رواں ہفتے امریکا اور کینیڈا نے سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر چینی سوشل میڈیا ایپ ٹک ٹاک کے استعمال پر پابندی عائد کردی ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق امریکی حکومت نے رواں ہفتے اعلان کیا کہ سرکاری اداروں کے پاس 30 دن ہیں کہ وہ سرکاری ڈیوائسز اور الیکٹرونک آلات سے ٹک ٹاک ایپلی کیشن ڈیلیٹ کردیں۔

دوسری جانب امریکی پارلیمانی کمیٹی برائے خارجہ امور نے صدر جو بائیڈن کو چینی سوشل میڈیا ایپ ٹک ٹاک پر پابندی کے اختیارات دینے کا بل منظور کر لیا۔

صدر بائیڈن کو حاصل ہونے والے اختیارات کے تحت وہ ٹک ٹاک سمیت کسی بھی سوشل میڈیا ایپ پر پابندی لگا سکیں گے۔

امریکی قانون سازوں نے 16 کے مقابلے میں 24 ووٹوں سے ٹک ٹاک پر پابندی کے صدارتی اختیار کا بل منظور کر لیا

کمیٹی کے ریپبلکن چیئرمین مائیکل میک کاول کا کہنا تھا کہ ٹک ٹاک قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر کسی شخص نے اپنی ڈیوائس میں ٹِک ٹاک ڈاؤن لوڈ کیا تو چینی حکومت کو اس شخص کی ذاتی معلومات تک رسائی ہوجاتی ہے، ٹک ٹاک ایک طرح کا جاسوسی غبارہ ہے‘۔

امریکی سرکاری ڈیوائسز میں ٹک ٹاک پر پابندی پرچین نے امریکا پر تنقید کرتے ہوئے اسے ریاستی طاقت کا غلط استعمال اور دوسرے ممالک کی کمپنیوں کے دبانے کے مترادف قرار دیا ہے۔

امریکا کی 50 ریاستوں میں سے نصف نے پہلے ہی ٹک ٹاک پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔

کینیڈا نے بھی پابندی عائد کردی

دوسری جانب کینیڈا نے بھی سرکاری ڈیوائسز پر ٹک ٹاک کے استعمال پر پابندی عائد کر دی ہے، حکومت کا کہنا ہے کہ ٹک ٹاک کے سبب پرائیویسی اور سیکیورٹی کے خلاف ناقابلِ قبول خطرہ ہے۔

وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا کہ ہمیں ایپلی کیشن کے حوالے سے شدید سیکیورٹی خدشات ہیں، ٹک ٹاک کو ابھی مزید تبدیلی کی ضرورت ہے۔

ٹک ٹاک کمپنی کا ردعمل

متعدد ممالک نے اس پلیٹ فارم کے چین کے ساتھ تعلق پر احتیاطی اقدامات لیے ہیں۔

ٹک ٹاک کو صارفین کے ڈیٹا تک رسائی حاصل کرکے اسے چینی حکومت کو فراہم کرنے کے الزامات کا سامنا ہے، چھ انٹیلی جنس ایجنسیوں کو خدشہ ہے کہ ٹک ٹاک کو سرکاری ڈیوائسز پر ڈاؤن لوڈ کرنے سے لوگوں کی حساس معلومات لیک ہوسکتی ہیں۔

کمپنی کا اصرار ہے کہ وہ دیگر سوشل میڈیا کمپنیوں سے مختلف طریقے سے کام نہیں کرتی اور کہتی ہے کہ وہ ڈیٹا کی منتقلی کے حکم کی تعمیل نہیں کرے گی۔

تاہم ٹک ٹاک کمپنی نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ صارفین کا ڈیٹا چین سے باہر موجود سرورز پر محفوظ کیا جاتا ہے، اور صارفین کے حساس معلومات تک رسائی چینی حکومت کو فراہم نہیں کی جاتی۔

ٹک ٹاک ترجمان نے ردعمل دیتے ہوئے کہنا ہے کہ سرکاری حکام سے بات چیت کرنے کو تیار ہیں کہ ہم کینیڈین شہریوں کی پرائویسی اور سیکیورٹی کو مزید تحفظ کیسے دے سکتے ہیں لیکن اس طرح ٹک ٹاک پر پابندی عائد کردینے سے کسی کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔

اس سے قبل کون سے ممالک ٹک ٹاک پر پابندی عائد کرچکے ہیں

امریکا اور کینیڈا سے قبل 28 فروری کو یورپی پارلیمنٹ، یورپی کمیشن اور یورپی یونین کی کونسل کے ملازمین کی ڈیوائسز پر بھی ٹک ٹاک کے استعمال پر پابندی عائد ہوچکی ہے، پابندی کا اطلاق 20 مارچ سے کیا جائے گا۔

بھارت نے 2020 میں پرائیویسی اور سیکیورٹی خدشات کی بنا پر ٹک ٹاک اور میسجنگ ایپ وی چیٹ سمیت درجنوں دیگر چینی ایپس پر پابندی عائد کردی تھی۔

یہ پابندی متنازعہ ہمالیہ سرحد پر بھارتی اور چینی فوجیوں کے درمیان جھڑپ کے فوراً بعد لگائی گئی تھی جس میں 20 ہندوستانی فوجی ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے۔

پاکستان میں ٹک ٹاک پر غیر اخلاقی مواد کے پھیلاؤ کے الزام میں اکتوبر 2020 کے بعد سے چار بار پابندی عائد ہوچکی ہے، تاہم بعد ازاں یہ پابندی ختم کردی گئی تھی۔

افغانستان کی طالبان قیادت نے نوجوانوں کو ’گمراہ کرنے‘ کے الزام کے تحت 2022 میں ٹک ٹاک اور پب جی گیم پر پابندی لگا دی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں