اسلام آباد ہائیکورٹ: وکلا کوعمران خان سے ملنے کی اجازت، اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ کو شوکاز نوٹس جاری

اپ ڈیٹ 19 اکتوبر 2023
اسلام آباد ہائی کورٹ نے وکلا کو چیئرمین پی ٹی آئی سے جیل میں ملاقات کی اجازت دے دی— فائل/فوٹو: اسلام آباد ہائی کورٹ ویب سائٹ
اسلام آباد ہائی کورٹ نے وکلا کو چیئرمین پی ٹی آئی سے جیل میں ملاقات کی اجازت دے دی— فائل/فوٹو: اسلام آباد ہائی کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کو جیل میں سہولیات کی فراہمی سے متعلق درخواست پر سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کو نوٹس کے باوجود پیش نہ ہونے پر شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے وکلا کو بلاروک ٹوک سابق وزیراعظم سے ملاقات کی اجازت دینے کا حکم دے دیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ارباب طاہر پر مشتمل دو رکنی بینچ نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو جیل میں سہولیات کی فراہمی کے لیے دائر درخواستوں پر سماعت کی جہاں سرکاری وکلا اور افسران دیر سے عدالت پہنچے۔

عدالت نے افسران پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ’کیوں نہ جیل سپرنٹنڈنٹ کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی شروع کی جائے’۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل ارشد محمود کیانی اور عظمت بشیر تارڑ تاخیر سے عدالت پہنچے تو عدالت کا کہنا تھا کہ’ ہر کوئی نواز شریف کے آنے کی خوشیاں منا رہا ہے مٹھایاں بانٹ رہا ہے، اس عدالت کی معاونت کے لیے کون آئے گا۔

عدالت نے کہا کہ آپ سب کو نواز شریف کی پڑی ہے، کیا ان کے استقبال کے لیے جانا ہے’؟۔

اپیل کی سماعت کے دوران چئیرمین پی ٹی آئی کے وکیل شیر افضل مروت نے عدالت کو بتایا کہ’ ہم چیئرمین پی ٹی آئی سے صرف اس دن ملاقات کر پاتے ہیں ، جس دن سماعت ہوتی ہے اور اس دن بھی ملاقات ڈبے نما پنجرے میں ہوتی۔

شیرافضل مروت نے کہا کہ ہم نے ایک شیڈول بنایا ہے جس کے تحت ہمیں ملاقات کی اجازت دی جائے’۔

جسٹس میاں گل حسن نے عمران خان کے وکیل سے کہا کہ ’شیڈول ہمیں دکھا دیں، آخر کار عمران خان سابق وزیر اعظم ہیں‘۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ 1977میں میرے والد بھی جیل میں تھے اور میں بھی ان سے جیل ملنے جاتا رہا ہوں’۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلا کی درخواست پر عدالت نے بغیر کسی رکاوٹ کے وکلا کو عمران خان سے ملاقات کی اجازت دے دی۔

خیال رہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو اگست میں توشہ خانہ کیس میں خصوصی عدالت کی جانب سے سزا سنائے جانے کے بعد اٹک جیل بھیج دیا گیا تھا، جس کے بعد توشہ خانہ کیس میں ان کی ضمانت ہوئی لیکن سائفر کیس میں انہیں بدستور جیل میں رکھا گیا۔

بعد ازاں عمران خان کے وکلا کی درخواست پر انہیں اٹک سے اڈیالہ جیل راولپنڈی منتقل کردیا گیا جہاں سہولیات کی عدم فراہمی کی شکایت کی گئی۔

تبصرے (0) بند ہیں