بینچ ٹوٹنے سے ظاہر ہورہا ہے کہ اعتماد کا فقدان ہے، خواجہ آصف

اپ ڈیٹ 31 مارچ 2023
خواجہ آصف نے کہا کہ بینچ میں صرف 3 ججز رہ گئے ہیں اور اگر اعتماد بحال کرنا ہے تو فل کورٹ ہو — تصاویر: ڈان نیوز
خواجہ آصف نے کہا کہ بینچ میں صرف 3 ججز رہ گئے ہیں اور اگر اعتماد بحال کرنا ہے تو فل کورٹ ہو — تصاویر: ڈان نیوز

وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے سپریم کورٹ کا بینچ دوبارہ ٹوٹنے پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے ایک بات بار بار ثابت ہو رہی ہے کہ اس وقت اعتماد کا فقدان ہے۔

اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی ہے کہ انصاف کی متلاشی پوری پاکستانی قوم کے لیے آخری منزل یہی ہے اور اس منزل میں اس وقت ہیجانی کیفیت پیدا ہوچکی ہے جس کے بعد عام سائل کی توقعات پر مایوسی چھا گئی ہے۔

انہوں نے یہ بات انتخابات التوا کیس میں ایک روز قبل جسٹس امین الدین اور آج جسٹس جمال خان مندوخیل کے کیس سننے سے معذرت کے تناظر میں کہی جس کے بعد 5 رکنی بینچ صرف 3 اراکین تک محدود رہ گیا ہے۔

وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ہم سیاستدانوں میں پارٹی بازی، مخاصمت اور لڑائی جھگڑے بھی ہوتے ہیں، یہ سب سیاست کے کلچر کا حصہ ہیں لیکن ان کے کلچر کا حصہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں معذرت کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ سپریم کورٹ کا کلچر بہت اعلیٰ و ارفع مطالبات کرتا ہے جس سے کسی بھی حکومت، سیاسی پارٹی، کسی بھی طبقے کا اعتماد متزلزل نہ ہو لیکن آج اعتماد متزلزل ہو رہا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں خواجہ آصف نے کہا کہ ہم پہلے دن سے مطالبہ کر رہے ہیں فل کورٹ بنادیں کیوں کہ کم ہوتے ہوتے اب بینچ میں صرف 3 ججز رہ گئے ہیں اور اگر اعتماد بحال کرنا ہے تو فل کورٹ ہو، تاکہ اس عمارت میں بیٹھے لوگوں پر جو اعتماد ہے وہ متزلزل نہ ہو۔

فل کورٹ نہ بنا تو انصاف ہوتا نظر نہیں آئے گا، رانا ثنااللہ

دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ جسٹس جمال خان مندوخیل نے اختلافی نوٹ میں جو باتیں لکھی ہیں وہ اس لیے انتہائی افسوس ناک ہیں کہ اعلیٰ ترین منصب پر بیٹھے لوگ ایسے رویوں کا اظہار کریں گے جس کا ذکر انہوں نے کیا مثلاً مشاورت نہیں کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کی بات سامنے آنا قانونی برادری کے لیے المیہ ہے اور دوسرا المیہ یہ ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے ازخود نوٹس پر دیے گئے فیصلے کو سرکلر کے ذریعے مسترد کردیا گیا۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ ایک فرد واحد جو فتنہ ہے وہ 10 سال کی محنت کے بعد ملک کو اس نہج پر لے آیا ہے کہ یہاں سیاسی طور پر بحران، انتظامی طور پر بحران اور اب عدلیہ کو بھی اس نے بحران میں مبتلا کردیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر قاضی فائز عیسٰی کے خلاف ریفرنس نہ دائر کیا جاتا، ان کے اہلِخانہ کو عدالتوں، ایف بی آر کی عمارتوں میں رلایا نہ جاتا تو ملک میں یہ بحرانی کیفیت نہیں پیدا ہوتی جو اس وقت موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کرتا ہوں کہ اس بات کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ یہ فتنہ کس طرح ملک میں متعارف ہوا اور کس طرح ملک اور اس کے اداروں کو بحران در بحران کا شکار کر رہا ہے۔

رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ یہ چاہتا ہے کہ اس ملک میں افراتفری و انارکی ہو، اس بات کا جائزہ لیں کہ اس نے جو کچھ 10 سال میں کیا بالخصوص اسمبلیاں توڑنے کے پیچھے کون ہے، یہ اسمبلیاں آئینی طور پر نہیں توڑی گئیں، دونوں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور اراکین کہتے رہے کہ ہم نے نہیں توڑنی لیکن یہ اس کا تکبر اس کی ضد تھی کہ اسمبلیاں توڑی گئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جب 9 رکنی بینچ بیٹھا تھا تو ایک معزز جج نے یہ معاملہ اٹھایا بھی تھا اس لیے میں تمام ججز سے بالعموم اور بالخصوص چیف جسٹس سے اپیل کروں گا کہ انصاف ہونا نہیں بلکہ انصاف ہوتے ہوئے نظر آنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں اگر فُل کورٹ بیٹھ کر اس معاملے کا فیصلہ نہیں کرے گا تو اس صورت میں انصاف تو شاید ہو لیکن انصاف ہوتا ہوا نظر نہیں آئے گا اور قوم کو اگر اس مرحلے پر انصاف ہوتا نظر نہیں آیا تو ملک میں افراتفری پھیلے گی۔

اس معاملے پر فل کورٹ بننا مشکل ہے، اسد رحیم

پنجاب، خیبرپختونخوا انتخابات التوا کیس میں جسٹس جمال خان مندوخیل کے بینچ سے علیحدہ ہونے کے بعد پیش آنے والی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے ماہرِ قانون اسد رحیم نے کہا کہ درخواست گزار کی مرضی کے مطابق بینچ نہیں بنتا لیکن اگر کسی اہم آئینی سوال کا معاملہ ہو جس پر اس سے قبل کوئی فیصلہ موجود نہ ہو تو اس صورت میں فل کورٹ کی بات کی جاسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہاں اس طرح کی کوئی صورتحال نہیں ہے، ایک بنیادی سوال ہے جس کا جواب آچکا ہے، 90 روز میں انتخابات ہونے چاہیے اور اس کا اختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہیں۔

اسد رحیم نے مزید کہا کہ فل کورٹ کی بات جان بوجھ کر بار بار چھیڑی جاتی ہے اس کی کوئی خاص قانونی حیثیت نہیں ہے، بینچ سے علیحدہ ہونا جج کی صوابدید ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر فل کورٹ بنانا اس لیے مزید مشکل ہے کہ 6 ججز پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اس پر ازخود نوٹس نہیں بنتا یا رولز کی تشکیل تک سماعت مؤخر ہونی چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں