پاکستان میں بننے والی فلموں کو روایتی طور پر عید الفطر اور عید الاضحیٰ پر ریلیز کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس عید الاضحیٰ پر بھی کچھ پاکستانی فلمیں سینما اسکرینز کی زینت بنیں۔ ان فلموں میں شامل دو قدرے مختلف النوع فلموں ’اللہ یار اینڈ دی ہنڈرڈ فلاورز آف گاڈ‘ اور ’تیری میری کہانیاں‘ پر تبصرہ قارئین کے لیے پیش کیا جارہا ہے۔


اللہ یار اینڈ دی ہنڈرڈ فلاورز آف گاڈ


اللہ یار اینڈ دی ہنڈرڈ فلاورز آف گاڈ پاکستان کی پہلی اینی میٹڈ فیچر فلم ہے جو اسٹریو اسکوپک تھری ڈی فلم ہے۔ اسے کمپیوٹرگرافکس کی دنیا میں استعمال ہونے والے ایک اسٹوڈیو گیمنگ سافٹ ویئر ’انرئیل انجن‘ کے ذریعے ایک پاکستانی فلم ساز نے تخلیق کیا ہے اور یہ اینی میشن فلم سازی کی دنیا میں پہلا کامیاب تجربہ ہے۔ اس کی وجہ سے پاکستان کی دنیا بھرمیں شہرت ہوئی ہے۔

اس فلم کے خالق اور’تھرڈ ورلڈ اسٹوڈیو’ کے روح رواں عزیر ظہیر خان ہیں۔ ان کی تخلیق کردہ فلم پاکستان سمیت دنیا بھر میں عید الاضحیٰ کے موقع پر ریلیز ہوگئی ہے اور امید ہے کہ یہ باکس آفس پر اپنی گزشتہ فلم کی طرح کامیابی کے نئے ریکارڈ قائم کرے گی۔

فلم سازی

پاکستان میں اینی میٹڈ فلموں کی ابتدا کا سال 2007ء ہے۔ اب تک 35 سے 40 فلمیں انگریزی اور اردو میں بنائی جاچکی ہیں جن میں سے چند ایک فلموں کو بہت شہرت ملی۔ ان میں سے ایک ’اللہ یاراینڈ دی لیجنڈ آف مارخور‘ ہے۔ اسی فلم کا سیکوئل اس عید پر ریلیز ہوا ہے۔ ان دونوں فلموں کے فلم ساز،کہانی نویس اور ہدایت کار عزیر ظہیر خان ہیں جنہوں نے اینی میٹڈ فلموں کے کیرئیر کا آغاز ’برقعہ ایوینجر‘ نامی ٹی وی سیریز بناکر کیا تھا۔ مذکورہ فلم کی دنیا بھر میں شہرت اس لیے ہورہی ہے کہ اس فلم کو بنانے کے لیے ایک گیم بنانے والے سافٹ ویئر کا استعمال کیاگیا ہے جس کی وجہ سے اس فلم کے مالی اخراجات میں خاصی کمی آگئی۔ اس کامیاب تجربے کا کریڈٹ بھی عزیر ظہیر خان کو جاتا ہے جن کی شہرت اب دنیا بھر میں پہنچ چکی ہے اور پاکستان سمیت دیگر ممالک میں اب فلموں کو اس فارمیٹ کے تحت بنایاجارہاہے۔

عزیر ظہیر خان بنیادی طورپر کمپیوٹر گرافکس آرٹسٹ ہیں جو یہ چاہتے تھے کہ پاکستان میں ایسی اینی میٹڈ فلمیں بنیں جن کے کردار بھی پاکستانی ہوں اور قومی زبان میں یہ فلمیں تخلیق کی جائیں۔ ان فلموں کے ذریعے بچوں میں معاشرتی آگاہی دی جائے۔ اسی مقصد کے تحت انہوں نے اللہ یار فلم سیریز کو تخلیق کیا جس میں جانوروں کے غیر قانونی شکار اور ماحولیاتی تبدیلیوں کےتحت دو فلمیں بنائی گئیں اور یہ دوسری فلم ان دنوں زیر نمائش ہے۔ بچوں کی ایک بڑی تعداد انہیں شوق سے دیکھ رہی ہے۔کیونکہ میرے اپنے بچوں کو اس فلم کا انتظار تھا اور میں نے ان کے ساتھ سینما ہال میں جب یہ فلم دیکھی تو وہاں درجنوں بچے اپنے والدین کےساتھ اس فلم کو دیکھنے کے لیے پرجوش تھے۔

کہانی/اسکرین پلے/مرکزی خیال

اس فلم کا اسکرین پلے بھی عزیر ظہیر خان نے لکھا ہے جس میں انہوں نے دکھایا کہ کس طرح ایک دن اللہ یار کو پتا چلتا ہے کہ جنگلات میں سے بہت سارے درخت کاٹے جارہے ہیں اوران کے پیچھے ایک دوسری مخلوق کاہاتھ ہے اور وہ روبوٹس ہیں جو دوسری دنیا سے آتے ہیں۔ اس معاملے کے پس منظر میں، وہ اپنے والد کو کھو بیٹھتا ہے اور ان کو تلاش کرنے کی غرض سے کسی طرح کچھ اچھے اور نیک روبوٹس کی مدد سے اُس دنیا میں جاپہنچتاہے۔ پھر کسی طرح اپنی بقا کی جنگ لڑتے ہوئے وہ اپنے والد کو واپس اپنی دنیا میں لاتا ہے۔

اس مرکزی خیال کے اردگرد بُنے گئے کہانی کے تانے بانے دیکھنے والوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیں گے۔ شاندار کہانی، بہترین کردارنویسی، عمدہ مکالمے، زبان و بیان کا بامحاورہ اور درست استعمال، اچھی اور شستہ اردو کے ساتھ ساتھ بہترین صوتی اداکاری اور ہدایت کاری نے فلم کوچارچاند لگادیے۔

فلم ساز عزیر ظہیر خان کا خیال ہے کہ تصویر اور اینی میشن کے ذریعے بچوں کی تربیت کا وہ کام لیا جاسکتاہے جو درحقیقت نصاب کرتا ہے مگر ہمارے ہاں نصاب وہ ضرورتیں پوری نہیں کرپارہا ہے، اس لیے اس میڈیم کے ذریعے ہم اپنے بچوں کو بہترین تعلیم وتربیت دے سکتے ہیں اور اس کے لیے وہ ’ٹیڈ ایکس‘ میں گفتگو کرتے ہوئے اپنے بچے کی مثال دیتے ہیں۔ اس فلم کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی بات درست ہے، بچے کیا بڑے فلم بین بھی اس طرح کی فلموں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔

   عزیر ظہیر خان
عزیر ظہیر خان

ہدایت کاری/اداکاری

کینیڈا سے فلم سازی میں اعلیٰ تعلیم یافتہ عزیر ظہیر نے اس فلم کی ہدایت کاری میں اپنے کمپیوٹر گرافکس کے کیرئیر کا بخوبی استعمال کیا ہے۔ انہوں نے پوری فلم میں کہیں بھی اپنی گرفت کمزور نہیں ہونے دی۔ فلم کی کہانی،گرافکس، اینی میشن، مناظر، الفاظ اور تاثرات سے لے کر مختلف نظریات کو بہترین طریقے سے برتا ہے۔ انسانوں اور مشینوں کے تعلق کو بہترین طریقے سے مربوط اور جامع دکھایا ہے۔گرافکس اور اینی میشن کا معیار کسی بھی طور سے عالمی سینما میں بننے والی فکشن فلموں سے کم نہیں ہے، یہ بحیثیت پاکستانی ہم سب کے لیے بے حد خوشی کی بات ہے۔ انہوں نے علی ظفر، بشریٰ انصاری، ہمایوں سعید، اقرا عزیز، اظفر جعفری اور انعم زیدی کی آوازوں کو اس قدر مہارت سے استعمال کیا ہے گویا کردار حقیقت پر مبنی محسوس ہونے لگے۔ سب اداکاروں نے اپنے کام سے بخوبی انصاف کیا ہے۔

فلم میں کام کرنے والے اداکار
فلم میں کام کرنے والے اداکار

موسیقی

اس فلم کی پس منظر کی موسیقی تو شاندار ہے ہی مگر اس فلم کا ساؤنڈ ٹریک کسی بھی طرح ایک نارمل اور عمدہ فیچر فلم کے نغمے سے کم نہیں ہے۔ صنم ماروی کی آواز میں ریکارڈ کیے گئے اس گیت نے گویا پوری فلم کی کہانی اور تاثرات کو یکجا کردیا۔اس گیت کے موسیقار احمد علی ہیں اور عاطف ریحان صدیقی نے دل میں اترجانے والی یہ شاعری لکھی ہے۔ پاکستان کی اس انداز کی اینی میٹڈ فلم نے ثابت کیا ہے کہ اس میڈیم میں بنی فلمیں بھی مکمل طور پر عام فیچر فلموں کی مانند ہوسکتی ہیں، اگر کوئی فلم ساز انہیں بنانے کی اہلیت رکھتا ہو، عزیز ظہیر خان نے فلم کے ان تمام پہلووں کا احاطہ کیا ہے۔اسی فلم میں دو اور گیت موسیقی کی فلم میں زوردار شراکت کو مزید بڑھادیتے ہیں۔ ان میں ایک گیت راک اور پاپ انداز میں گایا گیا گیت ہے جس میں فلم کے مرکزی کردار اللہ یار کو زندگی کی گہما گہمی میں مگن دکھایا گیا ہے جبکہ دوسرا گیت روبوٹس کی دنیا کا ہے۔ اس گیت میں ستار کی بندش اور آمیزش نے فلم کی موسیقی کو بام عروج پر پہنچادیا۔

حرف آخر

پاکستان کے اس نامور فلم ساز عزیر ظہیر خان سے امید ہے کہ یہ مستقبل میں اینی میٹڈ فلموں کا ایک نیاجہان تخلیق کریں گے۔ ہرچند کہ پاکستان میں اس حوالے سے چند ایک فلم سازوں کا نام لیاجاتا ہے جن میں سے ایک آسکر ایوارڈ یافتہ فلم ساز شرمین عبید چنائے بھی ہیں لیکن عزیر ظہیر خان نے اپنے کام سے ثابت کردیا ہے کہ وہ پاکستان کے سب سے ممتاز ترین فلم ساز ہیں جو اینی میٹڈ فلموں کے ذریعے بھی آپ کے دل کی دھڑکنیں تیز کرسکتے ہیں۔ یقین نہ آئے تویہ فلم دیکھیے، آپ کے اندر کا بچہ مچل نہ جائے تو کہیے گا۔


تیری میری کہانیاں


پاکستان میں کئی برسوں سے یہ تو دیکھنے میں آتا ہے کہ خاص مواقع پر ایک ساتھ بہت ساری فلمیں نمائش کے لیے پیش کی جاتی ہیں مگر ایک ہی فلم میں تین فلمیں پیش کرنے کا خیال مختلف ہے۔ تاہم یہ خیال نیا نہیں ہے۔ دنیا بھر میں اس طرح کا سینما تخلیق ہوتا ہے البتہ پاکستان میں یہ کوشش نئی ہے۔ اس کے پیچھے دو مقاصد کارفرما نظر آتے ہیں، ایک تو یہ کہ فلم بین کو اپنی طرف بھرپور طور سے متوجہ کیا جائے تاکہ وہ ’تھری اِن ون‘ کے لالچ میں سینما تک کھنچا چلا آئے اور دوسرا یہ کہ بجٹ کا بوجھ یکساں طور پر مشترکہ فلم سازوں میں تقسیم ہوجائے۔ تو اس عید پر ایسی ہی ایک فلم انتھولوجی کے تحت فلم ’تیری میری کہانیاں‘ پیش کی گئی۔

مذکورہ فلم کانام ’تیری میری کہانیاں‘ کا عنوان بھی مجھے درست معلوم نہیں ہوا کیونکہ ادبی اور لسانی اصولوں کے مطابق جب کردار انفرادی ہوں تو صیغہ بھی انفرادی استعمال ہوتا ہے یعنی دو افراد کی کہانی یا کہانیوں کے لیے بطور عنوان ’تیری میری کہانی‘ درست اصطلاح ہوگی جبکہ دو سے زائد افراد اور کہانیوں کے نے لیے تو درست اصطلاح ’ہماری تمہاری کہانیاں‘ ہوگی۔ مگر یہ تو ادبی زاویہ ہے، ہمارے آج کے فلم سازوں کو اردو پڑھنے سے کیا علاقہ؟ یہ تو اپنی فلموں کے اسکرپٹس بھی رومن میں لکھتے ہیں، اپنی فلم کے پوسٹر تک اردو میں نہیں لکھ سکتے توپھر کون سی اردو اور کہاں کاادب۔ ان کہانیوں میں سے ایک کہانی میں ہیروئن کے ہاتھ میں ناول دکھانے کی ضرورت آن پڑی تو ڈیڑھ سو برس کی تاریخ رکھنے والے اردو ناول میں سے ان کو کوئی ناول نہیں ملا۔ اردو میں بیان ہونے والی ایک کہانی میں ترکی ناول کے انگریزی ترجمے کاسہارا لیا گیا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں اس ترکی ناول کا اردو ترجمہ بھی ہوچکا ہے اور خاصا مقبول ہے لیکن زبان اور ادب ہمارے فلم نگاروں اور ڈراما نویسوں کا اب مسئلہ نہیں ہے۔

فلم کا پوسٹر
فلم کا پوسٹر

فلم کی پہلی کہانی۔۔۔ جن محل

اس فلم میں کہانیوں کو پیش کیے جانے کی ترتیب کے مطابق یہ پہلی کہانی۔ اس فلم کے آدھے دورانیے پر مشتمل سب سے طویل کہانی کے کہانی نویس علی عباس نقوی اور باسط نقوی ہیں۔ ’جن محل‘ کے عنوان سے پیش کی جانے والی کہانی کاموضوع ’ہاررکامیڈی‘ یعنی ڈر پر مبنی مزاح کی صورتحال ہے جس میں کہانی کی بنت کی گئی ہے۔ فلم کا یہ پہلا حصہ اسکرپٹ کے لحاظ سے مستند ہے اور فلم سازی بھی معیاری ہے۔ اس کو دیکھتے ہوئے فلم بینوں نے لطف لیا۔ نبیل قریشی اس فلم کے ہدایت کار ہیں۔ اداکاری میں حرا، مانی اور گل رعنا سمیت بچہ پارٹی نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ شاید اس فلم کا یہی حصہ متاثر کن ہے جس کا پس منظر کراچی شہر،کورونا اور لاک ڈاؤن کے تاریک پہلو پر مبنی معاشی تنگ دستی کو المیے اور مزاح کے رنگوں میں متوازن طور سے پیش کیا گیا ہے۔ یہ حصہ فلم کے انٹرویل پر اختتام پذیر ہوتاہے۔

فلم کی دوسری کہانی۔۔۔ پسوڑی

یہ اس فلم کی دوسری کہانی ہے جس کے کہانی نویس واسع چوہدری ہیں۔ اس فلم کی کہانی ایک گھسی پٹی بوسیدہ انداز کی کہانی ہے جس میں کچھ نیا نہیں ہے۔ اس پر ستم یہ کہ اس حصے کو فلمانے کے لیے بطور ہدایت کارہ مرینہ خان موجود ہیں جن کا ڈرامے کا مضبوط پس منظر ہے لیکن فلم کے نام پر ڈراما پیش کرنے کی ان کی جرات رندانہ کی داد نہ دینا سراسر ناانصافی ہوگی۔ رہی سہی کسر بابر علی اورشہریار منور کی اوور ایکٹنگ نے پوری کردی۔

فلم کی ہیروئن رمشا خان نے تو تکلف ہی نہیں کیا کہ وہ فلم اور ڈرامے کے فرق کو محسوس کرسکیں۔ فلم کے اس حصے میں خود مرینہ خان بھی مہمان اداکارہ کے طور پر جلوہ گر ہوئیں اور اس بوجھل کہانی کو مزید شکستہ کردیا۔ اس حصے سے اگر کسی نے بہت شاندار اور متاثر کن اداکاری کی ہے تو وہ لیلیٰ واسطی ہیں باقی فلم کے نام ڈراما پیش کرنے کا یہ تجربہ بھیانک رہا۔عورت کارڈ، جابر باپ، اندھی محبت، منہ زور جذبات، سطحی رشتے اور بہت کچھ فلم کے اس حصے میں آپ کو ملے گا۔ فلم کے اس حصے کی سب سے مضبوط چیز موسیقی تھی، دوگانے تھے، دونوں اچھے رہے، یہ شجاع حیدر کی تخلیق ہیں۔ امید ہے مستقبل میں مرینہ خان فلم بینوں کو فلم کے نام پر ڈراما دکھانے کا دھوکہ نہیں دیں گی۔

فلم کی تیسری کہانی۔۔۔ ایک سو تئیسواں

فلم کے اس تیسرے اور آخری حصے کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ عوام میں مقبول (مقبولیت کی وجہ بھلے کچھ بھی ہو) بہت سارے عناصر کو یکجا کردیا گیا۔ سب سے پہلے مصنف خاصے مقبول ہیں، ان کانام خلیل الرحمٰن قمر ہے، انہوں نے یہ کہانی لکھی، ہمیشہ کی طرح لفاظی زیادہ معنویت کم، اس کہانی میں تو اردو زبان کی بھی کئی باریک غلطیاں دکھائی دیں جیسے کہ کہانی کاعنوان ٹرین کے شیشے پر لکھا دکھائی دیتا ہے مگر ہجے غلط تھے۔ اسی طرح مکالموں میں بھی کچھ غلطیاں تھیں۔ متعدد تکنیکی غلطیاں بھی دکھائی دیں جبکہ ٹریلر میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اوریجنل اسکرپٹ کا پہلا صفحہ دکھایا گیا ہے جس پر یہ نام درست لکھاہوا ہے مگر ڈائریکٹر نے اسے غلط فلمایا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ممکنہ طور پر زبان وبیان کی دیگر غلطیاں بھی ڈائریکٹر کی غفلت ہوگی۔

اس کہانی میں جس شدومد سے مصنف نے عورت کے حق میں لکھاہے اس کے بعد ایک طبقہ فکر کو ان سے جو شکایت رہتی ہے وہ اب نہیں ہونی چاہیے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ بہت باریک کام کرگئے اور عورت کے لیے عورت کی زبانی ایسے القابات کہلوائے اور مرد کی مجبوری کو ذلت کی ٹوکری میں رکھ کر جو سماں باندھا اس کے کیا کہنے۔ ایک بیوی اور محبوبہ (جس میں سے محبوبہ کو طوائف بھی ثابت کردیا، ہوسکتا ہے کہ طوائف محبوبہ ہوگئی ہو۔ اس کی وضاحت نہیں ملی کہانی میں) ان کے مابین اور پس منظر میں ہونے والے مکالموں کی برہنگی قابل داد ہے اور سنسر بورڈ والوں کے لیے بھی ستائش ہے جنہوں نے یہ جنسی کثافت پر مبنی بیانیہ جانے دیا۔

فلم کے اس حصے کے ہدایت کار ندیم بیگ ہیں جو کبھی ڈرامے کے فریم سے باہر نہیں نکلے۔ اب ایسی فلموں کے دیکھنے والے جب تک ہیں وہ یہ فلمیں بناتے رہیں گے۔ ان کی مشہور ہیروئن مقبول ہیرو کا فارمولا سرچڑھ کر فلم میں دکھائی دیا۔ اس فلم کی ہیروئن کے ہاتھ میں پکڑے ترکی ناول کے انگریزی نسخے کی نمائش کے سامنے، اردو ناول کی ڈیڑھ سو برس کی تاریخ شکوہ کناں محسوس ہوئی۔ اپنے کلچر اور مقامی ثقافت کے فروغ کی بات نہ جانے کہا گئی۔ یہ الگ بات ہے کہ پوری کہانی میں واضح ہی نہیں ہوسکا کہ اس کردار کی اپنی زبان بھی انگریزی تھی یا اردو۔ اب اتنی بڑی اور اسٹار کاسٹ کی اوورایکٹنگ پر بات کرنا تو بہت بری بات ہوجائے گی کیونکہ اگر ہم نے یہ کہہ دیا کہ انڈین فلم دل والے دلہنیا لے جائیں گے کا ٹرین چھوٹنے اور پکڑنے کاسین بھی اس فلمی حصے کا شاید واحد کلائمکس تھا تو پھر آپ کی حیرت مزید بڑھ جائے گی اس لیے یہیں تک رہنے دیتے ہیں۔ شجاع حیدر کی موسیقی اور گائیکی قابل تعریف ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں