کہ ہم قابلِ تجدید توانائی کے ذرائع کی طرف بڑھیں۔ انہوں نے کہا کہ اب پاکستان میں 4 موسموں کے بجائے صرف دو موسم (سردی اور گرمی) ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے ماحول کو بدل دیا ہے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’تیل، گیس اور کوئلہ ماحول کے دشمن ہیں جبکہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے سندھ میں خشک سالی، ہیٹ ویو، سائیکلون اور سیلاب آرہے ہیں اور سطح سمندر بھی بڑھ رہی ہے‘۔

علی گل ملاح روزگار کی تلاش میں— تصویر: اسحٰق ساگر
علی گل ملاح روزگار کی تلاش میں— تصویر: اسحٰق ساگر

انہوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ ’سندھ میں شہر کاری تیزی سے بڑھ رہی ہے اس لیے صوبے کا بنیادی ڈھانچہ ٹھیک کرنے کے لیے اس میں بہتری لانے کی ضرورت ہے‘۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’پاکستان نے پیرس معاہدے پر دستخط کردیے ہیں اس لیے اب ہمیں اس پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے کیونکہ ماحولیاتی مسائل ملک کی آبادی کی ایک بڑی تعداد کو متاثر کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ملک میں پڑے پیمانے پر درخت لگانے کی مہم شروع کرنے کی ضرورت ہے‘۔

انہوں تجویز دیتے ہوئے کہا کہ سندھ کو 2022ء میں منظور شدہ موسمیاتی تبدیلی کی پالیسی کو لاگو کرنا چاہیے اور مجموعی ترقیاتی پالیسی میں اسے شامل کرنا چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں