لکھاری مصنف اور صحافی ہیں۔
لکھاری مصنف اور صحافی ہیں۔

اسے شطرنج کا کھیل کہیں یا میوزیکل چیئر، طویل عرصے سے ملک کے سیاسی اسٹیج پر یہ کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ یہاں شطرنج کے پیادے اور کرسی پر قبضہ کرنے والے تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔

چار سال کی خود ساختہ جلاوطنی کے بعد نواز شریف کی واپسی بھی ایک منصوبے کا حصہ لگتی ہے۔ یہ یقینی طور پر اختلاف کرنے والے اس سیاست دان کی وطن واپسی نہیں تھی جنہیں عدالت نے اس وعدے پر علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دی کہ وہ اپنی سزا پوری کرنے کے لیے ملک واپس آئیں گے۔

اب وہ چار سال بعد وی وی آئی پی پروٹوکول میں واپس آئے ہیں اور یہ امر پاکستانی سیاست میں آنے والے بدلاؤ کی نشاندہی کرتا ہے۔ مفرور قرار دیے گئے نواز شریف کو اسلام آباد ایئرپورٹ پر اترنے سے پہلے ہی عدالت نے ضمانت دے دی تھی۔ انتخابات سے پہلے ان کے حامیوں کا خیال ہے کہ ان کا چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بننا یقینی ہے۔

جیسا کہ خیال کیا جارہا تھا لاہور میں مینار پاکستان پر ان کی تقریر میں اسٹیبلشمنٹ مخالف بیان بازی نہیں تھی۔ اس میں ان ذاتی غموں کا ذکر تھا جن سے وہ دوران حراست گزرے تھے۔ ’ووٹ کو عزت دو‘ کا کوئی تذکرہ نہیں تھا لیکن تب تک جب تک کہ وہ مقتدر حلقوں کے منظور نظر ہوں۔

صوبے بھر سے آنے والے عوام کے لحاظ سے یہ واقعی ایک متاثر کن جلسہ تھا، لیکن بڑے پیمانے پر جوش و خروش نظر نہ آیا۔ یہ ویسا استقبال نہیں تھا جیسا عام طور پر مقبول لیڈروں کا کیا جاتا ہے۔ نواز شریف ایک ایسے ملک میں واپس آئے ہیں جو پچھلے کچھ سالوں میں بدل گیا ہے۔ اپریل 2022ء میں پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے اور مسلم لیگ (ن) کی زیرقیادت حکومت کے قیام کے بعد، جس میں ان کے بھائی وزیر اعظم تھے، نواز شریف کی واپسی کی راہ ہموار ہونا شروع ہوگئی تھی۔

یہ عمران خان کی ہائبرڈ حکمرانی کے خاتمے کے ساتھ پاکستانی سیاست میں آنے والی ایک ڈرامائی تبدیلی تھی۔ اس نے مسلم لیگ (ن) اور اسٹیبلشمنٹ کو اقتدار کے ایک نئے انتظام میں اکٹھا کیا۔ نواز شریف نے اپنی خود ساختہ جلاوطنی ختم کرنے اور وزارت عظمیٰ کے لیے کوششیں کرنے سے پہلے تمام قانونی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے مزید 18 ماہ انتظار کیا۔

پاکستان سیاست میں اس بدلتی صف بندی میں کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ عمران خان کے زوال نے ہائبرڈ حکمرانی کا ایک اور دور شروع کیا جس میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھی کے طور پر مسلم لیگ (ن) کی واپسی ہوئی۔ شہباز شریف جب وزیراعظم تھے تو بڑے بھائی ہی تھے جو لندن سے حکومت کرتے تھے۔ ہر اہم پالیسی فیصلے کے لیے بڑے بھائی کی منظوری درکار ہوتی تھی۔ ان کا قریبی ساتھی اور خاندان کا ایک فرد بھی ملک کے معاشی زار کے طور پر واپس آیا تھا۔

حالات جس طرح تبدیل ہوئے ہیں اس کے بعد اب پی ٹی آئی اور اس کی قیادت زیر عتاب ہے۔ اپوزیشن کے خلاف ایسے بے رحمانہ کریک ڈاؤن کی ملک کی سیاسی تاریخ میں چند ہی مثالیں ملتی ہیں۔ اب عمران خان کو جیل بھیج دیا گیا ہے اور انہیں بغاوت سمیت کئی الزامات کا سامنا ہے جو انہیں انتخابات میں حصہ لینے سے روک سکتے ہیں۔ جبری گمشدگیوں اور غیر قانونی حراستیں ملک کی سب سے زیاہ مقبول جماعت، جو کہ مسلم لیگ (ن) کی اصل حریف بھی ہے، کی ٹوٹ پھوٹ کا باعث بنی ہیں۔

یہ بات واضح ہے کہ پی ٹی آئی کے خاتمے کو مسلم لیگ (ن) کی آشیرباد حاصل ہے، لہٰذا یہ حیرت کی بات نہیں تھی کہ نواز شریف کی تقریر میں جمہوریت اور سویلین بالادستی کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ ان کی واپسی کے فوراً بعد خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت فرد جرم عائد کردی۔ ان کے طاقتور ترین مخالف کو انتخابی منظر سے ہٹانے نے نواز شریف کی اقتدار میں واپسی کا راستہ صاف کر دیا ہے۔

نواز شریف تین مرتبہ ملک کے وزیر اعظم رہے ہیں اور انہیں کبھی بھی اپنی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی لیکن لگتا ہے کہ انہوں نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور وہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد قبول کرنے پر خوش ہیں۔ قبل از انتخابات جوڑ توڑ مسلم لیگ (ن) کو کھلا میدان فراہم کرسکتی ہے لیکن اس طرح جمہوری عمل مزید کمزور اور غیر منتخب قوتیں مضبوط ہوں گی۔

ان سازگار حالات کے باوجود نواز شریف کو اب بھی بہت سی رکاوٹوں کو عبور کرنا ہے۔ انہیں چوتھی مرتبہ وزارت عظمیٰ حاصل کرنے سے پہلے بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔ جب تک ان کی سزا برقرار ہے انتخابات میں حصہ لینے کی اہلیت کے بارے میں کچھ قانونی خدشات رہیں گے۔ سپریم کورٹ کے ایک حالیہ فیصلے نے ان کی سزا کے بارے میں نظرثانی کی درخواست کا دروازہ بھی بند کردیا ہے۔ یعنی نواز شریف کو ابھی ایک طویل قانونی جنگ لڑنی ہے۔

نواز شریف کی واپسی سے یقیناً پارٹی میں اعتماد بحال کرنے میں مدد ملے گی۔ لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی کھلی حمایت اور انتخابی منظر نامے سے پی ٹی آئی کے منصوبہ بند خاتمے کے باوجود بدلتے ہوئے سیاسی اور سماجی ماحول میں عوامی حمایت حاصل کر پائیں گے یا نہیں۔ نگران سیٹ اپ کی راہ ہموار کرنے کے لیے اگست میں اقتدار چھوڑنے والی مسلم لیگ (ن) کی زیرقیادت مخلوط حکومت کی خراب کارکردگی سے یہ امکان اور بھی کم ہوتا نظر آتا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کو نئے آئیڈیاز یا ٹھوس پروگرام سے اپنی سابقہ ​​سیاسی قوت حاصل کرنے میں مدد ملے گی اور اس کے بغیر انتخابات میں جانا مشکل ہوگا۔ اپنی واپسی پر نواز شریف کی تقریر بیان بازی سے بھرپور تھی، جس میں ان کی سابقہ ​​حکومت کی کارکردگی کو سراہا گیا، جس پر اب بھی سوالیہ نشان موجود ہے۔ مزید یہ کہ وہ خود کو اور اپنی پارٹی کو مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت مخلوط حکومت کی ناکام پالیسیوں سے الگ نہیں کرسکتے جو مالیاتی اور اقتصادی بحرانوں کے ساتھ ساتھ مہنگائی کا سبب بنیں۔

یہ بات تیزی سے واضح ہوتی جارہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت پارٹی کو ملک کے تیز سیاسی اور سماجی تغیرات سے ہم آہنگ کرنے کے لیے خود کو تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔ پارٹی پر شریف خاندان کی بڑھتی ہوئی گرفت بھی مسلم لیگ (ن) کی سیاسی بنیاد کو وسیع کرنے میں ایک رکاوٹ ہے۔

مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو اس چیز کا ادراک نہیں کہ نوجوان نسل اور شہری متوسط ​​طبقہ تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ نواز شریف کی تقریر نے بھی کس قسم کی تبدیلی کا کوئی اشارہ نہیں دیا۔ پارٹی مشکوک انتخابات کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے اقتدار میں تو آسکتی ہے۔ لیکن اس سے ملک میں سیاسی استحکام نہیں آسکتا۔


یہ مضمون 25 اکتوبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں