نواز شریف نے سابق آرمی چیف کو توسیع دینے کے بدلے میں ان کے ساتھ معاہدہ کیا، عمران خان

اپ ڈیٹ 08 فروری 2023
عمران خان نے لاہور میں اپنی رہائش گاہ زمان پارک میں صحافیوں سے ملاقات کی—فائل فوٹو: فیس بک
عمران خان نے لاہور میں اپنی رہائش گاہ زمان پارک میں صحافیوں سے ملاقات کی—فائل فوٹو: فیس بک

سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ایک بار پھر اعتراف کیا کہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کو تین سال کی توسیع دینے کا ان کا فیصلہ ایک ’بڑی غلطی‘ تھی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’نواز شریف اینڈ کمپنی نے پارلیمنٹ میں جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کی توثیق کے بدلے میں ان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا‘۔

عمران خان نے الزام لگایا کہ بدلے میں سابق آرمی چیف نے نواز شریف اور دیگر کے لیے کرپشن کیسز میں ریلیف حاصل کرنا شروع کردیا۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے دعویٰ کیا کہ نیب میں شریفوں کے خلاف مقدمات روکنے کے بعد ’حکومت کی تبدیلی کا منصوبہ‘ بنایا گیا، جس کا مجھے اکتوبر 2021 میں علم ہوا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان کی حکومت اور قمر جاوید باجوہ اس وقت تک ایک ہی صفحے پر تھے جب تک کہ انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے قائد کے ساتھ معاہدہ نہیں کیا تھا۔

اپنی پارٹی کی جانب سے صدر پاکستان سے سیاست میں ’خفیہ ایجنسیوں اور اسٹیبلشمنٹ کے کچھ حلقوں کی مداخلت‘ کا نوٹس لینے کی اپیل کے ایک ہفتے بعد پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو ’شک کا فائدہ‘ دے دیا۔

سابق وزیر اعظم کے یہ ریمارکس خیبرپختونخوا اور پنجاب اسمبلیوں کے انتخابات میں متوقع تاخیر اور گرفتاریوں کے ایک سلسلے کے بعد سامنے آئے، جس نے ان کے قریبی ساتھیوں اور اتحادیوں کو بھی نہیں بخشا۔

عمران خان نے لاہور میں اپنی رہائش گاہ زمان پارک میں صحافیوں سے ملاقات کی، انہوں نے انتخابات، جیل بھرو تحریک، معیشت، موجودہ حکومت اور کثیر الجماعتی کانفرنس اور سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے ساتھ اپنے تعلقات کے بارے میں بات کی۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا قمر جاوید باجوہ کے جانشین پی ٹی آئی کے حوالے سے سابق سربراہ کی پالیسیوں پر عمل کر رہے ہیں تو عمران خان نے جواب دیا کہ جنرل عاصم منیر کو عہدہ سنبھالے محض دو ماہ ہوئے ہیں اور وہ انہیں ’شک کا فائدہ‘ دینے کو تیار ہیں۔

تاہم انہوں نے دعویٰ کیا کہ فوج اور عوام کے درمیان ایک ’واضح نظر آنے والی‘ کھائی ہے، جسے انہوں نے ملک کے لیے انتہائی خطرناک قرار دیا۔

عمران خان نے عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے اپنی برطرفی کا موازنہ 1999 میں نواز شریف کی حکومت کے خلاف بغاوت سے کیا اور دعویٰ کیا کہ جب نواز شریف کو اقتدار سے ہٹایا گیا تو لوگوں نے جشن منایا لیکن ان کی برطرفی کے ردعمل میں عوام سڑکوں پر نکل آئے کیوں کہ انہیں اسٹیبلشمنٹ کا پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے کرپٹ سیاستدانوں کا ساتھ دینا پسند نہیں آیا۔

سابق وزیر اعظم نے اپنی گفتگو کے ایک بڑے حصے میں نواز شریف کے بارے میں بات کی جو صحت کی وجوہات کی بنا پر 2019 سے لندن میں خود ساختہ جلاوطنی میں ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ نواز شریف نے اپنی واپسی کے لیے دو شرائط رکھی ہیں، میری نااہلی اور پنجاب کے انتخابات میں کامیابی، لیکن میں آپ کو بتاتا چلوں کہ اگر قانونی طریقہ کار پر عمل کیا جائے تو ان کی جانب سے میرے خلاف بنائے گئے کسی بھی جعلی کیس میں میری نااہلی ممکن نہیں۔

حکمران اتحاد کے منصوبے کے بارے میں بات کرتے ہوئے عمران خان نے دعوی کیا کہ ’پی ڈی ایم میری نااہلی اور گرفتاری کو یقینی بنائے گی، میری پارٹی کے رہنماؤں کے خلاف مقدمات قائم کرے گی اور ایک بار جب یہ یقینی ہوجائے کہ پی ٹی آئی کمزور ہو گئی ہے تو وہ انتخابات میں حصہ لے گی اور بڑے پیمانے پر دھاندلی کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے گی‘۔

یہ پوچھے جانے پر کہ کیا ان کے پاس پارلیمنٹ چھوڑنے اور دونوں صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کے بعد پی ڈی ایم پر دونوں صوبوں میں انتخابات کرانے کے لیے دباؤ ڈالنے کے محدود اختیارات ہیں، سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ’نہیں، پی ڈی ایم کب تک انتخابات سے بھاگے گی، میرے الفاظ یاد رکھنا جب بھی انتخابات ہوئے تحریک انصاف ہی جیتے گی‘۔

جیل بھرو تحریک کے بارے میں بات کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ وہ اس جدوجہد میں سب سے آگے ہوں گے، انہوں نے کہا کہ تقریباً دو ہفتوں میں گولیوں کے زخموں سے صحت یاب ہونے کے بعد میں جیل بھرو تحریک کی قیادت کروں گا، جو کہ ایک عدم تشدد کی مہم ہے اور اس سلسلے میں تیاریاں شروع کر دی گئی ہیں۔

محسن نقوی کی قیادت میں پنجاب میں عبوری حکومت پر ایک تبصرہ کرتے ہوئے عمران خان نے الزام لگایا کہ شہباز شریف صوبے کو ’براہ راست کنٹرول‘ کر رہے ہیں۔

اگرچہ پی ٹی آئی نے دو بار ملتوی ہونے والی کثیر الجماعتی کانفرنس کے حوالے سے ابھی تک اپنا ذہن نہیں بنایا ہے، عمران خان نے اس طرح کی کانفرنس کی ضرورت پر سوال اٹھایا اور کہا کہ حکومت کو دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں، جیسا کہ پی ٹی آئی نے اپنے دور میں کیے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں