لکھاری مصنف اور صحافی ہیں۔
لکھاری مصنف اور صحافی ہیں۔

’چیزیں جتنی زیادہ تبدیل ہوتی ہیں ان میں اتنی ہی یکسانیت رہتی ہے‘۔ اس حقیقت کا اطلاق پاکستان کی اقتدار کی سیاست پر ہوتا ہے۔ سیاسی منظرنامے پر ایک بار پھر وہی فرسودہ کھیل کھیلا جارہا ہے جو ہم ماضی میں کئی بار دیکھ چکے ہیں مگر اس بار پرانے اداکاروں کے کردار آپس میں بدل چکے ہیں۔

جہاں ایک سابق وزیراعظم کو بدنام کرکے بھیجا گیا وہیں ایک سابق وزیراعظم کو بدنامی کے اندھیروں سے نکال کر پسندیدہ لوگوں کی فہرست میں شامل کرلیا گیا ہے۔ میوزیکل چیئرز کا یہ کھیل جاری ہے۔

انتخابات میں چند ماہ باقی ہیں لیکن یہ تاثر پایا جارہا ہے کہ اس کے نتائج پہلے سے طے ہوچکے ہیں۔ اقتدار کا میدان ماضی میں تین بار وزیراعظم رہنے والے سیاست دان کے لیے صاف ہوچکا ہے جوکہ اب چوتھی بار وزیراعظم بننے کی دوڑ میں شامل ہیں جبکہ ان کے سب سے بڑے حریف اب ان کی راہ میں رکاوٹ نہیں۔

بلاشبہ پاکستان میں کبھی بھی انتخابات مکمل طور پر صاف اور شفاف نہیں ہوئے لیکن اب جو کچھ ہورہا ہے اس نے جمہوری نظام کا مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔

بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ الیکشن سے قبل جوڑ توڑ کی صورت میں ’سلیکشن‘ کا ایک اور عمل جاری ہے۔ یہ جمہوری طریقے سے اقتدار کی منتقلی کے عمل کی قانونی حیثیت کو مشکوک بناتا ہے۔ آج ملک میں جو کچھ ہورہا ہے وہ اس سے قبل فوجی حکومتوں میں بھی نہیں دیکھا گیا۔ یہاں ایک ناکام منصوبے کے خاتمے کو انتقام میں بدل دیا گیا ہے۔

جیل میں قید سابق وزیراعظم عمران خان کو پہلے ہی انتخابی عمل میں شرکت سے روکا جاچکا ہے، پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماؤں اور کارکنان کی بڑی تعداد یا تو جیل میں ہے یا پھر انہیں جبری طور پر پی ٹی آئی چھوڑنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ ’گمشدگی‘ کے بعد انہیں ٹی وی اسکرینز کے سامنے لایا جاتا ہے تاکہ وہ اپنی پارٹی رکنیت سے مستعفی ہوں۔

یہ شرمناک کھیل کچھ عرصے سے جاری ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ بھی کافی نہیں، اگر وہ مکمل طور پر اس معاملے سے باہر آنا چاہتے ہیں تو پارٹی چھوڑنے والوں کو نئی ’کنگز پارٹی‘ میں شامل ہونے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ مقامی سطح کے پارٹی کارکنان کو بھی نہیں چھوڑا جارہا۔ اسی دوران الیکٹرانک میڈیا پر پی ٹی آئی کے قیادت کے خلاف مہمات بھی چلائی جارہی ہیں۔

میڈیا کی آزادی کا نام و نشان تک باقی نہیں رہا۔ نگران حکومت ان قوتوں کے لیے ایک دکھاوے کے علاوہ کچھ نہیں ہے جو اپنے مینڈیٹ سے باہر نکل چکی ہیں، ان کے پاس صرف انتخابات کی نگرانی اور ان کے منصفانہ اور آزاد ہونے کو یقینی بنانے تک کے اختیارات موجود تھے۔

درحقیقت انتخابات سے قبل جوڑ توڑ کرنے کے لیے نگران حکومت کو استعمال کیا جارہا ہے۔ یہ وہ ملکی حالات ہیں جن میں اگلے انتخابات کا انعقاد ہوگا۔

دوسری جانب 4 سالہ خودساختہ جلاوطنی کے بعد وی وی آئی پی پروٹوکول میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی وطن واپسی ظاہر کرتی ہے کہ ہوا کا رخ تبدیل ہوچکا ہے۔ تاہم اس وقت وہ اپنی سزا معطلی کے لیے قانونی جنگ لڑ رہے ہیں تاکہ وہ انتخابات میں حصہ لے سکیں جبکہ اپنی سزا سے متعلق عدالت کے فیصلے سے قبل ہی وہ پارٹی کی انتخابی مہم میں حصہ لے رہے ہیں۔

ہماری سیاسی روایات کے مطابق بہت سے الیکٹیبلز اور گروپس مسلم لیگ (ن) کی کشتی میں سوار ہوگئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کا وسیع تر تاثر پارٹی کے حق میں فائدہ مند ثابت ہوا ہے۔

ستم ظریفی دیکھیں کہ مسلم لیگ (ن) نے نہ صرف بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے بہت سے ارکان کو جماعت میں شامل کیا ہے بلکہ اسے اس پارٹی کے ساتھ اتحاد بھی قائم کرنا پڑا جس پر وہ الزام عائد کرتے تھے کہ اسے صوبے میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت دبانے کے لیے اسٹیبلشمنٹ نے بنایا تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی جوکہ قبائلی سرداروں اور مقامی بااثر افراد کی جماعت ہے، وہ اُس اتحاد کا بھی حصہ رہی ہے جو اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کی ہائبرڈ حکومت کو سہارا دینے کے لیے بنایا تھا۔

مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اس اتحاد میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) بھی شامل ہوچکی ہے۔ یہ پیش رفت انتخابات کے بعد قائم ہونے والے ممکنہ اتحاد کی نوید سناتی ہے۔ اگرچہ مسلم لیگ (ن) کے لیے اصل محاذ پنجاب ہے جہاں انہیں اپنا مینڈیٹ حاصل کرنے کے لیے مقامی جماعتوں کی حمایت بھی درکار ہوگی۔

استحکامِ پاکستان پارٹی کے نام سے کنگز پارٹی کے قیام نے معاملے میں تجسس کا عنصر شامل کردیا ہے۔ عمران خان کے سابق قریبی ساتھی جہانگیر ترین کی قیادت میں قائم ہونے والی اس جماعت میں پی ٹی آئی کے تقریباً تمام منحرف ارکان شامل ہیں۔

جنوبی پنجاب سے کچھ الیکٹیبلز نے یہ محسوس کرتے ہوئے پارٹی میں شمولیت اختیار کی ہے کہ پی ٹی آئی کا وقت ختم ہوچکا ہے جبکہ بہت سے دوسرے لوگوں نے اپنے بچاؤ کے لیے بھی پارٹی میں شمولیت اختیار کی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ منصوبہ انتخابات میں ’مثبت‘ نتیجہ پیدا کرنے کے لیے سیاسی انجینیئرنگ کا حصہ ہے۔ واضح اشارے ہیں کہ یہ گروپ بالآخر مسلم لیگ (ن) کے حکومتی اتحاد کا حصہ بنے گا۔

حالات دیکھ کر یہی لگ رہا ہے کہ اسٹیج اب مسلم لیگ (ن) کی حکومت یا ان کی قیادت میں اتحادی حکومت کے لیے سج چکا ہے۔ لیکن پی ٹی آئی کے لیے عوامی حمایت کے تناظر میں شاید چیزیں اتنی آسانی سے نہ ہوں جیسی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ کریک ڈاؤن اور پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے کو مکمل طور پر توڑنے کے باوجود پارٹی ختم نہیں ہوئی ہے۔

جیل میں ہونے کے باوجود عمران خان کو بڑی تعداد میں لوگوں کی حمایت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ انتخابات کی اپنی حرکیات ہوتی ہیں جوکہ انتخابات کے قریب صورتحال پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ ممکنہ ردعمل کا خوف ہی شاید وہ وجہ ہے جس کی بنا پر اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے حالیہ ہفتوں میں پی ٹی آئی کے خلاف کریک ڈاؤن کی شدت میں اضافہ ہوا ہے لیکن ووٹوں میں دھاندلی کرنا مشکل ہوگا۔

اس بات میں کوئی تعجب نہیں کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت بھی انتخابی عمل کی شفافیت پر تشویش کا اظہار کررہی ہے۔ انہیں یہ خوف ہے کہ اقتدار کی جنگ میں موجودہ تقسیم پی پی پی کو صرف سندھ تک محدود کرسکتی ہے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ پی پی پی رہنماؤں نے مسلم لیگ (ن) پر تنقید کا سلسلہ تیز کردیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو ایم کیو ایم اور پیر پگاڑا کی گرینڈ ڈیموکریٹک آلائنس کے ساتھ اتحاد قائم کرتا دیکھ کر پی پی پی خبردار ہوگئی ہے۔ جیسے جیسے انتخابات کی تاریخ قریب تر آتی جائے گی، یہ صورتحال مزید خراب ہوتی جائے گی۔

یہ سب جمہوری عمل کے لیے اچھا نہیں ہے۔ ہمارا ملک پہلے سے ہی متعدد چیلنجز کا سامنا کررہا ہے متنازع انتخابات صورتحال کو مزید غیرمستحکم کردیں گے۔

یہ وسیع تر تاثر کہ مسلم لیگ (ن) اسٹیبلشمنٹ کے زیرِ سایہ ہے، اس کی جمہوری ساکھ کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہے۔ وزیراعظم کے طور پر نواز شریف کے ساتھ یا ان کے بغیر بھی پارٹی اقتدار میں آسکتی ہے لیکن منتشر سیاست میں استحکام لانا انتہائی مشکل ہوگا۔

متنازع انتخابات کے ذریعے اقتدار میں آنا پارٹی اور ملک دونوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچائے گا۔ اگلی حکومت کے لیے خود پر ’سلیکٹڈ‘ کا لگا ٹیگ ہٹانا انتہائی دشوار ہوگا۔ اس وقت ملک کسی اور انجینئرڈ سیاسی نظام کا متحمل نہیں ہوسکتا۔


یہ مضمون 22 نومبر 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں