لکھاری لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔
لکھاری لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔

ہمارے ملک میں کورونا وبا سے پہلے بھی 5 سے 16 سال کی عمر کے 2 کروڑ بچے اسکول جانے سے محروم تھے۔ پھر کورونا اپنے ساتھ اسکولوں کی بندش اور دیگر اہم معاشی رکاوٹیں لے کر آیا۔

بچوں کو طویل عرصے تک گھروں میں رہنا پڑا اور ان کی پڑھائی کا کافی نقصان ہوا جس کی کئی ذرائع سے تصدیق بھی ہوئی۔ کچھ سروے رپورٹس نے بتایا کہ بچوں کی ایک خاص تعداد نے اسکول جانا ہی چھوڑ دیا ہے۔

خصوصی تعلیمی پروگرام پیش کرکے بچوں کے اس تعلیمی نقصان کو پورا کیا جاسکتا تھا۔ بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تعلیمی پروگرام اور رقم منتقلی کو تیز کرکے ان بچوں کی مدد کی جاسکتی تھی جو معاشی وجوہات کے باعث اسکول چھوڑنے پر مجبور تھے۔

حکومت نے اس حوالے سے کچھ نہیں کیا۔ بےنظیر انکم سپورٹ کے ذریعے خاندانوں کے مالی مسائل دور کرنے کے لیے رقم تو منتقل کی گئی لیکن وہ بلخصوص تعلیم کے لیے مختص نہیں تھیں بلکہ یہ رقم تو ان کی مالی مشکلات دور کرنے کے لیے بھی ناکافی تھی۔ اگرچہ اگلے تعلیمی سال کے قریب آنے پر ریمیڈیل پروگرامز کے بارے میں تفصیلی بات کی گئی تھی لیکن زیادہ تر تعلیمی اداروں نے صرف نیا مواد پڑھا کر اس معاملے کو دبا دیا۔

ابھی ہم کورونا کے نقصانات سے سنبھل ہی نہیں پائے تھے کہ سیلاب کی تباہ کاریوں نے ہمیں اپنی زد میں لے لیا جس کے باعث سندھ اور بلوچستان میں سیکڑوں اسکول بند ہوگئے۔ ہزاروں اسکولوں کو سیلاب سے نقصان پہنچا جبکہ کئی اسکولوں کو پناہ گاہ کے طور پر استعمال کیا گیا اور متعدد مقامات پر بےگھر ہونے والی آبادی کے لیے متبادل بھی فراہم نہیں کیے گئے۔

خدشہ ہے کہ اس کی وجہ سے پڑھائی کا حرج ہوگا اور اسکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگا۔ اس صورتحال میں بھی حکومت کا ردعمل محدود ہی ہے۔ کورونا اور سیلاب کے نقصانات کا سامنا کرتا ہمارا ملک اس وقت معاشی محاذ پر سخت بحران سے بھی گزر رہا ہے اور ہمیں ہوش ربا مہنگائی اور اس میں مسلسل اضافے کی صورتحال کا بھی سامنا ہے۔

میں اپنی یادداشت پر زور ڈالوں تو مجھے 1970ء کی دہائی کے اوائل تک ایسا کوئی بحران یاد نہیں آتا جو اس قدر سنگین اور طویل مدتی ہو۔

گزشتہ چند سالوں میں مہنگائی کی شرح 2 ہندسوں میں تھی لیکن یہ 10 فیصد کے قریب ہی تھی۔ تنخواہیں اگرچہ افراطِ زر کی شرح کے ساتھ نہیں بڑھیں مگر پھر بھی وہ اس کے قریب قریب تھیں۔ حقیقی آمدنی میں کمی آرہی تھی لیکن وہ کمی بہت زیادہ بھی نہیں تھی۔ اب جبکہ افراطِ زر کی شرح پہلے 20 اور پھر 30 فیصد سے تجاوز کرچکی ہے، ایسے میں ہمارے نظام میں موجود خرابیاں واضع ہورہی ہیں اور مجموعی طور پر عوام پر اس کے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔

جو چیز وہ پہلے 100 روپے میں خریدتے تھے، اب وہ انہیں 200 روپے یا اس سے زائد قیمت پر مل رہی ہے۔ تمام اشیا کی قیمتیں تو دگنی نہیں ہوئیں لیکن غریب اور متوسط طبقے کی پہنچ میں موجود گھریلو استعمال کی اشیا جن میں اشیائے خورونوش، ایندھن اور ٹرانسپورٹ شامل ہیں، ان کی قیمتیں ضرور دگنی ہوچکی ہیں۔

بلاشبہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے تعلیم کے شعبے پر بھی اثرات مرتب ہوں گے۔ نجی تعلیمی اداروں کی فیسوں میں بھی نمایاں اضافے کا امکان ہے کیونکہ افراطِ زر کی بڑھتی ہوئی شرح کے باعث اسکولوں کو عملے کی تنخواہوں میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہوگی اور یوں زائد فیسوں اور دیگر اخراجات کی مد میں بڑھتی ہوئی قیمتوں کا بوجھ طلبہ پر آئے گا۔

امتحانات کی فیسوں میں بھی اضافے کا خدشہ ہے۔ بورڈز کے پرچے پرنٹ کروانے اور امتحانی مراکز تک ان کو پہنچانے میں بھی اخراجات زیادہ ہوں گے جس سے امتحانی فیس بھی بڑھے گی جبکہ او اور اے لیول کے امتحانات چونکہ بین الاقوامی سطح پر منعقد ہوتے ہیں اس لیے روپے کی کم ہوتی قدر ان کی فیسوں پر بھی اثر انداز ہوسکتی ہے۔

طلبہ کو تعلیمی اداروں تک پہنچانے والی وینز کی فیسوں میں بھی اضافہ ہوچکا ہے جبکہ پیٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث ان میں مزید اضافہ متوقع ہے۔ اسکول جانے والے طلبہ کے استعمال کی اشیا جن میں اسٹیشنری، کتابیں، نوٹ بکس اور یونیفارمز شامل ہیں ان کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے اور مزید اضافے کا بھی امکان ہے۔

سرکاری اسکولوں کو تدریسی کتابیں مفت فراہم کی جاتی ہیں اور اطلاعات کے مطابق کتابوں کی طباعت کے اخراجات بھی 200 فیصد تک بڑھ چکے ہیں۔ اس سال صوبائی حکومتوں کی جانب سے تدریسی کتابیں کم تعداد میں شائع کیے جانے کا امکان ہے، جس کے باعث والدین پر کتابوں کی خریداری کا اضافی بوجھ بھی آسکتا ہے۔ اس صورتحال میں سرکاری تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی کمی کو پورا کرنے کے حوالے سے اقدامات لینے کے امکانات بھی کم ہی نظر آرہے ہیں۔

معیشت کی بگڑتی ہوئی صورتحال کا مطلب یہ ہے کہ تنخواہوں میں بھی شاید بہت کم ہی اضافہ ہو جس کے نتیجے میں ممکن ہے کہ کچھ لوگ اپنی نوکریاں چھوڑنے کے بارے میں سوچیں۔ تاہم نئی نوکریوں کا ملنا نہ ہی آسان نظر آرہا ہے اور نہ ہی فائدہ مند۔ اس صورتحال میں زیادہ تر لوگوں کی آمدنی متاثر ہوگی اور مستقبل قریب میں حالات بہت سے خاندانوں کو سخت فیصلے لینے پر مجبور کرسکتے ہیں۔

مستقبل میں ضرورت اور آسائش میں نہیں بلکہ متعدد ضروریات میں سے انتہائی ناگزیر ضرورت کا انتخاب بھی کرنا پڑسکتا ہے۔ ایسے موقع پر عموماً تعلیم پر سب سے پہلے سمجھوتا کیا جاتا ہے۔ جب خاندانوں کو لگتا ہے وہ مہنگی تعلیم کے اخراجات اٹھانے سے قاصر ہیں اور کچھ خرچوں کو کم کرنے یا مستقل طور پر بند کی ضرورت ہے تو ان میں سے زیادہ تر لوگ اپنے بچوں کی تعلیم چھڑوا کر انہیں کام کرنے بھیجنے کو ترجیح دیں گے تاکہ نہ صرف اخراجات میں کمی آئے بلکہ آمدنی میں بھی اضافہ ہو۔

سالانہ اسٹیٹس آف ایجوکیشن کی رپورٹ نے نجی تعلیمی اداروں سے واپس سرکاری اسکولوں میں داخلوں کو ظاہر کیا ہے۔ تو کیا یہ بڑھتے ہوئے معاشی دباؤ کے باعث ہوا ہے چونکہ سرکاری اداروں میں فیس ادا نہیں کرنی پڑتی۔ اس سوال سے قطع نظر شاید ہمیں اس رجحان میں مزید اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔ بدقسمتی سے بہت سے والدین اپنے بچوں کی تعلیم چھڑوانے پر بھی مجبور ہوں گے۔ نجی تعلیمی ادارے لوگوں کی استطاعت سے باہر ہوسکتے ہیں اور اس حوالے سے شاید کئی والدین مشکل فیصلے لینے پر مجبور ہوں گے۔

اسکول جانے والے ایک بچے کی تعلیم میں حائل رکاوٹوں کے اس کے والدین، خاندان اور مجموعی طور پر پورے ملک پر کافی زیادہ اثرات مرتب ہوں گے۔ ہر وہ بچہ جو تعلیم حاصل کرنا چھوڑ دیتا ہے یا تعلیمی نقصانات کا سامنا کرتا ہے اس سے نہ صرف اس کی روزگار کے حصول کی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں بلکہ اس کے خاندان کے مستقبل پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ جی ڈی پی کی کم شرحِ نمو کی صورت میں ملک پر بھی اثرانداز ہوتا ہے۔

ہمیں اپنے بچوں کی تعلیم میں حائل ان رکاوٹوں کو دور کرنا ہوگا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام کو وسعت دی جائے اور بالخصوص تعلیم کے لیے مشروط رقم کی منتقلی کو یقینی بنایا جائے۔ ریاست کو جس حد تک ممکن ہو تعلیم کے لیے فنڈز مختص کرنے کی ضرورت ہے اور اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ بڑھتے ہوئے اخراجات کے تناظر میں ان فنڈز میں مناسب اضافہ کیا جاتا رہے۔ پھر بھی ماضی کی طرح خدشہ ہے کہ قلیل مدتی مفادات کی خاطر ایک بار پھر ہماری تعلیمی ضروریات کو نظر انداز کردیا جائے گا۔


یہ مضمون 3 مارچ 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں