لکھاری، مصنف اور صحافی ہیں۔
لکھاری، مصنف اور صحافی ہیں۔

2023ء ایک ایسا سال تھا جسے شاید کوئی بھی یاد رکھنا نہ چاہے۔ لیکن ایسا ملک جو مختلف بحرانوں کی لپیٹ میں ہے، اس کے لیے مستقبل کیا لے کر آئے گا اس حوالے سے بھی امیدیں نہیں ہیں۔ اختلافِ رائے رکھنے والوں پر ظلم و ستم کے حالیہ الزامات کے ساتھ نئے سال کا اچھا آغاز نہیں ہوا۔ انتخابات میں تقریباً ایک ماہ باقی ہے لیکن انتخابات پہلے ہی چوری ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔

بڑے پیمانے پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے سے انتخابات کی قانونی حیثیت متاثر ہوئی ہے۔ پورا انتخابی عمل داغ دار ہوچکا ہے۔ سابق وفاقی وزیرِخارجہ شاہ محمود قریشی کو پولیس وین میں دھکے دے کر لے جانے کے شرم ناک مناظر پی ٹی آئی کے رہنماؤں پر جاری جبر کی جھلک پیش کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ گویا 8 فروری کے قریب آتے آتے کریک ڈاؤن میں بھی شدت آجائے گی۔

سابق رکنِ قومی اسمبلی اور پی ٹی آئی کے امیدوار جمشید دستی کے خاندان کے ساتھ مبینہ طور پر جو کچھ ہوا ہے، یہ اس دہشت کی ایک اور مثال ہے جو سیاسی مخالفین کو دبانے کے لیے اختیار کی گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے ایک ویڈیو پیغام میں گرفتاری سے بچنے کے لیے مفرور جمشید دستی نے سیکیورٹی اداروں پر ان کے گھر میں توڑ پھوڑ کرنے اور بچوں کے سامنے اہلیہ کو برہنہ کرنے کا الزام عائد کیا۔ البتہ پولیس نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔

اس قسم کا مبینہ ظلم تو فوجی حکمرانوں کے دور میں بھی نہیں دیکھا گیا۔ نئے سال کے آغاز پر یہ پڑھتے ہوئے خوف آتا ہے۔ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا اثر و رسوخ نگران حکومت کی موجودگی میں بڑھتا چلا جارہا ہے۔ سیاسی اسٹیج پر ہونے والا تماشا ملک میں سیاسی استحکام نہیں لا سکتا۔

بات صرف پی ٹی آئی کے امیدواروں کی نہیں ہے۔ اختر مینگل سمیت کئی بلوچ سیاست دانوں کے کاغذاتِ نامزدگی بھی معمولی وجوہات کی بنا پر مسترد کر دیے گئے۔ اس کا بنیادی مقصد پی ٹی آئی اور دیگر سیاسی جماعتوں کو کمزور کرنا ہے جو اسٹیبلشمنٹ کے انتخابی عمل کو چیلنج کرتی ہیں۔ ان حالات میں الیکشن ٹربیونلز کی جانب سے کاغذات نامزدگی مسترد کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دینے کی امید بھی کم ہے۔

اس سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی آزادی اور غیر جانبداری پر سوالات اٹھتے ہیں۔ کمیشن کی جانب سے پی ٹی آئی سے ’بلے‘ کا انتخابی نشان واپس لینے کے فیصلے سے ان الزامات کو تقویت ملتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انتخابی نشان کو بحال کرنے کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی۔

اس سے یہ اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہے کہ پتے کس کے ہاتھ میں ہیں۔ ایسے اقدامات وفاق کو کمزور کریں گے۔ انتخابی بدانتظامی سے انتخابی نظام کی تباہی کا عمل تیز ہوجائے گا۔ پورا سیاسی نظام اس وقت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اپنے ذاتی مفادات کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ چلنے میں مسلم لیگ (ن) اور کچھ دیگر مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں کا کردار بھی اچھا نہیں ہے۔

تاہم اقتدار کے کھیل کی ہماری تاریخ کو دیکھتے ہوئے، اس سیاست سے کوئی حیران نہیں ہوتا۔ بہ ظاہر اقتدار میں واپسی کی یقین دہانی اور ایک بڑے مدمقابل کے محدود ہونے بعد مسلم لیگ (ن) کی قیادت اب مستقبل کی مخلوط حکومت کی تشکیل میں مصروف ہے۔ لیکن پارٹی نے ملک کو درپیش بہت سے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ابھی تک کوئی ٹھوس منصوبہ پیش نہیں کیا ہے۔ پارٹی کا پورا بیانیہ اس کی ماضی کی کارکردگی کے گرد بنایا گیا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے ممکنہ انتخابی امیدواروں کی فہرست میں پرانے چہرے شامل ہیں جن میں شریف خاندان کے افراد کا غلبہ ہے۔

کوئی نیا چہرہ سامنے نہیں آیا جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ پارٹی اپنے ماضی سے باہر نہیں آئی ہے اور تبدیلی کی کوئی امید بھی نہیں ہے۔ پارٹی قیادت کے لیے ان نوجوان ووٹرز کو متحرک کرنا انتہائی مشکل ہوگا جو ووٹنگ لسٹ کا تقریباً 65 فیصد ہیں۔

اس حقیقت کے باوجود کہ پی ٹی آئی کی پہلی اور دوسرے درجے کی قیادت کی اکثریت یا تو سلاخوں کے پیچھے ہے یا زیر عتاب ہے، نوجوانوں میں پی ٹی آئی کی حمایت میں کوئی کمی نظر نہیں آرہی۔ اس کے حامیوں کے خلاف مسلسل کریک ڈاؤن کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے پارٹی کو ’بلے‘ کا انتخابی نشان دینے سے انکار کرنے کے پیچھے بھی یہی وجہ ہے۔ لیکن انتخابی عمل اپنی سیاسی حرکیات پیدا کرتا ہے جس کی وجہ سے نتائج کو مکمل طور پر مینیج کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

یہ ظاہر ہے کہ انتخابی معرکہ کسی پروگرام یا نظریے سے منسلک نہیں بلکہ اقتدار اور جمود کو برقرار رکھنے کے لیے ہے۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ پولنگ میں صرف چند ہفتے باقی رہ گئے ہیں اور مرکزی دھارے کی جماعتیں ابھی تک عوام میں نہیں گئی ہیں۔ پورا بیانیہ ذاتی تنقید پر مبنی ہے اور ان مسائل پر کوئی سنجیدہ بحث نہیں کی جاتی جن سے ملک کے وجود کو خطرہ لاحق ہے۔

ہم نے اب تک جو کچھ دیکھا ہے وہ کچھ عوامی نعرے اور ناقابل حصول وعدے ہیں۔ درحقیقت بڑی سیاسی جماعتوں میں مسائل کی سنگینی کا کوئی ادراک نہیں ہے۔ بگڑتی ہوئی معاشی حالت، بڑھتے عدم مساوات، موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات اور آبادی میں اضافے جیسے مسائل ان کی گفتگو میں بھی شامل نہیں ہیں۔

دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر بات تک نہیں ہورہی۔ ان سیاسی جماعتوں نے طویل عرصے سے قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے معاملات فوج پر چھوڑ رکھے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ملک خود کو ایک جہتی راستے پر پاتا۔

سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ اب ہمارے اقتدار کے ڈھانچے میں گہرائی سے جڑی ہوئی ہے، ایسے میں سویلین کنٹرول کے آثار نہیں۔ اس بات کا خدشہ ہے کہ سویلین سیاسی طاقت میں انتشار مزید عدم استحکام کو ہوا دے سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ایسا نظام بڑے گورننس اور معاشی مسائل کو حل نہیں کر سکتا۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ فوجی حمایت یافتہ نظام میں مستقبل کی سویلین انتظامیہ کتنی طاقت حاصل کر سکتی ہے۔

طاقت کا کھلا کھیل اور ہیر پھیر کے انتخابات ملک کو مزید دلدل میں دھکیل دیں گے۔ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے ہی صورتحال پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ آنے والے طوفان کی سنگینی کے حوالے سے بہت کم لوگوں کو آگہی ہے۔


یہ مضمون 3 جنوری 2024ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں