مسلم لیگ (ن) سابق جرنیلوں کے احتساب کے مطالبے سے پیچھے ہٹ گئی

اپ ڈیٹ 27 ستمبر 2023
مسلم لیگ (ن) بظاہر غیر واضح نظر آرہی ہے کہ آئندہ انتخابات میں اس کا بیانیہ کیا ہوگا — فائل فوٹو: ڈان نیوز
مسلم لیگ (ن) بظاہر غیر واضح نظر آرہی ہے کہ آئندہ انتخابات میں اس کا بیانیہ کیا ہوگا — فائل فوٹو: ڈان نیوز

مسلم لیگ (ن) بظاہر غیر واضح نظر آرہی ہے کہ آئندہ انتخابات میں اس کا بیانیہ کیا ہوگا، پارٹی سربراہ نواز شریف کے قریبی ساتھی نے دعویٰ کیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل فیض حمید کے احتساب کا مطالبہ نہیں کر رہی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اُن کا یہ بیان لندن سے آنے والی ان رپورٹس کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے جن میں کہا گیا تھا کہ نواز شریف سابق جرنیلوں اور ججوں کے احتساب کے حوالے سے اپنے مطالبے پر نظرثانی کر رہے ہیں۔

گزشتہ روز ماڈل ٹاؤن میں پارٹی کے دفتر میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جاوید لطیف نے کہا کہ ہم (مسلم لیگ ن) جنرل (ر) قمر باجوہ اور جنرل (ر) فیض حمید کے احتساب کا مطالبہ نہیں کرتے بلکہ صرف ان کرداروں اور سہولت کاروں کے احتساب کا مطالبہ کرتے ہیں، جو 9 مئی کے واقعات اور آرمی چیف کے خلاف بغاوت میں ملوث تھے، جاوید لطیف نے یہ بات چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی 9 مئی کو گرفتاری کے بعد فوجی تنصیبات پر حملوں کے حوالے سے کہی۔

جاوید لطیف کے تبصروں نے پارٹی کے بیانیے پر مزید سوالات اٹھائے ہیں کیونکہ وہ نواز شریف کے قریب سمجھے جاتے ہیں اور 2017 میں ’نواز شریف کی حکومت کے خلاف سازش‘ کرنے کے لیے سابق جرنیلوں اور ججوں کو ایک مثال بنانے کے مطالبے کے لیے کافی آواز اٹھاتے رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ مسلم لیگ (ن) میں 90 فیصد لوگ سمجھتے ہیں کہ جنرل باجوہ اور فیض حمید نواز شریف کی نااہلی کے ذمہ دار ہیں لیکن ہم ان کے خلاف کسی کارروائی کا مطالبہ نہیں کر رہے۔

9 مئی کو فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کو ’دہشت گرد‘ قرار دیتے ہوئے جاوید لطیف نے کہا کہ انہیں سیاست میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ نواز شریف نے قوم کو درپیش مسائل کی وجہ سے 21 اکتوبر کو وطن واپسی پر کسی بھی شاندار استقبال کا اہتمام نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے، وہ مینار پاکستان پر اپنے خطاب میں پاکستان کو معاشی طور پر مضبوط بنانے کا منصوبہ دیں گے۔

’مؤقف میں تبدیلی‘

نواز شریف کی جانب سے سابق جرنیلوں اور ججوں پر سخت حملوں کے بعد اس معاملے پر جاوید لطیف کے ’نرم مؤقف‘ کو پارٹی قیادت کی نئی حکمت عملی پر غور کا ’واضح سگنل‘ سمجھا جا رہا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما خرم دستگیر نے بھی بالواسطہ طور پر اس بات کی تصدیق کی کہ پارٹی ’احتساب کے بیانیے‘ سے گریز کرنا چاہتی ہے۔

خرم دستگیر نے گزشتہ روز ایک نجی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے جنرل (ر) پرویز مشرف کا آرٹیکل 6 کے تحت ٹرائل کیا تھا لیکن اس کے بعد جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے، مجھے یقین ہے کہ ہمیں اس واقعے کو نہیں دہرانا چاہیے۔

اسی طرح مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ، جو سابق جرنیلوں کو ’قومی مجرم‘ قرار دیتے آئے ہیں اور ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی کرچکے ہیں تاہم اب وہ بھی انہیں مزید نشانہ بنانے میں محتاط نظر آرہے ہیں۔

صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے پنجاب سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ (ن) کے ایک سینئر رہنما نے بتایا کہ جاوید لطیف کے ریمارکس ایک ’واضح اشارہ‘ ہیں کہ پارٹی سربراہ نواز شریف نے اپنے چھوٹے بھائی اور دیگر کی سابق جرنیلوں کے خلاف محاذ آرائی نہ کرنے کی درخواست کو قبول کر لیا ہے۔

18 ستمبر کو نواز شریف نے پارٹی کے ٹکٹ ہولڈرز سے خطاب کرتے ہوئے سابق جرنیلوں اور سابق چیف جسٹس آصف کھوسہ اور ثاقب نثار کے خلاف تنقید کی۔

کڑے احتساب کے ان کے مطالبے نے پارٹی میں بہت سے لوگوں کو کشمکش میں ڈال دیا کیونکہ اگر نواز شریف ایسے بیانات دیتے رہے تو پارٹی رہنماؤں کو ممکنہ ردعمل سے چوکنا رہنا ہوگا، اسی چیز نے شہباز شریف کو وطن واپسی کے 48 گھنٹوں کے اندر ہی دوبارہ لندن جانے پر مجبور کیا۔

انہوں نے اپنے بڑے بھائی کو اپنے مؤقف میں نرمی لانے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی کیونکہ یہ بیانیہ طاقتور حلقوں کے عتاب کو دعوت دے سکتا ہے، جن کے سابقہ حکومت کے دور میں پارٹی کے ساتھ کافی دوستانہ تعلقات رہے ہیں۔

رپورٹس میں بتایا گیا کہ نواز شریف کے خاندان کے کچھ افراد سابق جرنیلوں اور ججوں کے احتساب کے حوالے سے سخت مؤقف پر نظرثانی کے لیے نواز شریف پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ان رپورٹس کے حوالے سے جاوید لطیف نے کہا کہ شہباز شریف اپنے بھائی کو ’صرف تجاویز‘ دے سکتے ہیں لیکن ایک بار جب نواز شریف نے کوئی فیصلہ کر لیا تو پارٹی میں ہر ایک کو اس پر عمل کرنا پڑا۔

تبصرے (0) بند ہیں