صحافیوں اور میڈیا ورکرز کے تحفظ کا قانون: آج ہم کہاں کھڑے ہیں؟

3 سال قبل کراچی میں جیو ٹی وی سے وابستہ ایک سینیئر صحافی کو اغوا کر لیا گیا۔ صحافی کا نام علی عمران سید تھا۔ وہ دفتر سے گھر کے لیے نکلے اور گھر کے قریب ہی تھے کہ انہیں اغوا کرلیا گیا اور اغوا کاروں نے انہیں 22 گھنٹے اپنی تحویل میں رکھا، پھر انہیں ان کی والدہ کے گھر پہنچا دیا گیا۔

انہیں اپنے اغوا کا واقعہ اچھی طرح یاد ہے۔ علی عمران سید نے ہمیں فون پر بتایا کہ 23 اکتوبر 2020ء جمعے کی شام تھی، گھر کے قریب ایک بیکری سے انہیں کسی طاقتور ادارے کے اہلکاروں نے اغوا کرلیا۔ بنیادی مسئلہ ایک ویڈیو کا تھا۔ اغوا کار انہیں زدو کوب کرتے ہوئے ان کے کام کے حوالے سے سوالات کرتے رہے۔ علی ایک ’ایکسکلیوسیو فوٹیج‘ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے جس میں واضح طور پر ایسے شواہد موجود تھے جو کچھ اداروں کے لیے بہت شرمندگی کا باعث تھے۔

علی سمجھتے ہیں کہ یہی وجہ تھی کہ انہیں اغوا کرکے دباؤ میں لینے کی کوشش کی گئی تھی۔ سوشل میڈیا کا زمانہ تھا اس لیے ہر طرف سے آواز اٹھائی گئی، جس کی وجہ سے اغوا کار دباؤ میں آئے اور 22 گھنٹے کے اندر ان لوگوں کو مجھے رہا کرنا پڑا۔ اس میں انٹرنیشنل میڈیا اور ملکی و غیر ملکی صحافی تنظیمیں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں شامل تھیں۔ ہر طرف سے آوازیں اٹھیں اور ایک شور مچ گیا تھا۔


صحافیوں اور میڈیا ورکرز کے تحفظ کا بل کیا کہتا ہے؟


   پاکستان میں پہلی بار سندھ میں صحافیوں اور میڈیا ورکرز کے لیے تحفظ کے تحت کمیشن تشکیل دیا گیا
پاکستان میں پہلی بار سندھ میں صحافیوں اور میڈیا ورکرز کے لیے تحفظ کے تحت کمیشن تشکیل دیا گیا

2021ء میں سابق وفاقی وزیر شریں مزاری نے ماہرین قانون اور دیگر صحافی تنظیموں کی مشاورت سے جرنلسٹ اینڈ میڈیا پروٹیکشن بل پاس کروایا۔ مئی 2021ء میں سندھ کی صوبائی اسمبلی میں اسی طرح کے ایک بل کو پیش کیا گیا اور 4 اگست 2021ء میں اسے قانونی شکل دے دی گئی جبکہ اس قومی بل کو دسمبر 2021ء میں صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے دستخط کرکے باقاعدہ قانون کا حصہ بنایا۔

Title of the document

قومی اور صوبائی دونوں قوانین کی رو سے صحافی اپنی معلومات کے ذرائع ظاہر کرنے کا پابند نہیں۔ قانون یہ بھی کہتا ہے کہ آرٹیکل 19 کے تحت صحافیوں کی جان و مال کا تحفظ، ریاست کی ذمہ داری ہے۔ جہاں ہر پاکستانی کو آزادی اظہار کا حق حاصل ہے وہیں صحافی کی زندگی اس کے کام کی وجہ سے متاثر نہیں ہونی چاہیے۔ قانون کی ایک دفعہ یہ بھی ہے کہ کوئی دوسرا قانون صحافیوں کو ان کے کام سے نہیں روک سکتا۔

اس قانون کی رو سے شکایات دور کرنے کے لیے باقاعدہ ایک کمیشن قائم کیا جائے گا۔ کمیشن کے سربراہ ریٹائرڈ جج ہوں گے جن کا استحقاق سول کورٹ کی سطح کا ہوگا۔ کمیشن میں چاروں صوبائی اور فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے نمائندوں کے ساتھ ساتھ چاروں صوبوں کے پریس کلب کو بھی نمائندگی دی گئی ہے، اس کے علاوہ وزارتِ اطلاعات اور انسانی حقوق کے نمائندے بھی شامل ہوں گے۔

کمیشن کی بنیادی ذمہ داری ہوگی کہ وہ صحافی اور میڈیا ورکرز کے خلاف ہونے والے اغوا، تشدد، دھمکیوں یا ہراساں کرنے والوں کے خلاف فوری کارروائی کرے۔ صحافی اور میڈیا ورکرز 14 دنوں کے اندر اندر اپنی شکایات کمیشن کے سامنے لے جاسکتے ہیں اور کمیشن 14 دنوں میں اس کا فیصلہ سنائے گا۔

کمیشن کی تحقیقات کے دوران کوئی بھی شخص، کسی بھی ادارے سے کوئی بھی مطلوبہ دستاویزات طلب کرسکتا ہے۔ قانون کی رو سے ہر صحافی کا میڈیا ہاؤس پابند ہوگا کہ وہ اس کی نوکری سے پہلے اسے اس قانون سے متعلق مکمل آگاہی فراہم کرے یعنی اسے ٹریننگ دی جائے۔


پہلا صوبائی جرنلسٹ سیفٹی قانون 2021ء اور کمیشن کا قیام


   پاکستان میں پہلی بار صوبہِ سندھ میں صحافیوں کے تحفظ کے لیے قانون اور کمیشن تشکیل دیا گیا
پاکستان میں پہلی بار صوبہِ سندھ میں صحافیوں کے تحفظ کے لیے قانون اور کمیشن تشکیل دیا گیا

علی عمران سید کے اغوا کا واقعہ اس وقت پیش آیا جب حکومت پاکستان نے صحافیوں کے تحفظ کے لیے کوئی قانون سازی نہیں کی تھی۔ ان کے اغوا کے 7 ماہ بعد حکومتِ پاکستان ایک ایسا قانون بنانے میں کامیاب ہوگئی جس میں صحافیوں کو ان کے کام کی وجہ سے تشدد، اغوا، ہراسانی اور زدو کوب کرنے کی روک تھام کے لیے باقاعدہ کمیشن بنانے کی سفارش کی گئی تھی تاکہ صحافی حکومتی یا کسی بھی طاقتور طبقے کے دباؤ میں آئے بغیر خبر پہنچانے کا اپنا کام پوری ذمہ داری سے کر سکیں۔

قومی اور صوبائی سطح پر قانون بنانا تو شاید آسان کام تھا لیکن اس پر عمل درآمد مشکل تھا کیونکہ قومی سطح پر کمیشن آج تک قانون نہیں بن سکا جبکہ سندھ میں بھی قانون پاس ہونے کے 15 ماہ بعد نومبر 2022ء میں 14 رکنی کمیشن کے نام شائع کیے گئے جبکہ کمیشن نے فروری 2023ء سے کام شروع کیا۔

سندھ کے 14 رکنی کمیشن میں ریٹائرڈ جج رشید اے رضوی بطور صدر، انفارمشن سیکریٹری، سیکریٹری داخلہ، قانون اور انسانی حقوق کی وزارتوں کے سیکریٹری شامل ہیں جبکہ باقی 9 ارکان صحافی اور صحافی تنظیموں کی نمائندگی کرنے کے لیے ہیں۔ ان میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے سیکریٹری فہیم صدیقی، اے پی این ایس کے قاضی اسد عابد، کونسل آف نیوز پیپر ایڈیٹرز کے ڈاکٹر جبار خٹک، پاکستان براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن کے اطہر قاضی، انسانی حقوق کمیشن کے ڈاکٹر توصیف جبکہ خواتین کی نمائندگی کے لیے ممبران صوبائی اسمبلی شازیہ عمر اور سیدہ ماروی فصیح شامل ہیں، آل پاکستان نیوز پیپر ایمپلائز کنفیڈریشن کے غلام فرید الدین بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ کمیشن میں سندھ بار کونسل کی نمائندگی بھی موجود ہے

    کمیشن میں شامل اراکین کی فہرست
کمیشن میں شامل اراکین کی فہرست


سندھ صحافی تحفظ کمیشن کی کارکردگی


کونسل آف نیوز پیپر ایڈیٹرز اور فریڈم نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر اقبال خٹک کا کمیشن کی فعالیت پر کہنا ہے کہ ’کمیشن کو اب تک 10 درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔ اغوا ہونے والے دو صحافی واپس آچکے ہیں۔ 10 ماہ میں ابھی تک کی کارکردگی واضح ہے۔ کچھ کیسز پر کام ہوچکا ہے جبکہ کچھ پر کام چل رہا ہے۔ اندرون سندھ قتل ہونے والے صحافیوں کے لیے اعلٰی پولیس اہلکاروں سے بات کی گئی ہے۔ جے آئی ٹی بن چکی ہے اور اس پر کام چل رہا ہے۔ امید ہے کہ قاتلوں کو پکڑ لیا جائے گا‘۔

لیکن ڈاکٹر اقبال نے زور دیا کہ ’کمیشن کے پاس کوئی دفتر نہیں، نہ کوئی کرسی میز اور نہ ہی انٹرنیٹ جیسی بنیادی سہولت موجود ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ کمیشن نے کام شروع کردیا ہے۔ فی الحال یہ نہیں کہنا چاہیے کہ کمیشن اچھا یا برا کام کررہا ہے کیونکہ ابھی شروعات ہے۔ ہاں کمیشن کے لاجسٹک مسائل دور ہونے چاہئیں‘۔ اقبال صاحب نے کمیشن کے صدر رشید اے رضوی کے حوالے سے کہا کہ ’انہیں شکایت ہے کہ سیکریٹری داخلہ اجلاس میں نہیں آتے اور نہ ہی کسی خاتون نے اجلاس میں شرکت کی جس کی شکایت نگران وزیراعلٰی سے بھی کی گئی ہے‘۔

فہیم صدیقی اس کمیشن میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کی نمائندگی کررہے ہیں۔ کمیشن کے قیام سے متعلق ان کا کہنا ہے کہ ’اس میں عامل صحافیوں اور میڈیا ورکرز کی نمائندہ تنظیمیں دو ہی ہیں، ایک کراچی یونین آف جرنلسٹس اور دوسری آل پاکستان نیوز پیپرز ایمپلائز کنفیڈریشن (ایپنک)، باقی جن تنظیموں کے نمائندے اس کمیشن کا حصہ ہیں ان میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا مالکان کی دو تنظیمیں پی بی اے اور اے پی این ایس ہیں اور نیوز ایڈیٹرز کی تنظیم سی پی این ای ہے جبکہ کمیشن میں ایچ آر سی پی اور بار کونسل کو بھی نمائندگی دی گئی تھی‘۔

فہیم مانتے ہیں کہ ’یقیناً ہمیں اس وقت بہت سے مسائل کا سامنا ہے لیکن ایک بات میں آپ سب کو بتانا چاہوں گا کہ جس وقت ہم اس بل پر کام کررہے تھے تو اس بات کا اندازہ تھا کہ اس بل کے ایک ایکٹ بننے اور کمیشن وجود میں آنے کے باوجود ہمارے لیے کام کرنا آسان نہیں ہوگا اور یہی سوچ کر ہم نے بل میں کچھ ایسی شقیں شامل کیں جن سے ہمیں کام کرنے میں نہ صرف آزادی حاصل ہو بلکہ ہم کسی وقت بھی خود کو بے اختیار محسوس نہ کریں۔ آپ اگر ایکٹ کا بغور مطالعہ کریں تو اس میں یہ بات موجود ہے کہ کمیشن کے ارکان میں داخلہ، اطلاعات، قانون اور انسانی حقوق کے صوبائی سیکریٹریز بھی شامل ہیں اور ایک جگہ ایکٹ ہمیں یہ اختیار دیتا ہے کہ ہم کسی بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے کو متعلقہ ریکارڈ کے ساتھ طلب کرسکتے ہیں۔

’کمیشن کے قیام کے بعد بعض مواقع ایسے آئے ہیں کہ ہمیں یہ لگا کہ ادارے، خاص طور پر سندھ پولیس ہمارے ساتھ تعاون نہیں کررہی اور سیکریٹری داخلہ کمیشن کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔ اس پر ہم نے نگران وزیراعلیٰ سندھ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر سے ملاقات کی اور انہیں کمیشن کے تحفظات سے آگاہ کیا۔ انہوں نے اسی وقت سیکریٹری داخلہ کو وزیراعلٰی ہاؤس طلب کیا اور انہیں پابند کیا کہ وہ کمیشن سے مکمل تعاون کریں۔ کمیشن نے وزیراعلٰی سندھ کو بتایا کہ کمیشن اپنے قیام سے لے کر اب تک سندھ بھر میں صحافیوں کے قتل، اغوا اور انہیں ہراساں کرنے پر محکمہ داخلہ سے رپورٹس طلب کرچکا ہے جو فراہم نہیں کی جارہیں تاہم اس میٹنگ کے بعد ہمیں رپورٹس موصول ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ ان میں سکھر میں صحافی جان محمد مہر کے قتل کیس کی رپورٹ بھی شامل ہے‘۔

   قانون سازی اور کمیشن کے قیام کے باوجود اندرونِ سندھ صحافیوں کو قتل کیا جارہا ہے
قانون سازی اور کمیشن کے قیام کے باوجود اندرونِ سندھ صحافیوں کو قتل کیا جارہا ہے

فہیم صدیقی نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ’ہم کام کرنا چاہتے ہیں اور ہمیں بیوروکریسی کے رویے اور ان کی مشکلات دونوں کا اندازہ ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ ہم کمیشن کے قیام کے مثبت اثرات اپنی صحافی برادری تک پہنچائیں اور انشااللہ مجھے یقین ہے کہ ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے‘۔

کمیشن کی مشاورت میں شامل اور سابق صدر کراچی پریس کلب فاضل جمیلی کہتے ہیں کہ ’سندھ پروٹیکشن کمیشن کا قیام صحافیوں کے تحفظ کے حوالے سے خوش آئند پیش رفت ہے تاہم ابھی تک یہ کمیشن اس طرح فعال نہیں ہوپایا جس طرح توقع کی جارہی تھی۔ اس کمیشن کے بعد بھی سندھ میں ایک صحافی کا قتل ہوا اور کمیشن کے ایکشن لینے کے باوجود قاتل ابھی تک گرفتار نہیں ہوئے جوکہ یقینی طور پر ایک مایوس کُن صورتحال ہے۔ کمیشن نے بعض صحافیوں کو لاپتا کرنے کا نوٹس لیا اور وہ صحافی باحفاظت اپنے گھروں کو پہنچ گئے۔ اس حوالے سے کہا جاسکتا ہے کہ یہ اقدام تسلی بخش ہے‘۔

کمیشن میں انسانی حقوق کمیشن کے نمائندے پروفیسر توصیف احمد کہتے ہیں کہ ’ہمارا سیکریٹیریٹ بن رہا ہے لیکن سندھ کمیشن نے اپنے کام شروع کردیے ہیں۔ پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں سے ہمارا رابطہ ہے۔ آخری اجلاس میں بھی ہم نے طے کیا ہے کہ ریاستی اداروں کی طرف سے صحافیوں پر ہونے والے ظلم کو ختم کرنا اس کمیشن کا کام ہے۔ اسلام آباد میں ابھی کمیشن نہیں بنا دیگر صوبوں کی بھی صورتحال کمیشن نہ بننے کی وجہ سے اچھی نہیں۔

مظہر عباس، اویس اسلم علی، طاہر اے خان، جبار خٹک اور فاضل جمیلی قانون سازی کی مشاورت میں شامل رہے ہیں۔ انہوں نے بھی اس بات کو بھی قبول کیا کہ اس وقت بھی کوئی خاتون باقاعدہ مشاورت میں شامل نہیں تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پچھلی حکومت کے خاتمے پر صحافیوں دباؤ میں آگئے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ 10مئی 2023ء کے بعد کراچی میں تو نہیں لیکن لاہور کے صحافیوں کو زدو کوب اور گرفتار کیا گیا کیونکہ وہاں کوئی قانون سازی نہیں ہوئی اور نا ہی کوئی کمیشن بن سکا ہے۔ اب چونکہ ملک میں نگران حکومت ہے اس لیے جب صحافیوں کا ایک وفد پنجاب کے نگران وزیراعلٰی سے ملا تو انہوں نے بس ایک کمیٹی بنا دی۔

توصیف احمد کے خیال میں وفد کو کمیشن کی بات کرنی چاہیے تھی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ کمیشن کو جیو ،جنگ اور دنیا میڈیا گروپ کے صحافیوں کے معاملے پر بھی بات کرنی چاہیے تھی لیکن جب تک صحافی خود سامنے آکر بات نہیں کریں گے کمیشن بھی کچھ نہیں کر پائے گا۔


کمیشن اور اعتراضات


فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کی نائب صدر اور سینیئر صحافی شہر بانو کہتی ہیں کہ ’جب یہ قانون بنایا جارہا تھا تو ہم سے براہِ راست تو نہیں لیکن کچھ صحافی تنظیموں نے مشاورت کے لیے ہم سے رابطہ کیا تھا۔ ہم نے سندھ اسمبلی سے اس قانون کو منظور کروانے کے لیے لابنگ بھی کی لیکن کافی عرصے تک کمیشن بنا ہی نہیں۔ آگے چل کر دو خواتین اراکینِ صوبائی اسمبلی کو کمیشن کا حصہ بنایا گیا جنہیں ہم جانتے بھی نہیں۔ وہ خواتین اس کمیشن کے اجلاس کا حصہ نہیں بنیں۔ ہم نے رشید اے رضوی سے میٹنگ کی اور کہا کہ کوئی خاتون لازمی اس کمیشن کا حصہ بنائیں کیونکہ خواتین کا کمیشن میں ہونا ضروری ہے۔ ہراسانی کا شکار ہونے والی خاتون اپنا مسئلہ جتنے اچھے طریقے سے کسی دوسری خاتون کو بتاسکتی ہے وہ کوئی مرد نہیں بتا سکتا‘۔

   اعتراض کیا جارہا ہے کہ کمیشن میں خواتین صحافیوں کی نمائندگی شامل نہیں
اعتراض کیا جارہا ہے کہ کمیشن میں خواتین صحافیوں کی نمائندگی شامل نہیں

شہر بانو کو یاد ہے کہ پی ایف یو جے نے شرجیل میمن کے سامنے بھی یہ بات رکھی۔ پھر کراچی پریس کلب نے بھی اسے آگے بڑھایا اور سندھ اور پاکستان انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کو خط لکھا جس میں دو خواتین کے نام تجویز کیے گئے تھے۔ جن ایم پی ایز کے نام سامنے آئے ہیں انہوں نے کبھی رابطہ نہیں کیا اور نہ ہی کسی اجلاس میں شرکت کی۔

ان کے خیال میں کم از کم اگلے اجلاس میں ضرور ایک سے دو خواتین کو اس کمیشن کا باقاعدہ رکن ہونا چاہیے۔ بہت عرصے بعد ایک اچھا بل سامنے آیا ہے، اگرچہ لوگوں نے کچھ تحفظات کا اظہار کیا ہے لیکن یہاں ایک بار پھر خاتون صحافی کی نمائندگی روکی گئی ہے۔ ’میں ابھی بھی یہی کہوں گی یہ پہلا قدم ہے۔ امید ہے کہ اگے چل کر اس میں مزید بہتری آئے گی۔ ابتدا میں اس بل کے شقوں میں خواتین کے مسائل پر بات نہیں کی گئی تھی جس پر ہم نے باقاعدہ مشورے کے بعد اپنی تجاویز شعبہِ اطلاعات کو بھیجیں اور یہ اب اس قانون کا حصہ ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومت نے ہم سے تجاویز مطلب کی تھیں لیکن قانون کا اصل مقصد صحافیوں کی شکایت سن کر انہیں دور کرنا تھا‘۔

فاضل جمیلی سمجھتے ہیں کہ ’جہاں تک کمیشن میں کسی خاتون کی عدم موجودگی کا سوال ہے تو اس پر اعتراض اٹھایا گیا ہے لیکن اگر حکومت اور محکمہ اطلاعات کی طرف سے نام دیا جاتا تو اچھی بات تھی۔ کمیشن میں صحافی تو ہیں لیکن خاتون نہیں۔ خاتون کا نہ ہونا کمیشن کی خامی نہیں صحافتی تنظیموں کی نااہلی ہے کہ انہوں نے کسی خاتون کو نامزد نہیں کیا‘۔

صحافی اور سکھر پریس کلب کی خازن سحرش کھوکھر کہتی ہیں کہ ’حکومتِ سندھ کی جانب سے قانون سازی کے باوجود سندھ میں صحافیوں کے قتل کی روک تھام نہیں ہوسکی ہے جبکہ ان وارداتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جن میں سکھر سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی جان محمد مہر کا لرزہ خیز قتل اور خیرپور سے تعلق رکھنے والے صحافی اصغر کھنڈ کے بہیمانہ قتل کی مثالیں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ گزشتہ 3 برسوں میں سکھر ریجن میں تقریباً 10 صحافیوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا‘۔

کمیشن متحرک ہونے کے باوجود حال ہی میں دو صحافی اصغر کھنڈ اور جان محمد مہر کے قاتلوں کی گرفتاری میں کمیشن اپنا کوئی مثبت کردار ادا نہیں کرسکا جس کے باعث صحافیوں میں شدید غم و غصہ اور تشویش پائی جاتی ہے۔ سکھر میں 15 اگست سے شروع کیا جانے والا احتجاج اب احتجاجی تحریک میں تبدیل ہوگیا ہے اور مقتول صحافیوں کے لیے روزانہ کی بنیاد پر سکھر سمیت سندھ بھر میں صحافی احتجاج کرتے ہیں مگر اس صورتحال اور ان بڑے واقعات کے باوجود کمیشن غیر فعال نظر آتا ہے۔


روزگار کا تحفظ اور تنخواہوں کی بروقت ادائیگی


   کیا اس کمیشن کے قیام کے بنیادی مقاصد پورے ہوگئے ہیں؟
کیا اس کمیشن کے قیام کے بنیادی مقاصد پورے ہوگئے ہیں؟

فاضل جمیلی نے ایک نقطہ یہ اٹھایا کہ ’کمیشن کے دائرہ اختیار میں صحافیوں کے روزگار کا تحفظ اور انہیں تنخواہوں کی بروقت ادائیگی بھی شامل ہے۔ بدقسمتی سے کمیشن اس حوالے سے بھی اپنا کردار ادا کرنے میں اب تک ناکام رہا ہے۔ کمیشن کے قیام کے بعد بہت سے میڈیا ہاؤسز سے لاتعداد صحافیوں کو ملازمتوں سے برطرف کردیا گیا اور بیشتر اداروں میں کئی کئی ماہ سے تنخواہیں ادا نہیں کی جا رہیں۔ ایسے میں سوال کیا جا سکتا ہے کہ اگر یہ کمیشن صحافیوں اور میڈیا ورکرز کے معاشی قتل عام کو نہیں روک سکتا تو کیا اس کے قیام کے جو مقاصد تھے وہ پورے ہوتے دکھائی دیتے ہیں؟‘


ٹریننگ اور آگاہی ضروری


صحافیوں کے تحفظ کے قانون میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ صحافی کے میڈیا ہاؤسز کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے صحافی کو ایک سال کے اندر اندر اس حوالے سے آگاہی فراہم کریں۔ پروفیسر توصیف کا کہنا ہے کہ ’ٹریننگ کا سلسلہ اب شروع کیا جائے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کی جانب سے بنائے گئے اس کمیشن کو سامنے آکر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے کیونکہ شاید قوانین پر عمل درآمد صحافیوں کو مزید مشکلات سے چھٹکارا دلوانے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ایک اہم اور توجہ طلب بات یہ بھی ہے کہ سندھ میں صحافیوں کے تحفظ کے قانون کا مؤثر استعمال کیسے کیا جاسکتا ہے؟ اندرون سندھ کے اکثر صحافی اس قانون و کمیشن کے حوالے سے آگاہی ہی نہیں رکھتے۔

   اس قانون کے حوالے سے صحافیوں کو آگاہی اور ٹریننگ دینا ضروری ہے—تصویر: اے ایف پی
اس قانون کے حوالے سے صحافیوں کو آگاہی اور ٹریننگ دینا ضروری ہے—تصویر: اے ایف پی

صحافیوں کے تحفظ سے متعلق ایکٹ 2021ء کی دفعات کے مطابق صحافیوں کے تحفظ کے لیے سندھ کمیشن کے پاس شکایت کیسے درج کی جاتی ہیں اس متعلق میڈیا کے صحافیوں کو معلومات ہی نہیں ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ صحافیوں کو آگاہی دینے کے لیے سرکاری سطح پر آگاہی سیشن ترتیب دینا بہت ضروری ہے۔

فہیم صدیقی نے ان اعتراضات کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ ’اب یہ اتفاق ہے کہ ان تنظیموں نے کمیشن کے لیے جن افراد کو نامزد کیا، اس میں کوئی خاتون شامل نہیں لیکن اچھی بات یہ ہے کہ سندھ اسمبلی کی دو خواتین ارکان اس کمیشن کی رکن رہی ہیں۔ وہ شاید سمجھتی ہیں کہ وہ صرف اسمبلی کی مدت تک کمیشن کی رکن تھیں لیکن ہمارے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ رشید اے رضوی صاحب کے مطابق آئندہ اسمبلی تک وہ کمیشن کی رکن رہیں گی تو میں سمجھتا ہوں کہ کمیشن میں کسی خاتون کے نہ ہونے کی بات درست نہیں ہے ہاں کسی صحافتی تنظیم کی جانب سے خاتون کو بطور رکن نامزد نہ کرنے پر سوال ان تنظیموں سے ہی کیا جاسکتا ہے۔

’ہم جب سندھ جرنلسٹس اینڈ ادرز میڈیا پریکٹیشنرز پروٹیکشن بل پر کام کررہے تھے تو اس وقت بھی ہمارے مدِنظر یہی تھا کہ کسی طرح صحافیوں اور دیگر میڈیا ورکرز کے تحفظ کا کوئی قانون بن جائے اور جب ایسا کوئی قانون بن جائے گا تو وہ صرف مرد صحافیوں یا میڈیا ورکرز کے لیے نہیں ہوگا، وہ خواتین صحافیوں اور خواتین میڈیا ورکرز کے لیے بھی ہوگا اور میرے نزدیک جب کوئی بھی شخص چاہے وہ مرد ہو یا عورت، صحافت کو بطور پیشہ منتخب کرتا ہے تو وہ صحافی کہلاتا ہے۔ ہم نے اس میں کبھی مرد عورت کی کوئی تمیز نہیں دیکھی اور نہ ہی کبھی لفظ ’صحافن‘ سنا‘۔

فہیم صدیقی نے مزید کہا کہ ’ہماری کوشش اُس وقت بھی یہی تھی اور آج بھی یہی ہے کہ ایکٹ میں لفظ جرنلسٹ اور میڈیا پریکٹیشنرز کی جو تعریف ہم نے طے کی ہے اس پر پوری طرح سے عمل ہو اور میڈیا انڈسٹری چاہے وہ پرنٹ، الیکٹرانک ہو یا ڈیجیٹل، اس کا ہر فرد اس ایکٹ کے فریم میں شامل ہو‘۔

حکومت پاکستان نے صحافیوں اور دیگر میڈیا ورکرز کے تحفظ کے لیے قانون بنادیا ہے اور سندھ حکومت نے پروٹیکشن آف جرنلسٹس تشکیل دے کر معاشرے کے اہم ستونوں کو قانونی تحفظ بھی فراہم کردیا مگر بات پھر وہیں آتی ہے کہ یہ قانون اور کمیشن کتنا فعال کردار ادا کرتا ہے۔