عرب ممالک شام پر حملے کا خرچ اُٹھانے پر آمادہ، کیری
واشنگٹن : بدھ کے روز امریکی وزیرِ خارجہ نے امریکی قانون سازوں کو بتایا کہ کئی عرب ممالک نے شام پر حملے کے خرچ میں مدد کی پیشکش کی ہے۔
' جہاں تک عرب ممالک کی جانب سے خرچ برداشت کرنے اور مدد کی بات ہے تو جواب بالکل ' ہاں ' میں ہے۔ انہوں نے باضابطہ انداز میں یہ پیشکش کی ہے،' کیری نے ایوان نمائندگان کے ایک پینل کے سامنے یہ بات کہی۔
ان کی آفر' بہت اہم' ہے، انہوں نے کہا۔
' ان میں سے بعض ( ملکوں) نے یہ کہا ہے کہ جس طرح ماضی میں امریکہ یہ کرتا رہا ہے اور اگر امریکہ یہ سب دوبارہ کرنے کو تیار ہے تو وہ اس کا خرچ برداشت کرسکتے ہیں۔ ' کیری نے کہا۔
لیکن انہوں نے یہ کہا ،' یہ منصوبے کا حصہ نہیں اور کوئی اس پر بات نہیں کررہا، لیکن وہ ( ممالک) یہ کام انجام دینے میں بہت سنجیدہ ہیں،' وزیرِ خارجہ نے کہا۔
انہوں نے یہ بات کپٹل ہل میں ایوان کی خارجہ امور کمیٹی کے سامنے کہی جہاں وہ شام پر محدود فوجی حملے کی منظوری کیلئے قانون سازوں کو راضی کرنے کی کوشش کررہے تھے۔
واشنگٹن بار بار یہ الزام لگاتا رہا ہے کہ گزشتہ ماہ اکیس اگست کو شام نے سارین گیس کا حملہ کیا تھا جس سے دمشق کے نواح میں کم از کم 1,400 افراد مارے گئے تھے تاہم دیگر ذرائع ہلاکتوں کی تعداد اس سے کم بتاتے رہے ہیں۔
صدر براک اوبامہ کا اصرار ہے کہ شام میں بشارالاسد کی حکومت نے خوفناک ہتھیار استعمال کرکے سرخ لائن کو عبور کیا ہے اور انہیں اس کی سزا ملنی چاہئے اور اس کی فوجی صلاحیت کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
لیکن امریکہ میں شام پر ممکنہ فوجی حملے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ احتجاجی مظاہرین نے کیری کی تقریر کے دوران ان کے پیچھے احتجاجی بینر اور سرخ رنگ میں رنگے ہاتھ لہرا کر خاموش احتجاج کیا۔
قانون سازاب ایک ڈرافٹ پر کام کررہے ہیں جو کانگریش میں بھیجا جائے گا۔ جس میں فوجی کارروائی کی ساٹھ روز کی ڈیڈ لائن دی جائے گی اور سے مزید تیس دن کیلئے بڑھایا بھی جاسکے گا۔
کیری نے اشارہ دیا کہ وقت کی ڈیڈلائن قابلِ قبول ہوگی لیکن اگر اسد نے دوبارہ کیمیائی ہتھیار استعمال کئے تو ' ٹریگر موجود' ہے۔
دوسری جانب امریکی صدر براک اوبامہ نے کہا ہے کہ شام کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے بعد سرخ لائن خود ان کی وضع کردہ نہیں بلکہ یہ کانگریس کی جانب سے گزشتہ قراردادوں اور خود عالمی برادری کی بنائی ہوئی ہے۔
فرانس سرکاری طور پر شام پر حملے کے حق میں ہےتاہم برطانیہ نے خود کو اس جنگ میں شامل نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔