لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔
لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔

اس وقت دنیا کے اہم خطوں میں موجود حکومتوں کا تختہ الٹنے کے لیے جو 2 حکمت عملیاں اپنائی جارہی ہیں وہ سبق آموز ہیں۔

پہلی حکمت عملی کی جھلک ہم نے اس عوامی تحریک کی صورت میں دیکھی جو اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے خلاف جاری ہے۔ یہ تحریک ان کی اس کوشش کے خلاف جس کے تحت وہ عدلیہ کو سیاسی بنانے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ وہ مبینہ رشوت کے مقدمات اور ممکنہ سزا سے بچ سکیں۔

جیسے جیسے سڑکوں پر عوامی مظاہرے بڑھتے گئے تو اسرائیل کے وزیر دفاع نے عدلیہ کی آزادی کو سلب کرنے کے خلاف خبردار کیا۔ نیتن یاہو نے وزیر دفاع کو ہی عہدے سے ہٹا دیا۔ اب حالات یہ ہیں کہ اسرائیل کے صدر ہی مظاہرین کی حمایت میں کھل کر سامنے آچکے ہیں۔

تبدیلی لانے کا ایک اور طریقہ ہم نے ترکیہ میں دیکھا جہاں طویل عرصے سے ایک دوسرے سے اختلاف رکھنے والی اپوزیشن جماعتیں، مئی میں منعقد ہونے والے انتخابات میں صدر طیب اردوان کو شکست سے دوچار کرنے کے لیے اپنی دشمنی بھلا کر متحد ہوگئی ہیں۔

یہاں امکان ہے کہ ترکیہ اپنے نام نہاد سیکولرزم کو دوبارہ رائج کرسکے گا۔ دنیا میں کچھ پرتشدد طریقہ کار بھی اختیار کیے گئے ہیں جن کے ذریعے مخالفوں اور غاصبوں کو حکومت سے ہٹانے میں کامیابی یا ناکامی ملی ہے لیکن ہم بھارت کے تناظر میں موجود پُرامن آپشنز کا ذکر کرتے ہیں۔

یہاں ہمارے سامنے گزشتہ ہفتے گجرات کے سورت مجسٹریٹ کی مدد سے راہول گاندھی کی پارلیمنٹ سے نااہلی کا واقعہ آجاتا ہے۔ مجسٹریٹ نے انہیں نریندر مودی کو بدنام کرنے کا مجرم ٹھہرایا اور کانگریس رہنما کو ہتکِ عزت کے الزام میں 2 سال کی قید کی سزا سنائی گئی جوکہ اس جرم میں ملنے والی زیادہ سے زیادہ سزا ہے۔

بھارت میں 2 سال جیل کی سزا ملنے پر اراکین پارلیمنٹ اپنی نشستوں سے نااہل ہوجاتے ہیں۔ نریندر مودی کے حوالے سے متنازع بیان راہول گاندھی کی جانب سے بہ ظاہر 2019ء میں عام انتخابات کے دوران کرناٹکا میں ایک تقریر کرتے ہوئے دیا گیا تھا۔ اس حوالے سے یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ان الزامات کے تحت قانونی کارروائی نریندر مودی کی آبائی ریاست میں ہوئی۔

یہ بات غیرمتوقع ہوگی کہ مجسٹریٹ نے بغیر سوچے سمجھے راہول گاندھی کو 2 سال کی سزا سنائی جوکہ ہتک عزت کے مقدمے میں سب سے زیادہ مدت کی دی جانے والی سزا ہے اور یہ ماننا بھی مشکل ہے کہ مجسٹریٹ اس امر سے بھی لاعلم ہو کہ اگر راہول گاندھی کو ایک دن کم کی بھی سزا دی جاتی تو ان کی لوک سبھا کی رکنیت برقرار رہتی۔

کیا مودی حکومت کی جانب سے لیا جانے والا یہ سخت اقدام اپوزیشن کو بھڑکانے کا کام کرسکتا ہے یا وہ اپوزیشن کی ان جماعتوں کو متحد ہونے کا موقع فراہم کرسکتا ہے جنہوں نے کبھی کانگریس سے کسی معاملے پر اتفاق نہیں کیا؟ اس کا جواب ہاں بھی ہوسکتا ہے اور نہیں بھی۔

ممکنہ طور پر اس عمل میں ابتدائی مسئلہ راہول گاندھی کے اپنے متعلق خیالات ہیں۔ وہ خود کو سچائی کی مہم چلانے والے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ وہ ہندوتوا کے بانی ساورکر کی طرح نہیں جنہوں نے جیل سے آزادی حاصل کرنے کے لیے انگریز حکمرانوں سے لاتعداد دفعہ معافیاں مانگیں۔

اس کے برعکس وہ مہاتما گاندھی ہیں جو کسی بھی طرح کی مصیبت کا بےخوفی سے سامنا کرتے تھے اور دعویٰ کرتے تھے کہ ان کی سچائی ہی ان کی ڈھال اور ہتھیار ہے۔ راہول گاندھی نے کہا کہ وہ جمہوریت کے دفاع میں نہ سر جھکائیں گے اور نہ ہی معافی مانگیں گے۔ بہت سے لوگوں کے لیے یہ صورت حال کو اپنے قابو میں کرنے کی ایک مثال ہے۔

عملی طور یہ بات ابھی واضح نہیں ہے کہ وہ گاندھی کے وارث کے طور پر جس آئیڈیل ازم کی بات کررہے ہیں اس کے لیے کون سی حکمت عملی موزوں رہے گی، آیا ترکیہ کے اتحاد والی حکمت عملی یا پھر اسرائیل کے عوامی مظاہروں والی۔

راہول گاندھی نے لوک سبھا سے اپنی نااہلی پر کہا کہ ’مجھے نااہل اس لیے کیا گیا کیونکہ وزیراعظم میری اگلی تقریر سے خوفزدہ ہیں، وہ اس تقریر سے خوفزدہ ہیں جو میں گوتم اڈانی کے حوالے سے کرنے والا تھا‘۔ انہوں نے مودی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’وہ ڈرے ہوئے ہیں اور وہ ہرگز یہ نہیں چاہتے کہ میں پارلیمنٹ میں اس حوالے سے تقریر کروں‘۔

گوتم اڈانی، اڈانی گروپ کے بانی چیئرمین ہیں۔ یہ ایک ملٹی نیشنل گروپ ہے جس کے نجی طیارے میں مئی 2014ء میں نریندر مودی وزیراعظم کے عہدے کا حلف لینے کے لیے دہلی پہنچے تھے۔

راہول گاندھی نے مؤقف اپنایا کہ وہ اپنی کرسی کے چلے جانے پر فکرمند نہیں ہیں کیونکہ ان کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ’ملک کے اداروں اور عوام کی آواز کا دفاع‘ کریں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت، سری لنکا اور آسٹریلیا سے معاہدے کرنے میں مودی نے اڈانی گروپ کو مدد فراہم کی۔ اڈانی گروپ کی شیل کمپنیوں میں سرمایہ کاری ایک چینی شہری نے کی تھی۔ راہول گاندھی نے سوال اٹھایا کہ ’کوئی یہ سوال کیوں نہیں پوچھ رہا کہ وہ چینی شہری کون ہے؟ کوئی نہیں جانتا کہ یہ پیسہ آخر آیا کہاں سے۔ اڈانی یہ پیسہ خود تو پیدا نہیں کرسکتے‘۔

کانگریس کو مودی سے جو خطرہ محسوس ہوتا ہے وہ سنگین نوعیت کا ہے۔ دیگر اپوزیشن جماعتیں بھی کچھ ایسا ہی محسوس کرتی ہیں۔ راہول گاندھی اب کانگریس پارٹی کے صدر نہیں ہیں لیکن اپنی کم ہوتی نشستوں کے باوجود وہ قومی سطح پر 134 سال پرانی کانگریس جماعت کے سر کا تاج ہیں۔

کیا وہ مئی 2024ء کے عام انتخابات میں وزیراعظم مودی کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی جماعت کی چھتری تلے منحرف اپوزیشن جماعتوں کو متحد کرپائیں گے؟ ان میں فی الوقت یہ بحث نہیں ہونی چاہیے کہ اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم کون بنے گا۔

اس حوالے سے ایک اہم پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ کانگریس کی مخالف اپوزیشن جماعتوں نے راہول گاندھی کی نااہلی کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بینرجی کی حمایت نوبل انعام یافتہ امرتیہ سین کررہی ہیں اور ممتا بینرجی مودی کی جگہ لینے کے لیے ایک متفقہ امیدوار کے طور پر سامنے آرہی ہیں۔

ممتا بینرجی مسلسل بی جے پی حکومت کے ساتھ تنازعات کا شکار رہی ہیں۔ ان کی جانب سے راہول گاندھی کی پارلیمنٹ سے بےدخلی، غیرثابت شدہ الزامات پر عام آدمی پارٹی کے مخالف سیاستدانوں، بشمول ان کے سابق وزرا کی سزاؤں کی مذمت کرنا متحدہ اپوزیشن بننے کی جانب پہلا قدم ثابت ہوسکتا ہے۔

اپوزیشن کی تقریباً تمام سیاسی جماعتیں ٹیکس چھاپوں یا منحرف اراکین کی صورت میں بی جے پی کا اگلا ہدف بننے کے خوف میں مبتلا ہیں۔ بی جے پی نے حال ہی میں ادھو ٹھاکرے کی شیوسینا حکومت کا تختا الٹا ہے۔ بی جے پی نے اس جماعت کو تقسیم کردیا اور مہاراشٹڑا میں نیا حکمران اتحاد قائم کردیا ہے۔

بی جے پی نے زیادہ آبادی والی ریاستوں جیسے کرناٹکا اور مدھیا پردیش کو کانگریس اتحاد سے واپس لےکر ان پر حکومت قائم کی اور دولت کے بل بوتے پر اراکین خرید کر کانگریس کا تباہ کردیا۔ یہ مودی سے اختلاف رکھنے والی کسی بھی جماعت کے لیے پیچیدہ مسئلہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اس ممکنہ اتحاد میں بہت کم ہی ایسے لوگ ہیں جو راہول گاندھی کی طرح سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں۔ انہوں نے لوگوں کے نام لیے ہیں جوکہ عمومی طور پر ان کا اثاثہ ہونا چاہئیں لیکن یہ ان کے ہاتھ بھی باندھ سکتے ہیں۔

اڈانی اور امبانی گروپ کی جانب سے دولت کا اثرورسوخ دکھایا جاتا ہے۔ ان کے بارے میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ وہ ان اپوزیشن جماعتوں پر نظر رکھتے ہیں جو اپنے کارپوریٹ مفاد پرستوں کو ناراض کیے بغیر مودی کی حکومت کا خاتمہ کرنا چاہتی ہیں۔

اصل مسئلے پر مشترکہ نقطہ نظر کی عدم موجودگی کی صورت میں راہول گاندھی کی اس مہم کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں جس میں وہ مذہب کا لبادہ اوڑھے فاشزم اور اعلیٰ سطح پر ہونے والی بدعنوانی کے گٹھ جوڑ توڑنے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔


یہ مضمون 28 مارچ 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں