عماد پارکور: ’پارکور کا شوق میری رگوں میں خون کی طرح شامل ہے‘

21 فروری 2023
عماد پارکور بیک فلپ کرکے اپنی مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے — تصویر: لکھاری
عماد پارکور بیک فلپ کرکے اپنی مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے — تصویر: لکھاری

اس بات سے سب ہی واقف ہیں کہ پاکستانیوں میں کرکٹ، ہاکی اور اسکواش کے علاوہ دیگر بین الاقوامی کھیلوں میں حصہ لینے کا رجحان موجود ہے۔ ہمارے ملک میں ایسے بےشمار کھلاڑی موجود ہیں جو حکومت کی عدم دلچسپی یا پھر وسائل کی کمی کے باعث اپنے متعلقہ کھیلوں میں شہرت کمانے میں کامیاب نہیں ہوتے۔

ایسا ہی ایک کھیل پارکور (parkour) ہے۔ اگر آپ اس کھیل سے ناواقف ہیں تو آپ کو بتا دیتے ہیں کہ پارکور مصنوعی یا قدرتی ماحول میں رکاوٹوں کو عبور کرنے کے لیے دوڑنے، کودنے اور اس جیسی دیگر حرکات کی مشق کا نام ہے تاکہ کسی بھی طرح کے آلات کے استعمال کے بغیر ایک جگہ سے دوسری جگہ آسانی اور تیزی سے سفر کو ممکن بنایا جاسکے۔

عماد پارکور (جیسا کہ ان کے نام سے ہی ظاہر ہے) کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے پروفیشنل ٹریسر (پارکور کرنے والے) ہیں۔ آپ نے انہیں متعدد بار اسکرین پر پرفارم کرتے ہوئے بھی دیکھا ہوگا لیکن شاید کسی اور کے روپ میں۔ ایسا اس لیے کیونکہ وہ پروفیشنل اسٹنٹ مین بھی ہیں۔ انہوں نے مقبول پاکستانی فلموں ’تیفا ان ٹربل‘، ’عمروعیار‘ اور متعدد اشتہارات میں بھی بطور اسٹنٹ مین کام کیا ہے۔

عماد نے ای او ایس کو بتایا کہ ’فلموں کا تجربہ اچھا رہا۔ جب میں کسی مدد کے بغیر اسٹنٹ کیا کرتا تھا تو اس وقت فلم کے عملے کو حیرت زدہ دیکھ کر میں کافی لطف اندوز ہوتا تھا۔‘

انہوں نے ہنستے ہوئے بتایا کہ، ’میں اور میری ٹیم اسٹنٹ کرتے ہوئے کسی سہارے کا استعمال نہیں کرتے۔ ہمیں فلم کے اسٹنٹ ڈائریکٹر نے کہا کہ انہوں نے کبھی بھی حفاظتی اقدامات کے بغیر اسٹنٹ شوٹ نہیں کیا لیکن ان کے الفاظ کو ہم نے ایک کان سے سن کے دوسرے کان سے نکال دیا کیونکہ ہم اسی طرح کام کرتے ہیں بغیر کسی رسی اور میٹریس کے۔‘

عماد نے بتایا کہ، ’صنم سعید، علی کاظمی اور عثمان مختار جیسے اداکار ہمیں بغیر سہارے کے فلپس کرتے دیکھ کر بہت حیران تھے۔ اداکاروں کو علم ہوتا ہے کہ کس طرح آسان اسٹنٹ کو کیمرے کا استعمال کرکے پُرخطر مناظر کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے لیکن انہوں نے اپنی آنکھوں سے اصل اسٹنٹ ہوتے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ حیران تھے کیونکہ یہ سب ان کے لیے نیا تجربہ تھا۔‘

عماد ہمیشہ سے ایک اسٹنٹ مین نہیں تھے۔ انہوں نے 13 سال کی عمر میں اپنے اس منفرد شوق کی ابتدا ووشو آرٹسٹ کے طور پر کی۔ ووشو کی تربیت کے دوران پیچھے کی جانب قلابازی لگانا ان کا پسندیدہ موو تھا۔ عماد نے اس ایکروبیٹک موو کو اپنے کلب میں تربیت حاصل کرنے والے سینیئرز کو پرفارم کرتے ہوئے دیکھا تھا۔

اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ، ’ایسی حرکات میں نے صرف جیکی چین اور ڈیوڈ بیلے کی فلموں میں ہی دیکھی تھیں اگرچہ اس وقت مجھے اسٹنٹ کوریوگرافی کے بارے میں زیادہ معلومات بھی نہیں تھیں۔‘

پارکور کھیل کو مکمل طور پر اختیار کرنے سے قبل عماد نے ووشو میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور 2014ء میں لاہور میں منعقد ہونے والی نیشنل چیمپئن شپ میں ووشو مقابلوں میں سونے کا تمغہ جیتا۔ انہوں نے جیو جتسو نیوازا نیشنل چیمپئن شپ میں چاندی کے دو تمغے جیتے۔ عماد نے سال 2015ء اور 2019ء کے درمیان ہونے والی آرمی ووشو چیمپیئن شپ میں بھی حصہ لیا تھا۔

عماد نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’یہاں میں ایک بات واضح کردوں کہ پارکور جمناسٹکس سے بہت مختلف ہے۔ جمناسٹکس چند کرتب اور حرکات کا کھیل ہے جو اپنے اصولوں میں محدود ہے جبکہ پارکور ایک شاندار کھیل ہے۔ اس کو کھیلنا ہی خوبصورتی ہے۔ اور جب آپ اس میں مزید قلابازیاں اور اسٹنٹس شامل کرتے ہیں تو یہ کھیل دیکھنے والوں کو مزید پُرکشش لگنے لگتا ہے۔‘

عماد نے ای او ایس سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے قومی شناختی کارڈ پر صرف ان کا پہلا نام عماد درج ہے۔

انہوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ، ’میں نے یہ اس لیے کیا کیونکہ میں پارکور کو اپنی شناخت کا حصہ اور اپنا دوسرا نام بنانا چاہتا ہوں تاکہ جب کوئی گوگل پر پارکور کو سرچ کرے تو میرا نام بھی وہاں اس کھیل کے ساتھ درج ہو۔‘

    عماد پارکور
عماد پارکور

عماد نے کہا، ’پاکستان میں ایسا کوئی کلب موجود نہیں ہے جو پارکور کی تربیت دیتا ہو۔ میں نے اپنے بل بوتے پر تربیت حاصل کی ہے۔ یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ اس کھیل کو کیسے سیکھتے ہیں۔ بعض اوقات آپ تربیت کے دوران زخمی بھی ہوجاتے ہیں یوں آپ اپنی غلطیوں کو درست کرتے ہیں تاکہ آپ خود کو بہتر سے بہترین بنا سکیں۔

’ہم میں سے بعض کو گردن، کمر، کندھے اور گُٹھنے پر چوٹیں لگتی ہیں لیکن اگر آپ نے اس راستے کا انتخاب کیا ہے تو آپ کو اس میں درپیش چیلنجز اور رکاوٹوں کا مقابلہ بھی خود کرنا ہے۔ اس وقت پارکور کی تربیت اور بین الاقوامی شناخت حاصل کرنے کے لیے کلبوں کی دلچسپی تو نظر آرہی ہے لیکن اس حوالے سے کسی قسم کی مدد نہ ملنے کی وجہ سے ہماری حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور ہم اس کھیل کو چھوڑ کر اپنی معمول کی زندگیوں کی جانب لوٹ جاتے ہیں۔‘

عماد نے یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھ کر اور پاکستان، افغانستان، بھارت اور ایران میں موجود علاقائی ٹریسرز کی آن لائن کمیونٹی سے رابطہ کرکے پارکور کے کھیل میں تربیت حاصل کی ہے۔ اس کے علاوہ ہزارہ فری رنرز سے تعلق رکھنے والے ان کے دوست مصطفیٰ احمدی نے انہیں اس کھیل کے بنیادی اصول سکھانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

عماد نے کہا کہ ’ثقافتی مماثلت کے باعث ہم ایک دوسرے سے مشوروں اور رہنمائی کا تبادلہ کرتے ہیں۔

’کئی لوگوں کو اپنے گھر والوں کی مدد حاصل ہوتی ہے لیکن پارکور کے معاملے میں ایسا نہیں ہوتا کیونکہ گھر والوں کو اس سرگرمی کے حوالے سے کوئی معلومات نہیں ہوتیں۔ انہوں نے اس کھیل میں صرف لوگوں کو زخمی ہوتے دیکھا ہے جن کی آمدنی بھی کچھ نہیں ہوتی۔ میں نے بھی جو تھوڑی بہت رقم کمائی ہے وہ معمول کی تنخواہ یا آمدنی نہیں بلکہ یہ کبھی کبھار ہونے والی ادائیگیاں تھیں۔

’لیکن پارکور کا شوق میری رگوں میں خون کی طرح شامل ہے‘۔ عماد نے بتایا کہ ’حالیہ برسوں میں ہماری ہزارہ برادری میں کھیلوں کی سرگرمیوں میں دلچسپی لینے والوں کی تعداد غیرمعمولی حد تک بڑھ چکی ہے جبکہ ہمارے پاس مارشل آرٹسٹ کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ تاہم مجھے اس بات کا ادراک ہے کہ کیوں میرے گھروالے میرے اس شوق کے خلاف تھے کیونکہ مجھے کلائی اور ٹانگوں پر اکثر زخم آتے ہیں‘۔

عماد نے نکتہ اٹھایا کہ، ’ہم نے درکار سہولیات کے حوالے سے اپنے علاقے سے منتخب ہونے والے پارلیمانی رہنماؤں سے متعدد بار بات کی ہے لیکن وہ ہماری ضرورتوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں‘۔ عماد نے مزید کہا کہ ’ہم اس لیے زخمی ہوتے ہیں کیونکہ ہم اس کھیل کی آؤٹ ڈور تربیت حاصل کرتے ہیں۔ ہمیں نئے افراد کی تربیت کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنا ضروری ہے تاکہ انہیں زخمی ہونے سے بچایا جاسکے‘۔

عماد نے بتایا کہ گرافک ڈیزائننگ ان کا ذریعہ معاش ہے لیکن وہ اپنے پارکور کلب کو مکمل توجہ دیتے ہیں کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں پارکور کی سرگرمیوں میں اضافہ ہو۔ ان کی نظر میں اپنی مقبولیت سے زیادہ اس کھیل کی مقبولیت اہم ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’اس وقت ہمارے پاس 12 پارکور آرٹسٹ ہیں جن کی عمریں 15 سے 30 سال کے درمیان ہے۔

’پاکستان میں پارکور کھیل کے لیے کوئی مرکزی پلیٹ فارم نہ ہونے کے باوجود اسپانسرز کو آگے بڑھنا چاہیے کیونکہ پارکور کے حوالے سے انٹرٹینمنٹ اور کھیلوں کی عالمی اور مقامی انڈسٹری میں طلب موجود ہے۔ حالیہ دنوں میں اس مہارت کی طلب میں اضافہ ہورہا ہے۔‘

پھر عماد نے فرانس کے ایک معروف گروپ کا ذکر کیا جنہوں نے چند ماہ قبل پارکور ایکروبیٹکس کی مشق کے دوران سڑکوں پر اضافی لائٹس بند کرنے کا مظاہرہ کیا تھا۔

’13 اور 15 فٹ کی دیواروں پر چڑھ کر یہ توانائی کی بچت کا پیغام دینے کا اچھا انداز تھا۔‘ عماد نے کہا کہ وہ اپنے ساتھیوں پر فخر محسوس کرتے ہیں۔

عماد نے بتایا کہ ’خبروں کے مطابق اس تنظیم نے دعویٰ کیا کہ ان کے اس عمل کے دوران چونکہ کسی کو نقصان نہیں پہنچ رہا تھا اس لیے پولیس اہلکاروں نے بھی انہیں نہیں روکا جبکہ انہیں شہر کی انتظامیہ کی سرپرستی بھی حاصل تھی۔‘

پاکستان میں عماد کو کم از کم خواب دیکھنے کا حق تو حاصل ہے۔


یہ مضمون 29 جنوری 2023ء کو ڈان کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں