• KHI: Zuhr 12:39pm Asr 5:19pm
  • LHR: Zuhr 12:09pm Asr 5:00pm
  • ISB: Zuhr 12:14pm Asr 5:09pm
  • KHI: Zuhr 12:39pm Asr 5:19pm
  • LHR: Zuhr 12:09pm Asr 5:00pm
  • ISB: Zuhr 12:14pm Asr 5:09pm

سینیٹ اجلاس طلب کرنے کی درخواست سے ’دستخط واپس‘ لینے پر پیپلزپارٹی نے سوالات اٹھا دیے

شائع September 28, 2023
—فائل فوٹو: ڈان نیوز
—فائل فوٹو: ڈان نیوز

سینیٹ اجلاس طلب کرنے کی راہ میں رکاوٹیں حائل کرنے کا تنازع نیا رخ اختیار کر گیا کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی نے سینیٹ اجلاس طلب کرنے سے متعلق ریکوزیشن پر مبینہ طور پر پانچ ارکان کی جانب دستخط واپس لینے پر قانونی سوالات اٹھا دیے جب کہ سینیٹ سیکرٹریٹ نے باضابطہ طور پر ان ارکان کے نام نہیں بتائے اور تمام صورتحال کے نتیجے میں ریکوزیشن غیر مؤثر ہو گئی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو لکھے گئے خط میں 28 ارکان کے دستخط کے ساتھ ریکوزیشن جمع کرانے والے پیپلزپارٹی کے سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ انہیں سیکریٹریٹ کی طرف سے بتایا گیا کہ ہماری ریکوزیشن سینیٹ اجلاس طلب کرنے کے لیے مطلوبہ ارکان کی تعداد کی شرط کو پورا نہیں کرتی۔

انہوں نے صادق سنجرانی کے ساتھ ٹیلی فون پر ہونے والی اس گفتگو کا بھی حوالہ دیا جس کے دوران انہیں بتایا گیا تھا کہ ریکوزیشن پر دستخط کرنے والے پانچ سینیٹرز نے اپنے دستخط واپس لے لیے۔

انہوں نے لکھا کہ آپ کی کال کے جواب میں باضابطہ طور پر سیکرٹریٹ کو لکھا کہ مجھے ان سینیٹرز کے نام باضابطہ طور پر فراہم کیے جائیں جنہوں نے مبینہ طور پر ریکوزیشن پر سے اپنے نام واپس لیے۔

سینیٹر تاج حیدر نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ان کی تحریری درخواست کے باوجود 25 ستمبر کے خط میں ان سینیٹرز کے نام نہیں بتائے گئے، جنہوں نے مبینہ طور پر اپنے دستخط واپس لیے۔

انہوں نے کہا کہ اس صورتحال میں جب کہ ایک لمحے کے لیے یہ مان لیا بھی جائے کہ مبینہ طور پر دستخط واپس لینے کا معاملہ درست ہے تو بھی کئے قانونی سوالات کھڑے ہوگئے، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ آئین کے ساتھ ساتھ سینیٹ پروسیجر اور رولز کے مطابق بھی مصدقہ دستخط کے بعد ریکوزیشن سے دستخط واپس لینے کی گنجائش نہیں ہے۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا قانونی دستاویز پر مصدقہ دستخط کو بعد کی تاریخ میں واپس لیا جا سکتا ہے؟ انہوں نے استفسار کیا کہ پانچ سینیٹرز کی جانب سے مبینہ طور پر نام واپس لینے کا معاملہ تحریری طور پر سینیٹ سیکرٹریٹ کو بھیجا گیا یا یہ صرف ٹیلی فون کال کے ذریعے کیا گیا۔

سینیٹر تاج حیدر نے اس بارے میں بھی وضاحت طلب کی کہ کیا سیکرٹریٹ نے سینیٹرز کو اپنے دستخط واپس لینے سے متعلق تحریری طور پر درخواست جمع کرانے کو کہا جب کہ یہ قانونی اور آئینی معاملہ ہے۔

انہوں نے سوال کیا کہ کیا دستخط واپس لینے کی تحریری درخواست جمع کرائی گئی، اگر تحریری درخواست جمع کرائی تو کیا اس کا ریکارڈ رکھا گیا، اگر ریکارڈ رکھا گیا تو کیا درخواستوں کی کاپیاں فراہم کی جا سکتی ہیں؟

انہوں نے کہا کہ پارلیمانی پارٹیوں کے رہنماؤں کے لیے یہ طے شدہ پارلیمانی روایت ہے کہ وہ اس طرح کی ریکوزیش یا درخواستوں پر اپنی پارٹی کے اراکین کے دستخط حاصل کریں۔

سینیٹر تاج حیدر نے نشاندہی کی کہ آئین کے آرٹیکل 54(3) اور سینیٹ رول 3 کے تحت چیئرمین سینیٹ کا آئینی فرض ہے کہ وہ مطلوبہ ارکان کی دستخط شدہ ریکوزیشن جمع کرائے جانے کے بعد 14 روز کے اندر سینیٹ اجلاس طلب کریں۔

سینیٹ کا جواب

اس کے جواب میں سینیٹ سیکرٹریٹ نے کہا کہ پانچ اراکین نے اپنے دستخط واپس لیے، ارکان نے چیئرمین سینیٹ کو لکھے خط میں واضح طور پر کہا کہ اجلاس بلانے کی ان کی درخواست کو واپس سمجھا جائے۔

ڈپٹی سیکیریٹری قانون محمد اعظم نے ایک خط میں کہا کہ 28 دستخط کنندگان میں سے 5 اراکین کی دستبرداری کے بعد، مطلوبہ تعداد پوری نہیں اور قانونی طور پر جمع کرائی گئی ریکوزیشن بے اثر ہو گئی ہے۔

انہوں نے ان سینیٹرز کے نام نہیں بتائے، جنہوں نے اپنے دستخط واپس لیے، وہ کسی ایسے قانون کی نشاندہی کرنے میں بھی ناکام رہے جس کے تحت درخواست سے دستخط واپس لینے کی اجازت دی گئی ہو۔

کارٹون

کارٹون : 26 جولائی 2024
کارٹون : 25 جولائی 2024