Dawnnews Television Logo

پی ایس ایل کا آٹھواں سیزن کتنا منفرد اور کامیاب رہا؟

فائنل نے شائقین کو اعلٰی درجہ کی کرکٹ کے ساتھ جیت کی جدوجہد کا رنگ دکھادیا، آخری گیند پر ایک رن سے قلندرز کی جیت 34 دن کے اس ٹورنامنٹ کی معراج تھی۔
شائع 20 مارچ 2023 10:52am

پاکستان سپر لیگ کا آٹھواں ایڈیشن کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوگیا۔ اس کے انعقاد اور میچوں کے مقامات پر ابتدا میں بہت سے شکوک وشبہات اور خدشات تھے۔ جہاں ملکی سیاسی صورتحال مخدوش تھی وہیں معاشی مشکلات کے شکار عوام کی جانب سے پذیرائی ملنے کے امکانات بھی کم تھے۔

سونے پر سہاگہ کہ پی سی بی کی نئی منیجمنٹ اس ایڈیشن کے لیے بھرپور تیاری نہیں کرسکی تھی۔ موجودہ چیئرمین نجم سیٹھی تو انکشاف کرچکے ہیں کہ لیگ کو ایک یتیم بچے کی طرح چھوڑ دیا گیا تھا۔ فرنچائزز ناخوش تھیں جبکہ اسپانسرز کے ساتھ تعلقات سرد مہری کا شکار تھے ان حالات میں پی ایس ایل کا کامیاب انعقاد ایک ’مشن امپاسبل‘ نظر آتا تھا۔

نجم سیٹھی اگرچہ موجودہ حکومت کی آشیرواد سے پی سی بی کے چیئرمین بنے ہیں اور ان کی سربراہی تادم تحریر ایک ریاستی حکم کا نتیجہ ہے لیکن وہ کام ایک آئینی سربراہ یا شاید اس سے بھی زیادہ کی حیثیت سے کررہے ہیں۔ سب سے زیادہ حیران کن بات وہ تھی جب لیگ کے لاہور میں ہونے والے میچوں کا انعقاد خطرے میں پڑگیا تھا۔ نگران حکومت کے مالی مطالبے نے لیگ کو کچھ گھنٹوں کے لیے معطل کردیا تھا۔

پی ایس ایل 8 میں اگر کچھ چیزیں روایتی تھیں تو کچھ جدتیں بھی اپنائی گئیں جس نے اس لیگ کو پہلی مرتبہ ایمرجنسی لیگ سے نارمل لیگ کا روپ دیا۔

ہوم اور اوے میچوں کا حقیقی روپ

حالیہ لیگ میں پہلی دفعہ ہوم اور اوے میچوں کا ایک اصل روپ سامنے لایا گیا۔ اگرچہ یہ اصول لیگ کے پہلے ایڈیشن سے لاگو ہے لیکن متحدہ عرب امارات میں جب لیگ ہورہی تھی تو وہاں ایسا قطعی طور پر ممکن نہیں تھا۔ جب پاکستان میں لیگ بھرپور انداز میں شروع ہوئی تب بھی یہ مختلف فیز میں رہی اور اصل روپ سامنے نہ آسکا۔ شاید سیکیورٹی اور لاجسٹک کے مسائل کے باعث منیجمنٹ نے نصف میچ ایک وینیو اور نصف دوسری جگہ رکھے تھے۔ لیکن حالیہ پی ایس ایل میں پہلی دفعہ دو ریجن بناکر ہوم اور اوے میچ کروائے گئے۔

پشاور زلمی اور کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے اپنے ہوم میچ راولپنڈی اور کراچی میں کھیلے لیکن باقی چار ٹیمیں اپنے شہروں میں کھیلتی رہیں۔ پہلی دفعہ ایک شہر میں میچ ایک دن ہی کھیلا گیا اور دوسرے دن دوسرے شہر میں ٹیمیں پہنچیں جس سے پی ایس ایل میں مسابقت کا رجحان بڑھ گیا۔

سنسنی خیز کرکٹ میں اضافہ

دنیا بھر میں جہاں جہاں کرکٹ لیگز ہورہی ہیں ناقدین انہیں فکسنگ اور منی میکنگ قرار دیتے ہیں۔ زیادہ تر میچ مقابلے سے عاری اور محض ایک نمائش سے زیادہ نہیں ہوتے۔ لیکن پی ایس ایل نے پہلے دن سے اس الزام کی نفی کی ہے ماضی میں بڑی تعداد ایسے میچوں کی ہے کہ جب فیصلہ آخری گیند پر ہوا اور میچ کی سنسنی خیز کیفیت آخر وقت تک قائم رہی۔

ہفتے کو کھیلے گئے فائنل نے شائقین کو اعلٰی درجہ کی کرکٹ کے ساتھ جیت کی جدوجہد کا رنگ دکھادیا۔ میچ کی آخری گیند پر ایک رن سے لاہور قلندرز کی جیت 34 دن کے اس ٹورنامنٹ کی معراج تھی۔ اس لیگ میں ہر میچ اگلے میچ کے لیے بنیاد بنتا رہا اور ہر ٹیم کو آگے جانے کی امید دیتا رہا۔ اگر پی ایس ایل کے میچوں کو ایک جھلک میں دیکھا جائے تو وہ آئی پی ایل کے مقابلے کے نظر آتے ہیں۔ آئی پی ایل میں کرکٹ کم اور شوبز زیادہ ہوتا ہے لیکن پی ایس ایل نے مسابقتی کرکٹ میں نئی روح پھونک دی ہے۔

نیا ٹیلنٹ

چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ مینجمنٹ کمیٹی نجم سیٹھی نے فائنل میچ سے قبل پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا ہے پی ایس ایل کے اس سیزن نے ڈیجیٹل ریٹنگ میں انڈین پریمیئر لیگ کو پیچھے چھوڑ دیا، انہوں نے بتایا کہ پی ایس ایل کے آٹھویں سیزن نے 150 کی ڈیجیٹل ریٹنگ حاصل کی جبکہ آئی پی ایل 130 ریٹنگ حاصل کرسکا۔

پی ایس ایل ہر سال کچھ نئے باصلاحیت کھلاڑی سامنے لے کر آتی ہے جو کچھ ہی دنوں میں قومی ٹیم کے رکن بن جاتے ہیں۔ اس سال بھی نیا ٹیلنٹ سامنے آیا لیکن اس بار یہ پہلے سے بہت زیادہ ہے۔ احسان اللہ، عباس آفریدی، صائم ایوب اسامہ میر، عثمان خان جیسے اگر نئے ٹیلنٹ سامنے آئے تو اعظم خان، محمد حارث، زمان خان اور بہت سے کھلاڑیوں کی کارکردگی میں نکھار آیا۔ ان کو زیادہ مواقع ملے اور شائقین کو بھرپور کرکٹ دیکھنے کو ملی۔ اگر کچھ کھلاڑیوں کو اس سال کی دریافت کہا جائے تو وہ صائم ایوب عثمان خان اور عباس آفریدی کہے جاسکتے ہیں۔

لاہور قلندرز کا صبر آزما سفر

لاہور قلندرز کی ٹیم اس لیگ کی سب سے بدقسمت اور سب سے خوش قسمت ٹیم ہے۔ مسلسل 5 سال جس ٹیم نے صرف ہارنا سیکھا ہو اور ہر میچ کے بعد اس کی تضحیک میں میمز بنائے جاتے ہوں، جس کے کوچز پر بے پناہ تنقید ہوتی ہو، جس کے کھلاڑیوں کو ریلوکٹے کہا جاتا ہو، اس نے صبر اور استقامت کے ساتھ اپنے سفر کو جاری رکھا اور سخت محنت کو اپنا شعار بنایا۔ آج اس کو اپنی محنت کا صلہ مل گیا۔ وہ لیگ کی پہلی ٹیم بن گئی جس نے مسلسل 2 سال لیگ جیتی اور خوب جیتی۔

اگرچہ قلندرز کو اپنے اس سفر میں میک کولم جیسے کپتان میسر رہے، بہترین بیٹنگ اور باؤلنگ ساتھ رہی لیکن قسمت کی دیوی ان پر مہربان نہیں تھی۔ اب شاہین شاہ آفریدی کی کپتانی میں قسمت کی دیوی بھی مہربان ہوگئی تو چمچماتی ہوئی ٹرافی تک رسائی بھی ہوگئی۔

اسپانسرز کا تنازع

پی ایس ایل میں گزشتہ 2 سال سے کچھ سٹہ کھلانے والی ویب سائٹس اسپانسرز ہیں۔ گزشتہ سال ایک بیٹنگ ویب سائٹ پر جب تنقید ہوئی تو ان کے منیجرز نے عوام کو دھوکا دینے کے لیے نام بدل لیا لیکن اصل مقصد کے باعث صرف جزوی نام بدل سکے۔ میڈیا کے توجہ دلانے کے باوجود جب پی سی بی حکام کے کان پر جوں نہ رینگی اور متعلقہ حکام نے نوٹس نہ لیا تو اس سال مزید بیٹنگ ویب سائٹس اسپانسرز بن کر سامنے آگئیں۔

کراچی کنگز اور ملتان سلطانز نے ان سٹہ کمپنیوں کے لوگو اپنی قمیضوں پر لگائے تو ناقدین نے اعتراض کیا۔ ملتان سلطانز نے پورا ٹورنامنٹ کمپنی کے لوگو کے ساتھ کھیل لیا لیکن آخری میچ میں گناہ معاف کروانے کے مترادف محمد رضوان نے اس کو چھپانے کی کوشش کی۔ بیٹنگ یا سٹے بازی پاکستان میں ممنوع ہے اور اس کی تشہیرکی بھی اجازت نہیں ہے۔ لیکن ان بیٹنگ سائٹس کو کس قانون کے تحت اجازت ملی اور جب ان کا پاکستان میں آپریشن بھی نہیں ہے تو وہ کون سی تشہیر چاہتے ہیں؟ کیا یہ ٹیم کے ساتھ کوئی معاہدہ ہے اور ان کے مفادات مغربی ممالک میں ہیں؟ پی سی بی نے ابھی تک اس پر اپنا کوئی مؤقف نہیں دیا ہے جبکہ متعلقہ حکام بھی خاموش ہیں۔

آخری پی ایس ایل کھیلنے والے کھلاڑی؟

پی ایس ایل 8 کچھ کھلاڑیوں کے لیے آخری پی ایس ایل بھی ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ ان کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے ان کا پھر سے کسی فرنچائز میں منتخب ہونا بہت مشکل نظر آتا ہے اور حالیہ سیزن میں بھی وہ کچھ زیادہ نہیں کرپائے۔

محمد حفیظ

پاکستان ٹیم کے سابق کپتان اور مایہ ناز آل راؤنڈر محمد حفیظ اس فہرست میں سب سے اوپر نظر آتے ہیں۔ بنگلہ دیش کے خلاف 2003ء میں اپنے کریئر کا آغاز کرنے والے حفیظ کی صحیح پہچان اس وقت ہوئی جب ٹی20 کرکٹ کو فروغ حاصل ہوا۔ محمد حفیظ نے اگرچہ پاکستان کے لیے تینوں فارمیٹ کی کرکٹ کھیلی اور ہر جگہ نام بنایا لیکن ٹی20 کرکٹ میں وہ ایک منجھے ہوئے آل راؤنڈر ثابت ہوئے۔ حفیظ ہارڈ ہٹنگ میں تو شہرت رکھتے ہی ہیں لیکن اپنی اسپن باؤلنگ سے بھی ہمیشہ نمایاں رہے ہیں۔ پی ایس ایل میں ان کا آغاز تو لاہور قلندرزکے ساتھ ہوا لیکن 2 سال بعد وہ پشاور زلمی میں چلے گئے۔

جب انہوں نے 2022ء میں انٹرنیشل کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تواس کا اثر ان کی پی ایس ایل میں شرکت پر بھی پڑا اور پی ایس ایل 8 کی ڈرافٹنگ میں کسی بھی فرنچائز نے ان کو حاصل کرنے میں دلچسپی نہیں دکھائی۔ لیکن وہ خوش قسمت رہے کہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے احسان علی زخمی ہوگئے تو قرعہ فال ان کے نام نکل آیا اگرچہ ان کی کرکٹ ابھی بھی باقی تھی لیکن وہ خاطر خواہ کارکردگی نہ دکھاسکے۔

محمد حفیظ نے پی ایس ایل کے 78 میچوں میں 1731 رنز بنائے ہیں اور اب شاید مزید نہ بن سکیں کیونکہ اگلے سیزن میں ان کی شمولیت کے امکانات صفر کی حد تک ہیں۔

  محمد حفیظ— تصویر پی ایس ایل/ ٹوئٹر
محمد حفیظ— تصویر پی ایس ایل/ ٹوئٹر

وہاب ریاض

اپنی رفتار سے شہرت حاصل کرنے والے وہاب ریاض پاکستان کے تیز ترین باؤلرز میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے پہلے سیزن سے پشاور زلمی کی نمائندگی کی اور اس سیزن تک انہیں کے ساتھ رہے ہیں۔ وہاب ریاض نے 88 میچوں میں 113 وکٹ حاصل کی ہیں جہاں وہ سرفہرست نظر آتے ہیں اور اگلے سیزن تک شاید ان کا ہی نام سب سے زیادہ وکٹ لینے والوں لکھا جائے۔ لیکن اس سیزن میں ان کی باؤلنگ متاثر کن نہیں رہی ہے جس سے ان کے لیے آئندہ سیزن مشکل نظر آتا ہے

  وہاب ریاض— تصویر: رائٹرز
وہاب ریاض— تصویر: رائٹرز

عمران طاہر

جنوبی افریقہ کے پاکستانی نژاد انٹرنیشنل کرکٹر عمران طاہر کے لیے بھی اب پی ایس ایل کے ساتھ تعلق اختتام کے قریب ہے۔ وہ کراچی کنگز کی طرف سے یہ سیزن کھیلے اس سے پہلے ملتان سلطانز کے کیمپ میں بھی تھے، 44 میچوں میں 56 وکٹ لے کر وہ کوئی خاص تاثر تو نہیں قائم کرسکے لیکن اپنے اسٹائل اور زلفوں کی حرکت نے انہیں خبروں میں رکھا۔

  عمران طاہر— تصویر: ٹوئٹر
عمران طاہر— تصویر: ٹوئٹر

عمر اکمل

پاکستان کرکٹ میں ایسے بہت کم کھلاڑی ملیں گے جنہوں نے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری. عمر اکمل بھی ان میں سے ایک ہیں۔ انتہائی باصلاحیت ہوتے ہوئے بھی وہ اپنا لوہا نہیں منواسکے۔ اسکینڈلز اور ڈسپلن کی خلاف ورزی نے ان کی کرکٹ کو ختم کردیا

اس سیزن میں وہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے متبادل کھلاڑی تھے۔ انہیں کافی مواقع ملے لیکن وہ خود کو منوا نہ سکے اگرچہ انہوں نے دو اچھی اننگز کھیلی لیکن مجموعی طور پر ناکام رہے۔ اگلے سیزن میں ان کے لیے جگہ مشکل نظر آرہی ہے۔

  عمر اکمل— تصویر: ٹوئٹر
عمر اکمل— تصویر: ٹوئٹر

مزکورہ بالا کھلاڑیوں کے علاوہ بہت سے ایسے کھلاڑی ہیں جن کی کرکٹ اب اختتام پذیر نظر آرہی ہے۔ کولن منرو، بین کٹنگ، کیرن پولارڈ، جمی نیشم اور شرجیل خان بھی ان کھلاڑیوں میں شامل ہیں جن کے لیے اب جگہ مشکل ہوجائے گی۔ بہت سے نوجوان کھلاڑیوں نے اس سیزن میں خود کو منوایا ہے اور اپنی کارکردگی سے سب کو حیران کیا ہے، ان کی شمولیت سے ٹیمیں مضبوط ہوجائیں گی لیکن نئے کھلاڑیوں کو لینے کے لیے عمر رسیدہ کھلاڑیوں کو فارغ کرنا ہوگا۔ اس لیے فرنچائزز کو آئندہ سیزن کے لیے ابھی سے اپنا کام شروع کرناہوگا چند ایک نے تو آغاز کردیا ہے اور آئندہ سیزن کے لیے اسکواڈ میں کاٹ چھانٹ شروع کردی ہے۔

اپنے تمام مثبت اور منفی پہلوؤں کے ساتھ پی ایس ایل کا 8واں ایڈیشن تفریح سے بھرپور رہا۔ کچھ کھلاڑیوں نے زبردست پرفارمنس دی اور کچھ غیر موثر رہے۔ ملتان سلطانز لیگ کی سب سے بہترین ٹیم رہی اور 2 کے سوا تمام ایوارڈز لے گئی۔ لیکن کپتان محمد رضوان کہتے ہیں مجھ سے سارے ایوارڈز لے لو بس وننگ ٹرافی دے دو۔


ہیڈر: پی ایس ایل/ ٹوئٹر