لکھاری ماہرِ سیاسی معاشیات اور آئی بی اے کراچی کے سربراہ ہیں.
لکھاری ماہرِ سیاسی معاشیات اور آئی بی اے کراچی کے سربراہ ہیں.

وقت کا کیسا حسین ستم ہے۔ وہ ادارہ جسے دنیا بھر کے درجنوں ممالک میں عوام مخالف، اشرافیہ کا دوست اور بڑھتی ہوئی غربت، افلاس اور بدحالی کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے، اب اسی ادارے کو پاکستان کے واحد نجات دہندہ کر طور پر دیکھا جارہا ہے۔

ہمارے حکمران ایک سال سے معطل آئی ایم ایف معاہدے کو ایک بار پھر شروع کرنا چاہتے ہیں۔

’آئی ایم ایف کے علاوہ کوئی متبادل نہیں ہے‘، یہ الفاظ ہر اخباری کالم اور ٹی وی ٹاک شوز میں بار بار دہرائے جارہے ہیں۔ یہ الفاظ اتنی بار دہرائے جاچکے ہیں کہ یہ اب سننے والوں کو روایتی لگنے لگیں ہیں۔

ہم یہ جملے سنتے ہیں کہ اگر ہم آئی ایم ایف کے پاس نہیں گئے تو ’ہم‘ تباہ ہوجائیں گے، اگر ہم ’اصلاحات‘ کے لیے متفق نہیں ہوئے تو ہم دیوالیہ ہوجائیں گے اور پھر کوئی بھی ’ہمیں‘ مالی مدد فراہم نہیں کرے گا۔

یہ الفاظ نیا ترانہ بن گئے ہیں جسے روزانہ ہمارے سامنے پڑھا جاتا ہے۔ ’مالی بدحالی‘ سر پر ہے، ’معیشت تباہی‘ کے دہانے پر ہے، اب ’آئی ایم ایف ہی ہمیں بچا سکتا ہے‘۔ یہ وہ چند جملے ہیں جو عوامی حلقوں میں مسلسل گردش کررہے ہیں۔

کچھ ماہرِ اقتصادیات ہمیں متنبہ کرتے ہیں کہ اگر ہم آئی ایم ایف کی سخت شرائط مان لیں گے تو ہمارے موجودہ افراطِ زر کی شرح جو اس وقت 25 فیصد پر ہے وہ 35 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔ جس کے بعد ڈالر جو گزشتہ مہینوں میں 200 روپے سے زائد کا ہونے پر بدنام تھا، اگر آئی ایم ایف کے مطالبات مان لیے تو ڈالر 300 کی حد بھی پار کرلے گا۔

بجلی اور گیس اگر عوام کے لیے دستیاب ہوگی تو اس کی قیمتوں میں بھی ہوشربا اضافہ ہوگا۔ پیٹرول سمیت ان تمام اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا جن پر ہماری معیشت منحصر ہے۔ درآمدات بھی کافی حد تک مہنگی ہوجائیں گی جس کے بغیر ہماری اشرافیہ ادھوری ہے۔

اس بات کو ثابت کرنے کے لیے ہم یہ بتادیتے ہیں کہ گزشتہ 6 ماہ سے ڈالرز کی عدم دستیابی کے باعث ہم معاشی بحران کا سامنا کررہے ہیں لیکن اس کے باوجود 2,200 لگژری گاڑیاں پاکستان میں درآمد کی گئی ہیں اور افسوسناک بات یہ ہے کہ مارکیٹوں میں ادویات، دیگر ضروریاتِ زندگی اور خام مال دستیاب نہیں ہے۔

پھر یہی تجزیہ کار اعتراف کرتے ہیں کہ اگر ہم آئی ایم ایف کی سخت شرائط تسلیم کرلیتے ہیں تو صورتحال صرف بدتر ہوگی لیکن اگر ہم ان شرائط کو نہیں مانتے تو ہم ممکنہ طور پر ڈیفالٹ ہوجائیں گے۔ ان میں سے بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں ڈیفالٹ اور آئی ایم ایف کی سخت شرائط میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے۔ اسی طرح ہمیں افراطِ زر کی 35 فیصد اور 70 فیصد شرح میں سے بھی کسی ایک کو چننا ہے۔

پاکستان اگر آئی ایم ایف کی اس کڑوی گولی کو نگلنے سے انکار کرتا ہے تو اس کا مستقبل بھی سری لنکا سے کچھ مختلف نہیں ہوگا۔

پاکستان کی حکمران اشرافیہ جس میں ملٹری اور سویلین دونوں موجود ہیں، ان کے لیے ہمیشہ آئی ایم ایف واحد حل ہوتا ہے۔ وہی ان کا نجات دہندہ ہے۔ یہ اشرافیہ برسوں سے مؤثر اصلاحات لانے میں ناکام ہے جبکہ دہائیوں سے یہ خاطر خواہ اقتصادی اصلاحات کی پالیسی بھی ترتیب نہیں دے پائے ہیں۔

البتہ ہماری حکمران اشرافیہ اپنی لوٹ مار کے ذریعے ہمارے ملک کو ڈیفالٹ اور معاشی تباہی کے دہانے پر لے آئے ہیں۔ جب ڈوبتی معیشت کو بچانا ان کے اختیار میں نہیں رہتا تب اشرافیہ مدد کے لیے آئی ایم ایف کی جانب دیکھنے لگتی ہے۔

جیسا کہ اس تحریر میں پہلے استدلال کیا جاچکا ہے کہ ہم ان سنگین معاشی مسائل کا شکار آئی ایم ایف کی جانب سے مسلط کی جانے والی شرائط کی وجہ سے نہیں ہیں بلکہ یہ ہماری منتخب (یا سلیکٹڈ) حکومتوں کی نااہلی کا نتیجہ ہے۔

آئی ایم ایف کبھی بھی معیشت پر خود قبضہ نہیں کرتا بلکہ ہماری اشرافیہ اس کی شرائط کے آگے ہتھیار ڈال کر اسے اپنی معیشت پر قبضہ کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ اور پھر وہ اپنی ساکھ کو بچانے کے لیے عالمی مالیاتی ادارے کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔

ہماری اشرافیہ یہ کڑوی گولی نگلنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک احمقانہ مفروضہ یہ بھی پیش کیا جاتا ہے کہ اگر آئی ایم ایف کے مطالبات تسلیم کرلیے جائیں یا اگر وہ ملک کی اقتصادی پالیسی چلائیں گے تو اس سے پاکستان کو قرضہ دینے اور اس میں سرمایہ کاری کرنے والے ممالک سے زیادہ رقم آئے گی۔

یہاں آئی ایم ایف کے ’ہمارے‘ ملک کو بچانے، ’ہماری‘ معیشت کی گراوٹ وغیرہ جیسے اہم مسائل میں ’ہم‘ کا کردار کلیدی رہا ہے۔ حقیقت میں ’ہم‘ جیسی کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ یکطرفہ، اجتماعی، آفاقی اور تفریقی تصور ہے۔ آبادی کے مختلف حصوں اور طبقات کے درمیان تفریق کو مدِنظر رکھنا ضروری ہے کیونکہ جیسا کہ ہم جانتے ہیں، اقتصادی پالیسی یا کسی بھی پالیسی کا سب پر یکساں اطلاق نہیں ہوتا ہے۔

ہر معاشرے اور ملک میں، غیر مساوی سماجی، اقتصادی اور سیاسی ادارے اور گروہ موجود ہوتے ہیں، جو تمام سیاسی، معاشی یا سماجی عمل سے مختلف سطح پر ان اقدامات سے مختلف انداز میں متاثر ہوتے ہیں۔

مثال کے طور پر اس بات سے کوئی انکاری نہیں ہے کہ ہماری معیشت بدحالی کے دلدل میں دھنس چکی ہے لیکن پھر بھی یہ صورتحال مختلف لوگوں، جنسوں اور نسلی گروہوں کو مختلف طریقے سے متاثر کرتی ہے۔ مختلف آمدنی والے گروہوں کے لیے مالیاتی تباہی یا معاشی بدحالی کے نتائج بھی مختلف ہوتے ہیں۔

اور یہی وہ موقع ہے جہاں آئی ایم ایف سامنے آتا ہے۔ اس غیر مساوی معاشرے پر آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط بھی غیر مساوی طور پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ اگرچہ ہر کسی کو ہی مہنگائی کا سامنا ہے خواہ وہ 35 فیصد ہو یا 70 فیصد، لیکن وہ طبقہ جو غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہا ہے اس کے اوپر مہنگائی کا بوجھ زیادہ ہوتا ہے۔ افراط زر، کفایت شعاری، مالیاتی نظم و ضبط، تمام معاشی عوامل اور مداخلت، ملکی آبادی میں غیر مساوی طور پر تقسیم ہوتے ہیں۔ اس صورتحال میں ’ہم‘ کوئی تصور نہیں ہے اور نہ ہی ’ملک‘ کو بچانے کا کوئی یکساں تصور ہے۔

جبکہ ان حالات میں اشرافیہ بھی کچھ عرصے کے لیے کفایت شعاری کرکے ’ایڈجسٹمنٹ‘ کرلیں گے لیکن معیشت کو بچانے کے بعد اس سے مستفید بھی سب سے زیادہ یہی لوگ ہوں گے۔ ملک میں ڈالر کی عدم دستیابی، قیمتوں میں اضافہ، زرِمبادلہ کی شرح منڈی کے مطابق چلانے سمیت یہ تمام عناصر ہماری اشرافیہ کو آئی ایم ایف کی سخت شرائط کے حوالے سے سوچنے پر مجبور کر رہے ہیں۔

ایڈجمسٹمنٹ کے تحت ہونے والے معاہدوں سے صرف سرمائے اور اس سے فائدہ اٹھانے والے لوگ مستفید ہوتے ہیں۔ طبقات، جنس اور علاقائی بنیادوں پر توانائی یا سرمائے کی تقسیم جیسی ساختی اصلاحات کبھی بھی ہمارے ایڈجسٹمنٹ پروگرام کا حصہ نہیں رہی۔

لہٰذا آئی ایم ایف یہاں ’ہمیں‘ یا ’ہمارے‘ ملک کے لیے نہیں بلکہ ’کچھ افراد‘ اور ’ان کے ملک‘ کے لیے نجات دہندہ ہے۔


یہ مضمون 26 جنوری 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں