Dawnnews Television Logo

سپریم کورٹ کے بڑے فیصلے کی بڑی باتیں

جب ججز عدالت میں نمودار ہوئے تو سب حیران رہ گئے کیونکہ اختلافی نوٹ دینے والے 2 جج بھی بینچ میں نہیں تھے اور جن 2 ججوں پر حکومت کی جانب سے اعتراضات کیے گئے تھے وہ بھی عدالت نہیں آئے تھے۔
اپ ڈیٹ 01 مارچ 2023 10:07pm

سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات میں تاخیر کے معاملے پر لیے گئے ازخود نوٹس پر مسلسل 4 سماعتوں کے بعد فیصلہ دے دیا ہے۔ اس مقدمے کی پہلی سماعت 23 فروری کو ہوئی اور فیصلہ یکم مارچ کو آیا۔ 4 سماعتوں پر محیط اس مقدمے میں کیا ہوتا رہا اور کیا کچھ نیا دیکھنے کو ملا، ہم آپ کو تفصیل سے بیان کریں گے۔

یہ سیاسی نوعیت کا مقدمہ تھا جس کے فیصلے کے بعد سیاسی اثرات سامنے آئیں گے۔ اس مقدمے کی سماعتوں کے دوران کئی ایسی باتیں بھی سامنے آئیں جو سپریم کورٹ کی تاریخ میں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔

مجھے سپریم کورٹ میں رپورٹنگ کرتے ہوئے 18 برس ہوچکے ہیں۔ میں نے جس جج کو کسی بینچ سے الگ ہوتے ہوئے پہلی بار دیکھا ان کا نام جسٹس سردار رضا خان تھا۔ وہ تب کے معزول چیف جسٹس افتخار احمد چوہدری کی جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے خلاف اپیل پر سماعت کرنے والے بینچ کا حصہ تھے۔ انہوں نے یہ کہہ کر خود کو بینچ سے الگ کردیا تھا کہ وہ کونسل میں اپنا مائنڈ اپلائے کرکے ایک فیصلہ دے چکے ہیں تو اب اس بینچ میں میری حیثیت ایک مبصر کی ہوگی۔ حالانکہ درخواست گزار کو جج کے بیٹھنے پر کوئی اعتراض نہیں تھا لیکن جسٹس سردار رضا خان بینچ سے الگ ہوگئے اور یہ بینچ ٹوٹ گیا۔ اس کا اعلان ہوا تو پھر معاملہ سابق قائم مقام چیف جسٹس کے پاس گیا اور پھر ایک مروج طریقے سے نیا بینچ تشکیل دیا گیا۔

اس بار جب پہلے سے مائنڈ اپلائے کرکے فیصلے دینے والے 2 ججز کو بینچ میں بٹھا لیا گیا تو معاملات وہاں سے بگڑنا شروع ہوئے۔

ایک اچھے جج کی خصوصیت یہ بھی ہوتی ہے کہ اگر فریقین میں سے کسی ایک کو بھی ان پر اعتراض ہے تو جج بینچ سے الگ ہوجاتا ہے۔ دوسری روایت یہ ہے کہ اگر ماضی میں نچلی عدالت میں انہوں نے بطور جج مقدمہ سنا ہو یا وکیل کی حیثیت سے مقدمہ لڑا ہو تو وہ جج خود کو مقدمے سے الگ کردیتا ہے۔

یہ فقط ایک معزز جج یا اس مقدمے کا مسئلہ نہیں۔ عدالتوں میں جہاں اچھی روایات دیکھنے کو ملتی ہیں وہاں کچھ خراب روایات کی کہانی بھی کافی پرانی ہے۔ انصاف کا مسلمہ اصول ہے کہ اپنے ہی کسی مقصد کے حصول کی خاطر کوئی شخص جج نہیں کہلایا جاسکتا۔ جسے انگزیزی زبان میں یوں کہا جاتا ہے کہ، No man ought to be a judge for his own cause.

لیکن یہ پہلی بار نہیں ہوا۔ 2010ء کی دہائی میں ہم نے دیکھا کہ سابق چیف جسٹس افتخار احمد چوہدری اپنے بیٹے پر لگے کرپشن کے الزامات کا ازخود نوٹس لےکر خود ہی سماعت کرنے بیٹھ گئے۔ 2 سماعتوں کے بعد جب تنقید زیادہ ہونے لگی تب وہ مقدمہ جسٹس جواد ایس خواجہ کے حوالے کرکے خود بینچ سے علحیدہ ہوگئے۔

پنجاب اور خیبرپختونخوا میں عام انتخابات میں تاخیر پر لیے گئے ازخود نوٹس کا ماضی کے مقدمات سے براہِ راست کچھ لینا دینا نہیں لیکن اس مقدمے کی سماعت کے دوران کچھ ایسا ہوا جو کبھی کبھار ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ سپریم کورٹ نے بینچ بنانے، توڑنے اور پھر سے تشکیل دینے کی جو روایات بنائی ہوئی ہیں وہ اس بار ٹوٹ گئیں۔

ہم اس پوری کارروائی کا تمام تر احوال اور اس مقدمے سے جڑی باقی سب باتیں اپنے قارئین تک پہنچانے کی کوشش کریں گے۔ اس مقدمے کے چیدہ چیدہ نکات پر جانے سے پہلے کچھ اہم باتیں نوٹ کرنا ضروری ہیں۔

پہلی بات یہ کہ 2 ججوں پر مشتمل ایک بینچ کے پاس لاہور کے سابق سی سی پی او غلام محمود ڈوگر کی بحالی کا مقدمہ تھا، یہ ازخود نوٹس وہاں سے شروع ہوا۔ اس بینچ نے چیف الیکشن کمشنر کو سپریم کورٹ میں طلب کیا، فیصلہ دیا اور اپنی آبزرویشن بھی دی۔ اس بینچ میں موجود ایک معزز جج کی آڈیو لیک ہوئی جو مقدمہ کے پہلے آرڈر کا حصہ ہے۔ اسی جج کے خلاف جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر ہوا جس کا حوالہ بھی پہلے آرڈر میں موجود ہے۔

اب ہم آتے ہیں سیدھا اس مقدمے پر جو پہلے دن سے ہی تنازعات کا شکار ہوا اور مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ مقدمہ جیسے جیسے آگے چلتا گیا ججوں میں تقسیم اور واضح ہوتی گئی۔ پہلے دن کے 4 اختلافی نوٹ سے لےکر فیصلے کے حتمی 2 نوٹ تک یہ بات سامنے آچکی ہے کہ بینچ کا فیصلہ متفقہ نہیں بلکہ اکثریتی رائے کی بنیاد پر ہے۔


23 فروری کی سماعت


23 فروری جمعرات کے دن کمرہِ عدالت کھچا کھچ بھرا ہوا تھا کیونکہ عدالت عظمیٰ ازخود نوٹس کے نام پر ایک ایسا مقدمہ سننے جارہی تھی جس سے تمام سیاسی جماعتوں کے اپنے اپنے مفادات وابستہ تھے اور سب لوگ اپنی مرضی کا فیصلہ آنے کی امید لگائے بیٹھے تھے۔

عدالتی مقدمے میں کسی ایک جماعت کے دل کی بات ہورہی ہو تو لازم ہے کہ مخالف جماعت اس کارروائی کو شک کی نگاہ سے دیکھے گی۔ ویسے سچ بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں نظام اتنا شفاف اورغیرجانبدار نہیں کہ پورا معاشرہ، تمام سیاسی جماعتیں، ان کے کارکنان یا عام افراد کو نظامِ عدل پر بھر اعتماد ہو۔

چونکہ اس ازخود نوٹس سے پہلے کئی قیاس آرائیاں ہورہی تھیں اس وجہ سے اس مقدمے کا نقشہ آسانی سے بنایا جاسکتا تھا۔ جن 2 ججوں کے نوٹ پر یہ ازخود نوٹس سماعت کے لیے مقرر ہوا ان ججوں پر سیاسی جماعتوں نے عدم اعتماد کا اظہار کردیا تھا۔ پریس کانفرنسز ہورہی تھیں، بیانات داغے جارہے تھے اور جو کسر رہ گئی تھی وہ بینچ میں موجود ساتھی ججوں نے پوری کردی۔

یہ سماعت کا پہلا دن تھا اور سماعت مقررہ وقت سے کچھ تاخیر سے شروع ہونے کا مقصد یہ سمجھا جاتا ہے کہ پس منظر میں کچھ ہورہا ہے اور یقیناً ہوتا بھی ہے جس کی خبر رپورٹرز کو بعد میں مل بھی جاتی ہے۔ بقول غالب ’ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا‘۔

اس مقدمے کی سماعت کے پہلے دن بینچ کی ترتیب کچھ یوں تھی کہ مرکز میں چیف جسٹس آف پاکستان براجمان تھے۔ دائیں جانب جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر علی اکبر اور جسٹس محمد علی مظہر موجود تھے جبکہ بائیں جانب جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس اطہر من اللہ تھے۔ یہ بائیں جانب والے معزز ججز ہی تھے جنہوں نے پہلی سماعت شروع ہوتے ہی بینچ کی تشکیل، ازخود نوٹس لینے سمیت کئی سوالات اٹھاکر مقدمے پر بحث کے راستے کھول دیے۔

یہاں یہ بات سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ جس معاملہ پر ازخود نوٹس لیا گیا تھا وہ قانونی و آئینی اعتبار سے غیرمؤثر بن چکا تھا۔ قانونی و آئینی تقاضا یہ ہے کہ کوئی اسمبلی مدت پوری ہونے سے پہلے تحلیل ہوجائے تو 90 دنوں کے اندر انتخابات کروائے جائیں۔ سپریم کورٹ نے جس دن نوٹس لیا تب اسمبلیوں کی تحلیل کو ڈیڑھ ماہ کی مدت ہوچکی تھی۔ چیف جسٹس نے اس مقدمے کو جلدی سے نمٹانے کا اظہار کچھ یوں کیا کہ وقت تیزی سے گزر رہا ہے ہمیں مقدمے کو جلد سے جلد منظقی انجام تک پہنچانا ہے۔

چیف جسٹس صاحب نے کہا کہ ہم 2 صوبائی اسمبلیوں کے نگہبان ہیں اور کسی کو آئین کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ آئین کے مطابق صوبوں میں انتخابات 90 دنوں میں ہونے چاہئیں۔ یہ صرف آبزرویشن نہیں تھی بلکہ یہی فیصلہ تھا جس کا اظہار چیف جسٹس صاحب پہلے دن کرچکے تھے۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے یہ مقدمہ کسی اور جانب مڑنا شروع ہوگیا اور اس کا رخ موڑنے والے کوئی اور نہیں بلکہ چیف جسٹس کے ساتھ بیٹھے 3 جج تھے جنہوں نے بیک وقت کئی سوالات اٹھا کر پہلے صورتحال، پھر بینچ اور پھر بلآخر فیصلے کو ہی منقسم کردیا۔

پہلی سماعت پر بینچ میں موجود جسٹس جمال خان مندوخیل نے ایک بڑا قانونی سوال اٹھایا کہ چیف جسٹس اور 2 معزز جج پہلے ہی اس مقدمے کے حوالے سے اپنی رائے دے چکے ہیں جس سے شفاف ٹرائل کے حوالے سے آئینی شق کو صرفِ نظر کردیا گیا ہے۔ جسٹس مندوخیل نے سماعت کے دوران ہی اس متنازعہ آڈیو لیک کا بھی ذکر کیا جس حوالے سے پریس کانفرنسز میں بات ہورہی تھی۔

بینچ کے سربراہ نے ازخود نوٹس پر وضاحت دینا چاہی تو جسٹس اطہر من اللہ نے بھی ایک قانونی نکتہ اٹھا دیا جس پر انہیں یہ کہہ کر خاموش کروادیا گیا کہ آپ کے نوٹ کو آرڈر کا حصہ بنایا جائے گا اور اسی سماعت میں ایک اور جج صاحب جسٹس منصور علی شاہ نے کیس کا رخ کچھ اس طرح موڑا کہ اگر اسمبلیوں کی تحلیل ہی غیرقانونی ہے تو کیا ان کو بحال بھی کیا جاسکتا ہے؟ یہ وہ بنیادی سوالات تھے جن کا پہلی سماعت میں ذکر ہوا اور چیف جسٹس نے تمام ججز کو یہ کہہ کر خاموش کروایا کہ آپ کے خدشات، سوالات اور باتوں کو آرڈر کا حصہ بنایا جائے گا۔

اس ابتدائی سماعت میں چیف جسٹس نے وہ سوالات دہرائے جن کو بنیاد بناکر ازخود نوٹس لیا گیا تھا۔ لیکن جب بینچ کے اندر سے ایسے سوالات اٹھنے لگیں تو اس سے بینچ میں تقسیم واضح ہوجاتی ہے۔ اگلی تاریخ جمعہ 24 فروری کو اس اعلان کے ساتھ مقرر کی گئی کہ اس دن مختصر سماعت ہوگی۔ جبکہ پہلی سماعت میں بینچ کے مابین جواب در جواب کا سلسلہ جاری رہا۔


24 فروری کی سماعت


یہ جمعے کا دن تھا اور چیف جسٹس نے سماعت کے موقع پر آنے والی تمام سیاسی جماعتوں کے وکلا کا شکریہ ادا کیا۔ فاروق ایچ نائیک نے اپنے دلائل کی شروعات کچھ یوں کی کہ ’ہمیں باضابطہ نوٹس نہیں بھیجے گئے پھر بھی ہم آئے ہیں‘ اور دوسری بات یہ کی کہ ’ہماری سیاسی قیادت کی ہدایات ہیں کہ بینچ میں موجود ان 2 ججز پر اعتراض کرنا ہے جن کو بینچ میں شامل نہیں ہونا چاہیے‘۔ فاروق ایچ نائیک صاحب کی اس بات پر بینچ میں موجود جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’کیوں نہ یہ مقدمہ فل کورٹ سنے، آپ کیا کہنا چاہیں گے؟‘ اس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا ’ہماری درخواست بھی یہی ہوگی کہ فل کورٹ تشکیل دیا جائے‘۔

گزشتہ روز کی سماعت کے دوران جسٹس جمال خان مندوخیل کے ریمارکس اور نوٹ کا حوالہ دیتے ہوئے فاروق ایچ نائیک نے مزید دلائل دیے کہ ’معزز جج کا نوٹ انتہائی الارمنگ ہے‘۔ یہ دلیل عدالت کو شاید ناگوار گزری، اور سوال کیا گیا کہ ’کیا آپ کے پاس وہ تحریری نوٹ موجود ہے؟‘ پہلی سماعت کے موقع پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے 2 ججز کے مائنڈ بنانے اور آڈیو لیک کا ذکر کیا تھا۔ دوسری سماعت میں ایک معزز جج نے فل کورٹ کی بات کردی تو چیف جسٹس کے نزدیک بیٹھے ججز ایک دوسرے کے قریب ہوکر کانوں میں باتیں کرنے لگے۔

جمعے کے دن کے بعد اگلے 2 دن عدالتی چھٹی کے تھے۔ 24 فروری تک گزشتہ سماعت کا آرڈر نہیں آیا تھا۔ عدالت نے سماعت کے دوران کہا کہ لوگ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں اس بار آئین نے عدالت کے دروازے پر دستک دی ہے۔ فاروق ایچ نائیک نے حکومت کی اتحادی جماعتوں کی جانب سے وہ مشترکہ بیان بھی بھری عدالت میں پڑھ کر سنایا جس میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر اعتراضات کیے گئے تھے اور ساتھ ہی یہ درخواست بھی کی گئی تھی کہ دونوں جج حکومت میں شامل کسی بھی جماعت کے مقدمے کی سماعت سے پرہیز کریں۔

پھر عدالت نے یہ فیصلہ کیا کہ پہلے مقدمے کے قابلِ سماعت ہونے پر دلائل پیش کیے جائیں اور اس طرح سماعت پیر 27 فروری ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کردی گئی۔ اگلی صبح یعنی ہفتے کے دن پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم نے 2 ججز پر اعتراضات اور فل کورٹ بنانے کی باضابطہ درخواست دائر کردی۔


27 فروری کی سماعت


27 فروری کو اس اہم مقدمے کی غیرمعمولی سماعت کا دن تھا۔ اعلیٰ عدالتوں میں کسی مقدمے میں ججوں کا کچھ تاخیر سے آنا معمول کی بات ہے۔ میں کئی محفوظ فیصلوں کاحوالہ دے سکتا ہوں جہاں عدالت لگنے میں کئی گھنٹوں کی تاخیر ہوئی۔ فیصلہ سنانے کا ایک وقت مقرر کردیا جاتا ہے لیکن معزز عدالت لگتی نہیں اور پھر میڈیا کے لیے یہ خبر بھی بن جاتی ہے کہ عدالتی فیصلہ تاخیر کا شکار ہے یا پھر یوں کہ معزز جج صاحبان ایک یا 2 گھنٹے گزر جانے کے بعد بھی کمرہ عدالت میں نہیں پہنچ سکے۔

لیکن اس بار کوئی فیصلہ محفوظ نہیں تھا۔ مقدمے کی 2 سماعتیں پہلے ہوچکی تھیں اس لیے بس ججوں نے عدالت آکر وہاں سے مقدمہ سننا تھا جہاں انہوں نے چھوڑا تھا۔ لیکن تیسری سماعت کے دن عدالت کے باہر پس منظر میں بہت کچھ ہورہا تھا جو سب پر کافی دیر سے عیاں ہوا۔ اس سماعت کے مقررہ وقت یعنی ساڑھے 11 بجے سے پہلے کمرہِ عدالت وکلا، میڈیا، سیاسی ورکروں اور عہدیداران سے بھرچکا تھا لیکن ساڑھے 11 بجے تک جج صاحبان عدالت نہیں پہنچے۔

اس سے پہلے کورٹ کے عملے نے اطلاع دی کہ اب جج صاحبان 12 بجے آئیں گے۔ 12 بھی خیر سے بج چکے تھے لیکن وہ نہیں آئے۔ صحافیوں کے پاس اس قسم کی اطلاعات بھی تھیں کہ الزامات، اعتراضات، ججز کے نوٹ اور کچھ نئی پیشرفت کے بعد چیف جسٹس صاحب نے کمیٹی روم میں ججوں کا غیر رسمی اجلاس طلب کیا تھا۔

منتظر آنکھیں عدالتی کرسیوں، بڑے دروازے کو تاک رہی تھی اور کان کورٹ آگئی کی آواز سننے کو ترس رہے تھے لیکن عدالت نہیں لگی۔ سوا ایک بج چکا تھا، اسی اثنا میں عدالتی عملے نے اطلاع دی کہ 23 فروری کا عدالتی حکم نامہ ویب سائٹ پر اپلوڈ کیا جارہا ہے۔ ایک جانب عدالت لگنے والی تھی دوسری جانب 4 دن پہلے جاری کردہ حکم نامہ سامنے آگیا۔

Title of the document

جب حکم نامہ آیا تو 4 ججوں کے الگ الگ اختلافی نوٹ دیکھے گئے۔ ان نوٹس نے عدالتی تقسیم کو مزید واضح کردیا۔ جب ججز عدالت میں نمودار ہوئے تو سب حیران رہ گئے کیونکہ اختلافی نوٹ دینے والے 2 جج بھی بینچ میں نہیں تھے اور جن 2 ججوں پر حکومت کی جانب سے اعتراضات کیے گئے تھے وہ بھی عدالت نہیں آئے تھے۔ 9 ججوں کی جگہ 5 جج عدالت آئے۔

عموماً ایسا نہیں ہوتا۔ جب کبھی بینچ ٹوٹتا ہے تو بینچ کی تشکیل کے معاملے کا اس سرِنو جائزہ لیا جاتا ہے۔ دوسری صورت میں یہ بھی ہوتا ہے کہ پہلی سماعت کرنے والے ججوں کی تعداد کو پورا کرنے کے لیے دیگر ججوں کو بینچ میں شامل کیا جاتا ہے۔ پہلے عدالت لگتی ہے جس میں اعتراضات کا جواب دےکر جج خود کو بینچ سے الگ کردیتے ہیں۔ اب کی بار عدالت لگنے سے پہلے اندرونِ خانہ سارے معاملات طے کرلیے گئے تھے اور نیا بینچ بن چکا تھا۔ حالانکہ 14 صفحات کے فیصلے میں واضح تحریر تھا کہ چیف جسٹس کو تمام ججوں نے نئے بینچ بنانے کی سفارش کی تھی۔

اس بار میں نے جو کچھ دیکھا وہ سب میرے لیے نیا تھا۔ جن ججوں پر اعتراضات تھے وہ عدالت نہیں پہنچے، جن ججوں نے نوٹ لکھا ان میں سے 2 ججوں کو چیف جسٹس نے اپنے ساتھ نہیں بٹھایا۔ ایسا لگ رہا تھا چیف جسٹس نے اپنے اختیارات استعمال کرکے معاملہ برابر برابر کردیا تھا۔

اب ان نوٹس کو دیکھتے ہیں جو 4 معزز ججز صاحبان نے لکھے تھے جن کی قانونی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ ان میں پہلا نوٹ لکھنے والے جسٹس جمال خان مندوخیل ہیں جنہوں نے اپنے نوٹ میں وہی کچھ لکھا جو معاملہ پہلے دن اٹھایا گیا تھا۔ انہوں نے واضح طور پر لکھا کہ 2 جج پہلے ایک سروس میٹر میں فیصلہ دیے بیٹھے ہیں جو اس مقدمے میں چیف الیکشن کمشنر کو بلا کر فیصلہ کرچکے تھے۔ ان کو بینچ میں بٹھانا شفاف ٹرائل کی منشا کے خلاف ہے۔ اسی نوٹ میں آڈیو لیک کا بھی ذکر ہے۔

دوسرا نوٹ جسٹس منصور علی شاہ کا ہے۔ انہوں نے بھی آڈیو لیک کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس آڈیو پر عدالت نے کوئی وضاحت جاری نہیں کی اور نہ انکوائری ہوئی۔ اس کے باوجود اس جج کو بینچ میں شامل کرلیا گیا ہے۔ انہوں نے دو سینیئر ججو کو بینچ میں شامل نہ کرنے کا معاملہ بھی اٹھایا۔

تیسرا نوٹ جسٹس یحییٰ آفریدی کا ہے۔ جنہوں نے واضح طور پر لکھا کہ یہ مقدمہ 2 ہائی کورٹس میں زیرِسماعت ہے ایسی صورتحال میں سپریم کورٹ کو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اس حالت میں مقدمے کو عوامی اہمیت کا معاملہ قرار دے کر اس کی سنوائی نہیں ہوسکتی۔

آخری نوٹ جسٹس اطہر من اللہ کا تھا جس میں انہوں نے لکھا کہ جو آرڈر کورٹ میں ڈکٹیٹ ہوا وہ تحریری حکم نامے سے مختلف تھا۔ انہوں نے دونوں اسمبلیوں کو توڑنے کے قانونی جواز کو بنیاد بناکر کہا کہ کسی کی ڈکٹیشن پر عوام کی منتخب اسمبلی کو کس طرح توڑا جاسکتا ہے؟ اس کی قانونی حیثیت پر غور کرنا چاہیے۔

یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ 23 فروری کا آرڈر تو جاری کردیا گیا لیکن 24 فروری کے آرڈر کا کوئی پتا نہیں تھا جس میں سب کو نوٹس جاری کیے گئے تھے۔ اس تیسری سماعت کے موقع پر چیف جسٹس نے جسٹس مندوخیل کا نوٹ لیک ہونے پر اعتراض کیا اور فرمایا کہ جب تک کوئی آرڈر ویب سائٹ پر اپلوڈ نہیں ہو تب تک اسے عدالتی فرمان نہیں مانا جاتا۔ یہ ایک نئی تشریح تھی جس کا مطلب یہ تھا کہ ڈکٹیشن کے بعد چیمبر میں آرڈر تبدیل بھی ہوسکتا ہے۔ چیف جسٹس نے یہ بات سماعت کے آخری دن ایک اور حوالے سے بھی کی تھی۔

عام طور پر کوئی جج جب خود کو بینچ سے الگ کرتا ہے تو اس کا بھی ایک آرڈر جاری کیا جاتا ہے۔ جاری کردہ آرڈر میں ایسی کوئی بات نہیں اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی نیا آرڈر جاری ہوا۔ یعنی نیا بینچ کن وجوہات پر بنا؟ کیوں بنا؟ 2 ججوں کو کس وجہ سے بینچ سے الگ کیا گیا؟ 2 جج خود کیوں بینچ سے الگ ہوئے اس پر راوی خاموش ہے۔

اب اس مقدمے کے قانونی پہلو جس کا ذکر بھی ایک معزز جج نے اپنے نوٹ میں کیا ہے کہ یہ مقدمات 2 الگ الگ ہائی کورٹس میں زیرِسماعت ہیں تو سپریم کورٹ انہیں کیسے آئین کی شق 184 (3) کے تحت سن سکتی ہے؟ دوسرا پہلو یہ کہ ایک سروس میٹر کو کس طرح ازخود نوٹس میں تبدیل کیا جاسکتا ہے جس کا فیصلہ بھی دے دیا گیا ہو؟ تیسرا اہم پہلو یہ کہ فیصلہ دینے اور نوٹ لکھ کر ازخود نوٹس کی سفارش کرنے والے ججوں کو کس طرح بینچ کا حصہ بنایا جاسکتا ہے؟

یہ وہ تنازعات تھے جو سامنے آچکے تھے۔ ایک طویل سماعت کے بعد عدالت نے یہ کہہ کر اگلا دن مقرر کیا کہ وہ آخری سماعت ہوگی ہم چاہیں گے کہ اس دن تمام وکلا مختصر دلائل دیں حالانکہ تحریک انصاف کے وکیل کو عدالت 4 گھنٹے سے زیادہ وقت تک سن چکی تھی۔


28 فروری کی سماعت


اس سماعت میں اٹارنی جنرل نے سب سے پہلا اعتراض سپریم کورٹ بار کے صدر عابد زبیری پر کیا کہ 23 فروری کا حکم نامہ لکھواتے ہوئے چیف جسٹس نے فرمایا تھا کہ ان کی جگہ کسی اور وکیل کو پیش ہونا ہے۔ عابد زبیری صاحب بار کی نمائندگی نہیں کرسکتے اس پر چیف جسٹس صاحب نے فرمایا اور یہ ایک انکشاف بھی تھا جسے بار بار دہرایا جارہا تھا کہ جو کچھ کورٹ کے اندر ڈکٹیٹ کروایا جاتا ہے وہ تب تک آرڈر نہیں ہوتا جب تک اس پر تمام جج دستخط نہ کردیں۔ حالانکہ ایسا عام طور پر نہیں ہوتا اور ڈکٹیٹ کیے جانے والے آرڈر کو حتمی آرڈر مانا جاتا رہا ہے۔ اب سے یہ مانا جائے گا کہ کورٹ کے اندر لکھے جانے والے آرڈر کو حتمی آرڈر تسلیم نہیں جاسکتا۔

مجھے اسی معاملے پر ایک فیصلہ یاد ہے جو ملک ریاض کے خلاف تھا اور وہ واپس لے لیا گیا تھا۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جسٹس امیر ہانی مسلم نے ملک ریاض کے حوالے سے ایک آرڈر ڈکٹیٹ کروایا۔ اس کا جب فیصلہ سامنے آیا تو اسلام آباد میں 10 سینیئر ترین وکلا عدالت میں کھڑے ہوگئے جن میں جناب اعتزاز احسن سرفہرست تھے۔ ان کا اعتراض تھا کہ جو آرڈر آیا ہے وہ ڈکٹیٹ کیے ہوئے حکم نامے سے الگ ہے جس پر اس وقت کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے یہ کہا تھا کہ ’غلطی ہر انسان سے ہوسکتی ہے، ہم اس معاملہ پر دوبارہ آرڈر جاری کردیں گے‘۔

چوتھے دن کی سماعت پر بھی انتخابات کی تاریخ دینے کے نکتے پر سب کا الگ موقف تھا۔ اسپیکر کے وکیل کا کہنا تھا کہ گورنر تاریخ دینے کا مجاز ہے دوسری صورت میں اختیار صدر کو ہے، گورنر پنجاب کے وکیل کہہ رہے تھے کہ گورنر نے چونکہ اسمبلی تحلیل نہیں کی اس لیے انتخابات کی تاریخ دینے کے وہ مجاز نہیں ہیں اس لیے یہ کام الیکشن کمیشن کرے۔ اٹارنی جنرل کا موقف بھی تقریباً یہی تھا کہ الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داریوں سے انحراف نہیں کر سکتا۔ البتہ صدر کے پاس اختیار ایڈوائس سے مشروط ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ انتخابات کے انتظامات الیکشن کمیشن کو کرنے ہیں اور تاریخ گورنر نے دینی ہے۔ پیپلز پارٹی کے وکیل کا موقف کچھ یوں تھا کہ الیکشن کمیشن ہی تاریخ دے سکتا ہے لہٰذا صدر نے جو تاریخ دی ہے وہ آئین کے خلاف ہے کیونکہ صدر پاکستان کو نہ تو کوئی ایڈوائس بھیجی گئی تھی نہ ہی انہوں نے مشاورت کی تھی۔ بغیر مشاورت اور ایڈوائس کے صدر خود سے کچھ نہیں کرسکتے۔

صدر کے وکیل سلمان اکرم راجہ کا موقف حیران کُن تھا جہاں انہوں نے صدر کی غلطی کو تسلیم کیا کہ انہوں نےخیبرپختونخوا کی حد تک انتخابات کی تاریخ دےکر غلطی کی ہے اور وہ جلد ہی اس سمری کو واپس لے رہے ہیں۔ اس موقف سے آدھا مقدمہ تو وہیں ختم ہوگیا تھا بلکہ یہ بات سمجھ بھی آچکی تھی کہ صوبہ خیبرپختونخوا میں انتخابات کی تاریخ دینے کے مجاز صدر نہیں بلکہ گورنر ہیں۔

اب رہا معاملہ صوبہ پنجاب کا۔ بس ایک صوبے کا مقدمہ سپریم کورٹ کے پاس رہ گیا تھا۔ 28 فروری کی سماعت کا دوسرا بڑا واقعہ سیاسی جماعتوں کو تاریخ پر مل بیٹھنے کا موقع فراہم کرنا تھا جس کو پہلی ہی گھڑی میں تحریک انصاف نے یہ کہہ کر رد کردیا کہ اس سے ایک غلط روایت جنم لے گی۔ بات بس اتنی تھی کہ عدالت نے تجویز دی کہ سیاسی جماعتیں آپس میں بیٹھ کر ایک تاریخ پر فیصلہ کریں اور سپریم کورٹ کے لیے آسانی پیدا کریں جس کی بنیاد پر عدالت عظمیٰ یہ قرار دے کہ اب انتخابات کی تاریخ کا اعلان کس نے کرنا ہے۔

اس کے پیچھے شاید یہ دانش ہوکہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک دن ہوں۔ لیکن سپریم کورٹ کی یہ کوشش رائیگاں گئی اور تحریکِ انصاف نے سیاسی بیٹھک لگانے سے انکار کردیا۔ پیپلز پارٹی نے کہا کہ انتخابات کی تاریخ دینا سیاسی جماعتوں کا مینڈیٹ نہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) نے جواب دیا کہ تمام جماعتوں سے مشاورت کے لیے مزید وقت درکار ہے اور اس طرح بات نہ بن پائی۔

اس سماعت میں ججوں کے سوالات کے جوابات وکلا نے کم بلکہ ججوں نے خود زیادہ دیے۔ 2 جج جو اپنے الگ الگ نوٹ لکھ چکے تھے ان کے سولات کے جوابات وہ جج دے رہے تھے جن کو ہم خیال جج کہا جاتا ہے۔ اس طرح عدالتی تاریخ کی ایک اور لمبی کارروائی پونے 10 بجے سے شروع ہوکر شام 6 بجے محفوظ فیصلے پر اختتام پذیر ہوئی۔ چیف جسٹس نے تمام وکلا اور جماعتوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اعلان کیا کہ آج یعنی 28 فروری کو ہی فیصلہ سنایا جائے گا لیکن کس وقت سنایا جائے گا اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ بعدازاں چیف جسٹس نے پیغام بھجوایا کہ محفوظ شدہ فیصلہ یکم مارچ کو 11 بجے سنایا جائے گا۔


فیصلے کا دن


فیصلے کے لیے 11 بجے کا وقت مقرر کیا گیا تھا۔ عام طور پر یہ وقت عدالتی وقفے کا ہوتا ہے اس کے باوجود عدالت عظمیٰ نے 11 بج کر 20 منٹ پر فیصلہ سنا دیا۔ 5 جج فیصلے سنانے آئے۔ حسبِ توقع اس فیصلے میں 2 ججوں کا اختلافی نوٹ سامنے آیا اور قانونی اعتبار سے اس اختلافی نوٹ کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔

Title of the document

جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس منصور علی شاہ کی جانب سے درج کروائے گئے نوٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ جب معاملات ہائی کورٹس میں زیر التوا ہوں تو سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس لینے کا جواز نہیں بنتا۔ اس کے ساتھ ان 2 ججوں نے ہائی کورٹس کو اپنے اقلیتی فیصلے میں حکم دیا ہے کہ وہ 3 دن کے اندر زیرِالتوا مقدمات کا فیصلہ سنا دیں۔ جبکہ 3 ججوں کی اکثریت سے آنے والے فیصلہ میں صدرمملکت کے پنجاب میں انتخابات کی تاریخ دینے کو درست جبکہ خیبرپختونخوا میں تاریخ دینے کے قدم کو غلط قرار دیا گیا ہے۔

گورنر خیبر پخونخوا کی طرف سے انتخابات کی تاریخ نہ دینے کو آئین سے انحراف قرار دےکر حکم دیا گیا ہے کہ وہ فوری طور پر تاریخ کا اعلان کریں۔ پنجاب میں صدر کی دی جانے والی تاریخ پر اگر حکومت اور الیکشن کمیشن مناسب سمجھے تو مشاورت کرسکتے ہیں۔

اس فیصلے کے بعد اگر جائزہ لیا جائے تو زمینی حقائق تبدیل نہیں ہوئے۔ الیکشن کمیشن کے پاس فنڈز کی کمی ہے، جی ایچ کیو انتخابات کے لیے سیکیورٹی دینے کو تیار نہیں اور یہ پہلی بار ہوگا کہ جب عام انتخابات ہورہے ہوں گے تو 2 صوبوں میں پہلے انتخابات کی صورت میں صوبوں میں سیاسی حکومتیں ہوگی۔ اس کا نتیجہ بحران کی صورت میں سامنے آئے گا۔

یہ آزمایا ہوا نسخہ ہے کہ جو بھی جماعت انتخابات میں شکست سے دوچار ہوگی وہ دھاندلی کا الزام لگائے گی جس کے نتیجے میں قومی اسمبلی کے انتخابات متنازعہ بن جائیں گے اور ہم ایک بحران سے نکل ہی نہیں پائیں گے کہ ایک نیا بحران دستک دے رہا ہوگا۔


ہیڈر: سپریم کورٹ آف پاکستان ویب سائٹ