لکھاری صحافی اور مصنف ہیں۔
لکھاری صحافی اور مصنف ہیں۔

تعجب کی بات ہے کہ صدر عارف علوی نے آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ ترمیمی بلوں کی منظوری دیے جانے کی تردید کے لیے ایکس (ٹوئٹر) کا سہارا لیا۔ اس کے نتیجے میں ملک ایک اور آئینی بحران کا شکار ہوگیا ہے۔

مذکورہ دونوں بلوں کو رواں ماہ پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا اور صدر کی جانب سے ان کی منظوری تصور کیے جانے کے بعد یہ نافذ بھی ہوچکے ہیں۔ لیکن ان کے نفاذ کے نوٹیفکیشن کے دو روز بعد کی جانے والی ٹوئٹ سے ایک نیا پنڈورا باکس کھل گیا ہے۔

اگرچہ تاخیر سے اور سوشل میڈیا کے ذریعے کی جانے والی تردید ناقابل فہم ہے اس کے باوجود اس تردید نے ان ایکٹس پر سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے۔ اس پورے واقعے نے ملک کے طاقت کے ڈھانچے کے اندر موجود دراڑیں مزید وسیع کر دی ہیں اور موجودہ افراتفری کو بڑھا دیا ہے۔ صدر کے بیان نے بیوروکریسی پر خلاف ضابطہ کام کا الزام لگاتے ہوئے معاملے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔

اس نے صدر کی اپنی مشکلات کو بھی عیاں کردیا ہے۔ وہ شدت کے ساتھ اپنی کرسی کا دفاع کررہے ہیں۔ ان کی مدتِ صدارت مکمل ہونے میں چند ہی دن رہ گئے ہیں اور اس دوران ان کے استعفے کے مطالبات نے یقیناً ان پر دباؤ ڈالا ہے۔ اس دوران نافذ ہونے والے مذکورہ قوانین پر شروع ہونے والی بحث نے بھی موجودہ سیاسی کشمکش کو ایک نئے موڑ پر لاکھڑا کیا ہے۔ امکان یہی ہے کہ اب معاملہ عدالت عظمیٰ میں جائے گا۔

اس قانونی جنگ کا کوئی بھی نتیجہ نکلے لیکن سیکیورٹی ایجنسیوں کو غیر معمولی اختیارات دینے والے ان ایکٹس کے گرد جو تنازع کھڑا ہوگیا ہے وہ فوری ختم ہوتا تو نظر نہیں آتا۔ قومی اسمبلی کی تحلیل سے چند دن قبل تمام تر مخالفت کو نظر انداز کرتے ہوئے جس طرح ان دو بلوں کو پارلیمان سے منظور کروایا گیا ہے اس سے ان بلوں کے پیچھے موجود نیت پر سوالات کھڑے ہوگئے ہیں۔

یہ بات واضح ہے کہ سابق حکمران اتحاد نے جان بوجھ کر یہ بلز منظور کیے جن سے سیکیورٹی ایجنسیوں کو غیر معمولی اختیارات ملتے ہیں اور شہری حقوق مجروح ہوتے ہیں۔ ان قوانین کی قانونی حیثیت سے متعلق جو تازہ تنازعہ پیدا ہوا ہے اس سے سیکیورٹی اداروں کے اختیارات میں اضافہ کرنے کی سیاسی قیمت پر بھی سوالات کھڑے ہورہے ہیں۔

پی ڈی ایم اتحاد نے جس شرمناک انداز میں سر تسلیم خم کیا ہے اس کے جمہوری عمل پر طویل مدتی اثرات ہوں گے۔ یہ سخت قوانین جو آج اس کے سیاسی مخالفین کے لیے استعمال ہورہے ہیں کل کو خود پی ڈی ایم کے خلاف بھی استعمال ہوسکتے ہیں۔ یہ تاریخ کا وہ سبق ہے جسے ہمارے سیاستدان قلیل مدتی سیاسی مفادات کے لیے باآسانی بھلا دیتے ہیں۔

بلوں کی منظوری کے حوالے سے پیدا ہونے والے حالیہ تنازعے کے بعد پی ڈی ایم جماعتیں ان کالے قوانین کا دفاع کررہی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اب پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اسٹیبلشمنٹ کے کنٹرول کو مزید مضبوط کرنے والے قوانین کے سب سے بڑے حمایتی بن رہے ہیں جبکہ ماضی میں جب وہ اپوزیشن میں تھے تو سویلین بالادستی کی باتیں کرتے تھے۔

ان دونوں قوانین کی قانونی حیثیت کے حوالے سے بحث جاری ہے لیکن حکام نے سائفر کے کیس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں پر مقدمات کے لیے ترمیم شدہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت خصوصی عدالت قائم کردی ہے۔ ملزمان میں سابق وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی شامل ہیں۔ امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں اور حامیوں کو آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

ہم اس وقت جس کریک ڈاؤن کو دیکھ رہے ہیں وہ شاید حالیہ وقتوں میں کسی بھی سیاسی جماعت کے خلاف ہونے والا سخت ترین کریک ڈاؤن ہے۔ پی ٹی آئی کے سیکڑوں حامی بغیر کسی مقدمے کے جیلوں میں ہیں، ان میں سے کئی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان پر عائد الزامات جھوٹے ہیں۔ پی ٹی آئی کی کچھ خواتین حامیوں کو بھی ضمانت اور عدالت میں پیش کیے بغیر تقریباً 3 ماہ سے گرفتار کیا ہوا ہے۔ یہ تمام اقدامات انصاف اور قانون کی بالادستی کا مذاق بناتے ہیں۔ حال ہی میں نافذ ہونے والے ترمیم شدہ قوانین جو سیکیورٹی اداروں کے اختیارات میں اضافہ کرتے ہیں وہ صورت حال کو مزید بگاڑ سکتے ہیں۔

یہ سب کچھ اس وقت ہورہا ہے جب ملک انتخابات کی تیاریاں کررہا ہے۔ یوں جمہوری طور پر انتقال اقتدار پر بھی شبہات پیدا ہورہے ہیں۔ سب سے زیادہ تشویش ناک بات فوج کی حمایت یافتہ اس نگران حکومت کے ہاتھوں سیاسی مخالفین پر ہونے والا کریک ڈاؤن ہے جس نگران حکومت کی غیرجانبداری پر بھی سوال موجود ہے۔ بہت شدت کے ساتھ یہ احساس پایا جاتا ہے کہ نگران حکومت دراصل سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا ہی تسلسل ہے۔

مزید یہ کہ انتخابی شیڈول کے حوالے سے موجود غیریقینی نے ان شبہات کو مزید تقویت دی ہے کہ ملک طویل مدتی نگران حکمرانی کی طرف جارہا ہے جس میں نگران حکومت کو تمام پالیسی فیصلے کرنے کا اختیار حاصل ہوگا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پی ڈی ایم کی اکثر جماعتیں اب انتخابات کو 90 روز کی آئینی مہلت کے بعد کروانے کی حمایت کررہی ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان پہلے ہی اعلان کرچکا ہے کہ آئینی طور پر مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیاں ہونی ضروری ہیں اور اس کے لیے 4 ماہ کا وقت درکار ہوگا۔ حلقہ بندیوں کے بعد انتخابات کی تیاریاں شروع ہوں گی جن کے لیے مزید 3 ماہ درکار ہوں گے۔

یہ نکتہ درست ہوسکتا ہے پھر بھی الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابات کے لیے کوئی واضح ٹائم فریم نہیں دیا گیا ہے۔ ایک نقطہ نظر یہ بھی ہے کہ حلقوں کی نئی حد بندی کی ضرورت نہیں ہے۔ اس معاملے پر سابق حکمران اتحاد میں واضح تقسیم نظر آتی ہے۔

انتخابات میں تاخیر پر مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے مبہم موقف پر بھی حیرت ہوتی ہے۔ یہ الجھن شریف خاندان کے اندر طاقت کی کشمکش اور پی ٹی آئی کے خلاف کریک ڈاؤن اور پارٹی کو ختم کرنے کی کوششوں کے باوجود پی ٹی آئی کے مضبوط چیلنج کے سامنے مسلم لیگ (ن) کے کم ہوتے انتخابی امکانات کی بھی عکاسی کرتی ہے۔ اپنے 16 ماہ کے اقتدار میں مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت اتحاد کے پاس اپنی کارکردگی اور خاص طور پر اقتصادی محاذ پر دکھانے کو کچھ زیادہ نہیں ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنے موقع پرست اتحاد کی وجہ سے بھی مسلم لیگ (ن) کو سیاسی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ انصاف اور شہری حقوق کے بنیادی اصولوں کو مجروح کرنے والے دو متنازعہ بلوں کی منظوری کے لیے اس جماعت نے جو کوششیں کیں اس نے اس جماعت کے جمہوری حوالوں کو نقصان پہنچایا۔

مسلم لیگ (ن) کی کھوئی ہوئی سیاسی بنیادوں کے دوبارہ حصول کا امکان اس کی کم نظر پالیسیوں اور تبدیلی سے ہچکچاہٹ کے باعث شبہات کی زد میں ہے۔ صدر کی طرف سے متنازعہ بلوں کی منظوری سے انکار کے بعد پیدا ہونے والے تازہ ترین اسکینڈل نے اقتدار کے موجودہ ڈھانچے میں موجود دراڑوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔

صدر کے بیان کی سچائی یا اس کی برعکس صورت حال پر بحث کرنے کی بجائے سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ ان ظالمانہ قوانین کی وجہ سے جمہوری عمل کو پہنچنے والے نقصان کو کم کرنے پر توجہ دیں۔ اس وقت جاری سیاسی ظلم و ستم حالات کو مزید خراب کرے گا۔ مشکلات سے نکلنے کا واحد راستہ مقررہ مدت میں منصفانہ اور آزادانہ انتخابات کا انعقاد ہے۔


یہ مضمون 23 اگست 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں