عمران خان کی رہائش گاہ زمان پارک کے باہر سیکیورٹی عملے میں 70 فیصد کمی

اپ ڈیٹ 01 مارچ 2023
پولیس کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلیاں سابق وزیر اعظم کو درپیش خطرات کے حوالے سے نئے جائزے کے تحت کی گئی ہیں — فوٹو: وائٹ اسٹار
پولیس کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلیاں سابق وزیر اعظم کو درپیش خطرات کے حوالے سے نئے جائزے کے تحت کی گئی ہیں — فوٹو: وائٹ اسٹار

پنجاب پولیس نے سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی زمان پارک رہائش گاہ کے اطراف میں حفاظتی انتظامات پر نظرثانی کرتے ہوئے سیکیورٹی اہلکاروں کی تعداد میں تقریباً 70 فیصد کمی کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پولیس کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلیاں سابق وزیر اعظم کو درپیش خطرات کے حوالے سے نئے جائزے کے تحت کی گئی ہیں۔

نئی منصوبہ بندی کے مطابق اب 650 سیکیورٹی اہلکاروں کے بجائے تقریباً 200 پولیس اہلکار ان کی رہائش گاہ کی حفاظت کریں گے۔

فیصلہ سازوں میں سے ایک نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’سابق وزرائے اعظم کو فراہم کی جانے والی سیکیورٹی کے مقابلے میں یہ تعداد اب بھی کہیں زیادہ ہے‘۔

انہوں نے وضاحت کی کہ تمام قانون نافذ کرنے والے ادارے، بشمول انٹیلی جنس ایجنسیاں، ملک کی تمام اہم شخصیات کو درپیش خطرات کا جائزہ لیتی ہیں اور اس کے مطابق پولیس کو سیکیورٹی تعینات کرنے ہدایت دی جاتی ہے۔

اس قسم کا جائزہ صوبائی انٹیلی جنس کمیٹی (پی آئی سی) کا اختیار ہے اور پولیس ہدایات پر عمل کرتی ہے۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ لہٰذا نئے اقدامات کا مقصد عمران خان کی سیکیورٹی پر کسی قسم کا سمجھوتہ ہرگز نہیں ہے بلکہ صرف ان کی سیکیورٹی ضروریات کے حوالے سے نئے جائزے کے مطابق عملدرآمد کرنا ہے۔

عمران خان گزشتہ شب 9 بجے کے قریب لاہور میں اپنی رہائش گاہ زمان پارک پہنچ چکے ہیں، قبل ازیں وہ اسلام آباد کی عدالتوں میں پیشی کے لیے صبح لاہور سے روانہ ہوئے، جس کے بعد پولیس نے تازہ صورتحال کے مطابق سیکیورٹی پلان ترتیب دیا۔

پولیس نے عمران خان کی رہائش گاہ کے ارد گرد کھڑی تمام حفاظتی رکاوٹوں کو ہٹا دیا، جہاں عمران وزیر آباد کے قریب 3 نومبر کو قاتلانہ حملے کے بعد سے رہائش پذیر ہیں۔

ضلعی انتظامیہ کے کارکنان سب سے پہلے دوپہر ایک بجے کے قریب موقع پر پہنچے جہاں انہیں پی ٹی آئی کارکنوں کی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، بعد ازاں پولیس کی بھاری نفری وہاں پہنچی جس کے بعد پی ٹی آئی کارکنان نے نہ صرف انہیں رکاوٹیں ہٹانے کی اجازت دی بلکہ کینال روڈ کے ساتھ گرین ایریا سے اپنے کیمپس ہٹانے پر بھی بات چیت کی۔

بعد ازاں ڈاکٹر یاسمین راشد نے رکاوٹیں ہٹانے کی مذمت کرتے ہوئے موقع پر پہنچ کر کہا کہ عمران خان کی جان کو شدید خطرہ ہے، حفاظتی رکاوٹوں کو ایسی جگہ سے ہٹانا ان کی زندگی کو لاحق خطرات میں اضافے کے مترادف ہے۔

انہوں نے کہا کہ نگران حکومت یہ سب کچھ پی ڈی ایم کی ہدایات پر کر رہی ہے، جو کہ اس سطح تک گر چکی ہے، یہ کارکنوں کو مشتعل کرنے کی کوشش ہے، تاہم عمران خان کی جان کو خطرے میں ڈالنے کی اس انتہائی اشتعال انگیز کوشش پر بھی کوئی کارکن مشتعل نہیں ہوا۔

پی ٹی آئی کی ایک اور رہنما عندلیب عباس نے بھی اس ’اشتعال انگیزی‘ کی مذمت کی اور اسے نگراں حکومت اور پی ڈی ایم کا مشترکہ منصوبہ قرار دیا جو کارکنوں کو اکسانے، تشدد پر بھڑکانے اور پھر انتخابات سے بچنے کے بہانے پیچھے چھپنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے متنبہ کیا کہ اگر نگراں حکومت اور وفاقی حکومت پی ٹی آئی کارکنوں کو اکسانے سے باز نہ آئی تو کارکنوں کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو سکتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں