بلاول بھٹو شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس میں شرکت کیلئے آج بھارت روانہ ہوں گے

جولائی 2011 کے بعد یہ پاکستان کے کسی وزیر خارجہ کا پہلا دورہ بھارت ہے—فائل فوٹو: فیس بک
جولائی 2011 کے بعد یہ پاکستان کے کسی وزیر خارجہ کا پہلا دورہ بھارت ہے—فائل فوٹو: فیس بک

وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری آج شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے وزرائے خارجہ اجلاس میں شرکت کے لیے بھارت کے شہر گووا روانہ ہوں گے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی طرز سیاست اور اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کے حوالے سے بلاول بھٹو کے بیانات کے تناظر میں ان کے اس دورے کے حوالے سے بھارت میں ملے جلے جذبات دیکھنے میں آرہے ہیں۔

آخری بار جولائی 2011 میں اس وقت کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے امن مذاکرات کے لیے بھارت کا دورہ کیا تھا، اس کے بعد یہ پاکستان کے کسی وزیر خارجہ کا پہلا دورہ بھارت ہے۔

دفتر خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ اجلاس میں ہماری شرکت شنگھائی تعاون تنظیم کے چارٹر اور امور کے ساتھ پاکستان کی پاسداری اور اس اہمیت کی عکاسی کرتی ہے جو اس خظے کے حوالے سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں شامل ہے۔

بلاول بھٹو زرداری کا یہ دورہ ایسے وقت میں ہورہا ہے جب جوہری ہتھیاروں سے لیس دونوں روایتی حریفوں کے درمیان تعلقات کئی عوامل کے باعث تنزلی کا شکار ہیں۔

پاکستان نے پہلے ہی واضح کر دیا ہے کہ وزیر خارجہ اس دورے کے دوران اپنے بھارتی ہم منصب کے ساتھ کوئی بالمشافہ ملاقات نہیں کریں گے۔

بلاول بھٹو زرداری نے اپنے اس دورے کے حوالے سے قیاس آرائیوں کو بھی مسترد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اس دورے کو دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان بہتر تعلقات کی علامت کے طور پر تعبیر نہیں کیا جانا چاہیے۔

وزیرخارجہ نے واضح کیا کہ انہوں نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کی کوئی درخواست نہیں کی ہے، اس دورے کو شنگھائی تعاون تنظیم کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے جو 8 رکنی سیاسی اور سیکیورٹی بلاک ہے جس میں روس اور چین بھی شامل ہیں، پاکستان خود کو مزید تنہا کرنے کی اجازت بھارت کو ہر گز نہیں دے سکتا۔

وزرائے خارجہ کے اجلاس میں اہم علاقائی اور بین الاقوامی امور پر غور اور کچھ ادارہ جاتی دستاویزات پر دستخط کرنے کے علاوہ رواں برس 3 اور 4 جولائی کو نئی دہلی میں منعقد ہونے والی 17ویں ایس سی او کونسل آف ہیڈز آف اسٹیٹ اجلاس کے ایجنڈے اور فیصلوں کو حتمی شکل دی جائے گی۔

اجلاس کے موقع پر وزیر خارجہ کی دوست ممالک کے ہم منصبوں سے ملاقات بھی متوقع ہے۔

بھارت نے دیگر وسطی ایشیائی ممالک کے علاوہ چین اور روس کے وزرائے خارجہ کو بھی دعوت نامے بھیجے ہیں، ایران شنگھائی تعاون تنظیم کا سب سے نیا رکن ہے اور وہ پہلی بار شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں باضابطہ رکن کے طور پر شرکت کرے گا۔

بھارتی مبصرین کی نظر میں بلاول بھٹو کا دورہ بھارت

اس اجلاس میں چین اور روس کے وزرائے خارجہ سمیت دیگر رکن ممالک شریک ہوں گے، اس تناظر میں اس اجلاس کے دوران عالمی صورتحال کا جائزہ لیا جاسکتا ہے جوکہ یوکرین جنگ کے سبب قابو سے باہر ہوتی جارہی ہے، تاہم اس اجلاس میں بھارت اور پاکستان کے پاس عالمی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا ایک منفرد موقع ہے۔

قیام امن کے لیے سرگرم سماجی کارکن سدھیندرا کلکرنی لکھتی ہیں کہ ’مذاکرات اس وقت بھی جاری رہنا چاہیے جب پڑوسی ممالک کے درمیان اچھے تعلقات نہ ہوں، مذاکرات کا متبادل محض جنگیں ہوتی ہیں اور جنگوں کے شاذ و نادر ہی مثبت نتائج برآمد ہوتے ہیں‘۔

بھارتی خبررساں ادارے ’این ڈی ٹی وی‘ کے لیے لکھے گئے ایک آرٹیکل میں انہوں نے کہا کہ ’لیکن اگر آپ کو لگتا ہے کہ اس سے بھارت اور پاکستان کے درمیان طویل عرصے سے تعطل کا شکار بات چیت کا سلسلہ بحال ہوجائے تو آپ کو مایوسی ہو گی۔

بھارتی خبررساں ادارے ’انڈیا ٹوڈے‘ میں شائع ایک تجزیے میں اس بارے میں روشنی ڈالی گئی کہ بھارتی اور پاکستانی حکومتوں کے رویے اس قدر غیر لچکدار کیوں ہو گئے ہیں کہ نایاب مواقع سے فائدہ اٹھانے کی بھی کوئی گنجائش نہیں نکل پاتی؟

اس تجزیے میں وی سدرشن نے لکھا کہ ’کرناٹک کے انتخابات سے 5 روز قبل بلاول کی گوا آمد دونوں ممالک کے درمیان کسی دو طرفہ پیش رفت کی امیدوں کو سہارا نہیں دیتی‘۔

بلاول بھٹو زرداری کا یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جب پاکستان اپنی اس مؤقف پر سختی سے قائم ہے کہ جب تک مقبوضہ کمشیر میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کا فیصلہ واپس نہیں لیا جاتا اس وقت تک بھارت کے ساتھ کوئی سنجیدہ تعلقات قائم نہیں ہو سکتے۔

وی سدرشن نے کہا کہ ’اگر بلاول اب بھی گوا آتے ہیں تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ حقیقی سیاست نے ایک بار پھر ظاہری بیان بازی پر فتح حاصل کرلی ہے‘۔

تبصرے (0) بند ہیں