Dawnnews Television Logo

پاک-بھارت ٹاکرا: ’یہ میچ ورلڈ کپ پر اثرانداز ہوگا‘

ہفتے کی شام کس کے پٹاخے چلیں گے اور کس کے رکھے رہ جائیں گے یہ تو پاک-بھارت میچ کی آخری گیند ہی فیصلہ کرے گی۔
شائع 01 ستمبر 2023 03:47pm

کرکٹ کی دنیا میں جتنی اہمیت ایشز سیریز کو حاصل ہے اتنی یا شاید اس سے بھی زیادہ اہمیت پاکستان اور بھارت کے درمیان مقابلوں کی ہے۔ دونوں ممالک میں کرکٹ کے جنون اور مسابقت کی جنگ نے کرکٹ کو دنیا میں سب سے زیادہ دیکھا جانے والا کھیل بنادیا ہے۔ جس دن یہ دونوں ٹیمیں مدِمقابل آتی ہیں دنیا بھر میں 50 کروڑ سے زائد لوگوں کی نظریں اپنے ٹی وی اسکرین سے لگی ہوئی ہوتی ہیں۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان اور بھارت کے درمیان گزشتہ سال ٹی 20 میچ کے موقع پر ایک لاکھ تماشائی میلبرن گراؤنڈ میں موجود تھے اور دنیا بھر میں ٹی وی پر 60 کروڑ لوگوں نے یہ میچ دیکھا تھا۔

ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش میں مصروف دونوں ٹیموں کے درمیان باہمی تعلقات نہ ہونے کے باعث انٹرنیشنل ٹورنامنٹ میں ہونے والاہر میچ اپنی مقبولیت کے ریکارڈ توڑ دیتا ہے۔ جب دونوں ٹیمیں میدان میں اترتی ہیں تو گراؤنڈ سے لےکر سوشل میڈیا تک پر ’ادھم‘ مچ جاتی ہے۔ ہر طرف شور وغل سے میچ ایک جنگ میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ دونوں ٹیموں کے مداح اپنی ٹیم کی خوبیوں سے زیادہ حریف ٹیم کی خرابیاں گننا شروع کردیتے ہیں۔ شائقین میں وہ جوش و خروش ہوتا ہے کہ لگتا ہے کرکٹ کا میچ نہیں دو ملکوں کی جنگ ہورہی ہے۔

یہی ساری حشر سامانیاں لیے ایک بار پھر گھمسان کا رن پڑنے والا ہے۔ ہفتہ 2 ستمبر کی سہ پہر جب سورج اپنے زوال کاسفر شروع کررہا ہوگا تو سری لنکا کے شہر پالی کیلے میں یہ عروج کا وقت ہوگا۔ ایک طرف سبز رنگ میں ملبوس شاہین ہوں گے تو دوسری طرف نیلے رنگ میں بھارتی سورما ہوں گے۔ دونوں کا ہدف ایک ہی ہوگا کہ فتح کا ہما سر پر بٹھالیں۔

فتح کس کی ہوگی یہ تو شام کے گہرے ہوتے ہوئے اندھیرے ہی بتاسکیں گے لیکن اس وقت تک کرکٹ کے شائقین اعلیٰ درجے کی کرکٹ سے لطف اندوز ہوچکے ہوں گے۔

ایک طرف بابراعظم کی شاندار بلے بازی اور شاہین شاہ آفریدی کی برق رفتار باؤلنگ ہوگی جبکہ دوسری طرف ویرات کوہلی کی بیٹنگ اور بمراہ کی گھومتی ہوئی گیندیں وقت کی نبضوں کو روکنے کی کوشش کریں گی۔

16ویں ایشیا کپ میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والا میچ اس کھیل کو دیکھنے کے نئے زاویے تو مرتب کرے گا لیکن طوفان کی آمد یعنیٰ ورلڈکپ کے سب سے بڑے دنگل کی خبر بھی دے جائے گا۔ اگرچہ اس میچ کی اہمیت زیادہ سے زیادہ ایشیا کی حکمرانی کے سفر تک ہے، لیکن اس کا اثر ورلڈکپ کے معرکہ پر بھی پڑے گا۔ جو ٹیم جیت کا جشن منائے گی اسے احمدآباد کے دنگل میں نفسیاتی برتری حاصل ہوگی۔

دونوں ٹیمیں اگرچہ طویل عرصے سے زیادہ تر ٹی 20 کرکٹ کھیل رہی ہیں اور آخری ایشیا کپ بھی اسی فارمیٹ پر ہوا تھا لیکن اب مہم درپیش ہے 50 اوورز کی جو اس لیے بھی بہتر ہے کیونکہ ایشیا کپ ختم ہونے کے 4 ہفتے کے بعد ورلڈکپ شروع ہورہا ہے تو یوں دونوں روایتی حریفوں کی بھرپور تیاری ہوجائے گی۔

ایشیا کپ ٹورنامنٹ کا فارمیٹ کچھ اس قسم کا رکھا گیا ہے کہ دونوں ٹیمیں کم ازکم دو بار آمنے سامنے آئیں گی بلکہ ہوسکتا ہے تیسری بار بھی یہ مدمقابل آجائیں۔ گروپ اسٹیج میں براڈ کاسٹرز کی خواہش پر بھارت اور پاکستان ایک ہی گروپ میں ہیں جبکہ تیسری ٹیم نیپال ہے۔ گروپ میچز کے اعتبار سے شاید یہ اپنی نوعیت کا پہلا ٹورنامنٹ ہے جس میں گروپ ونر اور رنر کا فیصلہ میچ سے پہلے کرلیا گیا ہے۔ پاکستان گروپ ونر اور انڈیا رنر ہوگا۔

  نیپال کے خلاف بابراعظم اور افتخار احمد نے شاندار بلےبازی کا مظاہرہ کیا—تصویر: اے ایف پی
نیپال کے خلاف بابراعظم اور افتخار احمد نے شاندار بلےبازی کا مظاہرہ کیا—تصویر: اے ایف پی

پاک-بھارت کرکٹ ٹیموں کا جائزہ

پاکستان ٹیم کی بیٹنگ ہمیشہ کی طرح بابراعظم پر تکیہ کررہی ہے کیونکہ اوپننگ اور مڈل آرڈر ابھی تک تذبذب کا شکار ہے۔ امام الحق ایک منجھے ہوئے اوپنر بن چکے ہیں لیکن وہ بڑے میچز میں فیل ہوجاتے ہیں۔ دوسرے اوپنر کے لیے پاکستان نے فخر زمان کو چنا ہے جو گزشتہ ایک سال سے کارکردگی میں عدم تسلسل کا شکار ہیں۔ حالیہ افغانستان کے خلاف سیریز اور افتتاحی میچ میں بھی وہ سراسر ناکام رہے لیکن ٹیم منیجمنٹ کو بھی سلام ہے کہ جنہوں نے انہی کو کھلانے کی قسم کھا رکھی ہے حالانکہ عبداللہ شفیق جیسا شاندار اوپنر باہر بیٹھا تسبیح کے بس دانے ہی گن رہا ہے۔

شاید فخر زمان پر اتنا اعتماد بھارت کے خلاف ان کے اچھے ریکارڈ کی وجہ سے کیا جارہا ہے اور اسی نے ان کی جگہ کو مستحکم کررکھا ہے۔ مڈل آرڈر میں محمد رضوان کا چوتھے نمبر پر کھیلنا ابھی تک بے سود ثابت ہوا ہے لیکن کپتان کی وہی چوائس ہیں۔ سلمان علی آغا اگرچہ اپنی جگہ پر جمے ہوئے ہیں لیکن پاکستان کو مڈل آرڈر میں ایک باقاعدہ بلے باز کی سخت ضرورت ہے۔

اگر سعود شکیل کو کھلایا جاتا ہے تو یہ بہت فائدہ مند ثابت ہوگا۔ ٹیم میں افتخار احمد اور شاداب خان کو برقرار رکھا گیا ہے جبکہ محمد نواز بھی امیدوار ہیں ان کی بائیں ہاتھ کی نپی تلی باؤلنگ کارآمد ثابت ہوسکتی ہے افتخار کی جگہ وہ زیادہ بہتر اسپنر ثابت ہوں گے۔ شاہین شاہ آفریدی، نسیم شاہ اور حارث رؤف فاسٹ باؤلنگ کا شعبہ جبکہ اسامہ میر اسپن باؤلنگ سنبھالیں گے۔

  بھارت کے مقابلے میں پاکستان کا فاسٹ باؤلنگ کا شعبہ زیادہ مضبوط ہے
بھارت کے مقابلے میں پاکستان کا فاسٹ باؤلنگ کا شعبہ زیادہ مضبوط ہے

میرے نزدیک پاکستان کی آئیڈیل ٹیم امام الحق، فخر زمان، بابر اعظم، سعود شکیل، محمد رضوان سلمان علی آغا، شاداب خان، شاہین شاہ آفریدی، حارث رؤف، نسیم شاہ اور اسامہ میر ہوسکتی ہے۔ پاکستان ٹیم اپنی قوت اور تجربہ سے موزوں نظر آتی ہے اور انڈیا کو سخت جواب دے سکتی ہے۔

بھارتی ٹیم کی بات کی جائے تو ان کے کپتان روہت شرما اور شبمان گل اوپنرز ہوں گے جبکہ ویرات کوہلی ون ڈاؤن کھیلیں گے۔ مڈل آرڈر میں بھارت نے جارحانہ کھلاڑیوں کو جگہ دی ہے جس میں سوریا کمار یادیو، شریاس آئر اور روی جڈیجا شامل ہوں گے۔ راہول کی جگہ ایشان کیشان وکٹ کیپنگ کریں گے جبکہ ہارڈک پانڈیا بطور آل راؤنڈر بھارتی ٹیم کا حصہ ہوں گے۔

بھارتی ٹیم کے لیے اطمینان کی بات یہ ہے کہ جسپریت بُمراہ صحت یاب ہوکر واپس آگئے ہیں اور محمد شامی کے ساتھ مین فاسٹ باؤلر ہوں گے جبکہ اسپنر کلدیپ یادیو تو بابر اعظم کو ہمیشہ ہی تنگ کرتے رہے ہیں۔ انڈیا کی ٹیم پاکستان سے زیادہ متوازن نظر آتی ہے لیکن فاسٹ باؤلنگ کا شعبہ پاکستان کا زیادہ مضبوط ہے۔

لیکن بارش نے رنگ میں بھنگ ڈالنے کا منصوبہ بنالیا ہے۔ سری لنکا ویدر کنٹرول کے مطابق کینڈی میں ہفتہ کے روز دن بھر بارش کا خدشہ ہے۔ اب تک کے موسمی تجزیہ کے مطابق بارش کا 90 فیصد امکان ہے جو وقفے وقفے سے جاری رہ سکتی ہے۔ اگرچہ سری لنکا کے مخصوص حالات کے باعث گراؤنڈ کو جزوی طور پر ڈھانکنے کا نظام موجود ہے لیکن بارش نہ رکنے کی صورت میں میچ کا آغاز ممکن نہیں ہوگا۔

پِچ کیسی ہوگی؟

ماضی کے عظیم اسپنر مرلی دھرن کے نام سے منسوب اس گراؤنڈ کو بلے بازی کے لیے جنت کہا جاتا ہے۔ پِچ عموماً بلے بازوں کو بہت راس آتی ہے۔ اگر اوس گررہی ہو تو پِچ سورج غروب ہونے کے ساتھ سُست ہونے لگتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جو ٹیم بھی ٹاس جیتے گی وہ پہلے بیٹنگ کرنا چاہے گی۔

اگر پاکستان پہلے باؤلنگ کرتا ہے تو بہت سمجھداری سے باؤلنگ کرنا ہوگی کیونکہ دوسری بیٹنگ میں بڑے اسکور کا تعاقب کرنا آسان نہیں ہوگا۔

افغانستان کی سیریز میں جیسی وکٹیں بنائی گئیں اس کی وجہ سے پاکستانی بیٹنگ کئی دفعہ لڑکھڑا گئی تھی لیکن وہ تو شکر ہے خراب فیلڈنگ کا جس نے شاہینوں کا سر اونچا رکھا۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان اس میچ کو ورلڈکپ کی ریہرسل کہا جائے گا تو غلط نہیں ہوگا کیونکہ اس میچ کا اثر ورلڈکپ پر ضرور ہوگا۔ اس میچ اور پھر ایشیا کپ کے باقی میچوں کی ہار جیت سے ایک نفسیاتی دباؤ تخلیق ہوگا۔

  پاک بھارت میچ سے ورلڈ کپ سے قبل نفسیاتی دباؤ ہوگا—تصویر: اے ایف پی
پاک بھارت میچ سے ورلڈ کپ سے قبل نفسیاتی دباؤ ہوگا—تصویر: اے ایف پی

گزشتہ ایشیا کپ میں پاکستان نے ایک مرتبہ بھارت کوشکست دی تھی لیکن دوسرا میچ ہار گئی تھی جس سے ہار جیت کا ترازو تو متوازن ہے لیکن کرکٹ میں روایت سے زیادہ جدت کا عمل دخل ہوتا ہے۔ انگلینڈ کی ٹیم نے جس طرح کرکٹ کھیلنے کا طریقہ بدل دیا ہے اس نے دوسری ٹیموں کو بھی آمادہ کیا کہ جارحانہ طرز اپنائیں لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ اس مقابلے میں دونوں ٹیمیں محتاط انداز میں کھیلتی ہیں یا پھر دورِ جدید کی نئے انداز کی کرکٹ کا مظاہرہ کرتی ہیں۔

ہفتے کی شام کس کے پٹاخے چلیں گے اور کس کے رکھے رہ جائیں گے یہ تو میچ کی آخری گیند ہی فیصلہ کرے گی لیکن شاہینوں کے عزائم اس دفعہ خطرناک نظر آرہے ہیں۔ تو بس پھر تیار ہوجائیے ایک ایسے مقابلے کے لیے جو لمحہ لمحہ اپنا رخ بدلتا رہے گا اور بہت سی سانسیں کبھی روکے گا، کبھی رواں کردے گا۔