صبح ہوئی۔۔۔ ارے پریشان مت ہوں ہم آپ کو اسکول کی اردو کتاب کا وہ سبق نہیں پڑھا رہے، ’صبح ہوئی دادی اماں نے مرغی کا دڑبا کھولا، مرغی کٹ کٹ کرتی باہر نکلی، اس کے پیچھے سب بچے بھی نکل آئے‘۔ بلکہ ہم سرے سے کوئی سبق پڑھا ہی نہیں رہے، نہ ہی ہماری اس تحریر سے آپ کو کوئی سبق ملے گا۔ یوں بھی سبق پڑھانے کا کوئی فائدہ نہیں، ہمارے ہاں بس سبق سکھانے کے نتائج برآمد ہوتے ہیں خاص طور پر من مانے انتخابی نتائج! لیکن ایسا ضروری بھی نہیں۔

بھئی دادی اماں کے اختیار میں دڑبا کھولنا تو ہے لیکن ممکن ہے دڑبے سے نکلنے والے چوزے ہاتھ سے بھی نکل جائیں اور دادی اماں کا ڈالا ہوا دانا کھانے سے انکار کرکے اپنا کوئی من بھاتا کھاجا کھانے لگیں۔ دادی اماں جانیں اور چوزے جانیں، ہم تو انتخابات کے دن کا احوال لکھنے بیٹھے ہیں۔ جو ہم نے تصور کی آنکھ سے دیکھا، آئیے آپ بھی دیکھیے۔

صبح ہوئی، بابو بھائی کی بیگم نے بھاڑ سا منہ کھولا اور جماہی لی۔ اس کے ساتھ ہی جاگنے کی وبا چھوت کی طرح پورے گھر میں پھیل گئی۔ ننھے نے روکر جاگنے کا اعلان کیا اور بابو بھائی نے جھوم کر ایک بھیانک سی انگڑائی لی۔ دیکھنے والی آنکھ جاننے سے قاصر رہی کہ وہ انگڑائی لے کر اٹھے یا اٹھ کر انگڑائی فرمائی۔ دورانِ انگڑائی انہوں نے ہاتھوں، گردن اور کمر کی طرح بل کھر نکلنے والے مڑی تُڑی آواز میں بیگم سے پوچھا، ’آج غ غ غ تاریخ آآآ غوں غوں غوں غیا ہے؟‘ میاں کی طرح بیوی بھی سیاست سے رغبت رکھتی ہیں، چوہدری شجاعت کے انٹرویو دیکھتی رہی ہیں، اس لیے میاں کی بات فوری سمجھ گئیں اور ترنت جواب دیا، ’آٹھ فروری‘۔ بابو بھائی کا اگلا سوال تھا، ’اووووں، اچھا آج الیکشن ہونا ہیں ناں، کیا خیال ہے الیکشن ہوں گے؟‘ آخر ٹی وی کھول کر انتخابات ہونے کی تصدیق کی گئی۔

ٹی وی دیکھا تو انتخابات ہونے کی تصدیق ہوئی
ٹی وی دیکھا تو انتخابات ہونے کی تصدیق ہوئی

’سُنیے، آج وہ کرلیجیے گا جو کہا تھا، ننھے کے پوتڑے ختم ہوگئے ہیں‘۔ بیگم بابو بھائی نے اپنے شیرخوار کا بھیگا پوتڑا تبدیل کرتے کرتے کھڑکی سے باہر پھڑپڑاتے بینر کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہوئے یاد دلایا۔ بینر پر لکھا تھا،’اپنی نسل نو کی خاطر آزاد امیدوار محبوب دلبرجانی کو ووٹ دیجیے‘۔

ناشتہ کرکے بابو بھائی گھر سے نکلے۔ وہ بابو بھائی تھے چوہے تو تھے نہیں کہ شکار کرنے نکلتے، خیر ہمارے ہاں چوہے تو چوہے شیر بھی شکار کرنے کے بجائے کوشش کرتے ہیں کہ پَکّے پکائے پَھجّے کے پائے مل جائیں۔ بہرحال ذکر چوہے یا شیر کا نہیں بابو بھائی کا ہے جو ووٹ ڈالنے نکلے۔ راستے میں اچھن بھیا مل گئے۔ سلام دعا کے بعد جھٹ سے پوچھا، ’انتخابات ہورہے ہیں؟ ملتوی تو نہیں ہوگئے؟‘ اچھن بھیا نے بے یقینی سے جواب دیا، ’کل رات تک تو طے تھا کہ ہورہے ہیں، پھر بھی کچھ نہیں کہہ سکتے، چل کر دیکھ لیتے ہیں۔ اگر اطمینان بخش انتظامات کرلیے گئے ہیں تو انتخابات ہوجائیں گے‘۔

’انتخابات ہورہے ہیں؟ ملتوی تو نہیں ہوگئے؟‘
’انتخابات ہورہے ہیں؟ ملتوی تو نہیں ہوگئے؟‘

’اطمینان بخش انتظامات! کیا مطلب؟‘

’جنہیں نہیں بخشنا انہیں اقتدار نہ بخشنے کے انتظامات تاکہ انتخابات کے بعد بات بن جائے، بات کا بتنگڑ نہ بنے۔ آئی بات سمجھ میں؟‘ اچھن بھیا نے بابو بھائی کے شانے پر ہاتھ رکھ کر سمجھایا۔

آخرکار دونوں پولنگ اسٹیشن پہنچ گئے اور قطار میں جالگے۔ بابو بھائی کو اپنے آگے کھڑے صاحب شناسا لگے، غور کیا تو پہچان گئے اور بولے، ’ارے اسرار صاحب آپ! کسی نے خبر اُڑا دی تھی کہ آپ وفات پاچکے ہیں‘۔

اسرارصاحب کے انتخابی ماحول سے سرد اور بعض صحافیوں کی صحافت جیسے زرد چہرے پر مسکراہٹ ابھری، پلٹے اور بابوبھائی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب دیا، ’آپ نے صحیح سُنا تھا۔ جس قبرستان میں دفن تھا اب تو وہاں پلاٹنگ بھی ہوچکی ہے‘۔

یہ سُنتے ہی بابو بھائی کی گھگھی بندھ گئی، وہ بے ہوش ہونے یا بھاگ لینے کی درمیانی پوزیشن میں معلق تھے کہ اسرارصاحب نے اپنے ٹھنڈے ہاتھ ان کے شانوں پر رکھ دیے، ’ارے ڈرتے کیوں ہیں صاحب! اس قطار میں آپ کے آگے اور پیچھے نصف تعداد میں ہمارے مردہ بھائی کھڑے ہیں۔ ہم تو ہر انتخابات میں بلائے جاتے ہیں، ووٹ دیتے اور چلے جاتے ہیں، مجال ہے کبھی کسی کو نقصان پہنچایا ہو۔ اس بار ہم زیادہ تعداد میں لائے گئے ہیں۔ عالم ارواح اور پاکستان کے ایک ایک قبرستان میں اعلان کیا گیا تھا کہ 2013ء سے پہلے والے مردے تیار رہیں، آٹھ فروری کو ووٹ دینے جانا ہے‘۔

’عالم ارواح میں اعلان کیا گیا کہ مردوں کو ووٹ دینے جاتا ہے‘
’عالم ارواح میں اعلان کیا گیا کہ مردوں کو ووٹ دینے جاتا ہے‘

مرحوم کے اپنائیت بھرے اور بے تکلفانہ لہجے کے باعث بابو بھائی سنبھل گئے اور گھبرانے، ہکلانے، ڈگمگانے اور منمنانے کے بعد خود پر قابو پاکر گویا ہوئے، ’2013ء سے پہلے والے مردے ہی کیوں؟‘

جواب ملا، ’دراصل اس سَن کے بعد مرنے والے اپنی بعداز مرگ زندگی کے ماہ وسال کے حساب سے ’مُردہ یوتھ‘ ہیں اور ان کے بارے میں خدشہ ہے کہ وہ جیتے جی کسی ایسے پر نہ مرمٹے ہوں جسے 2013ء میں روح پھونک کر اور ہوا بھر کر زندگی دی گئی تھی‘۔

’کس نے دی تھی؟‘ فوراً ہی بابو بھائی اپنے بے ساختہ پوچھے گئے بے تکے سوال پر بے پناہ شرمندہ ہوگئے۔

’کہیے تو نام لے دوں؟‘ اسرارصاحب نے اپنے سفیدی لیے ہونٹوں میں مسکراتے ہوئے پوچھا۔

’نہیں نہیں آپ کا کیا ہے، آپ کو نہ لاپتا ہونے کا خطرہ نہ جان جانے کا ڈر، نہ ہی ویڈیو بن جانے کی فکر‘، بابو بھائی گھبراکر بولے۔

’آپ 2018ء کے انتخابات میں بھی آئے ہوں گے، تب تو نظر نہیں آئے!‘ انہوں نے ایک اور سوال داغا۔

’بالکل آئے تھے۔ جب تو نیا پاکستان بنانے بڑے جوش وخروش سے آئے تھے لیکن تب حکم تھا کہ ووٹ کو عزت دو چنانچہ دکھائی مت دو، انتخابات کی صبح ہماری آمد ہوئی تھی اور جیسے ہی آر ٹی ایس بیٹھا ہم پھر دنیا سے اٹھ گئے‘۔

باتوں میں پتا ہی نہیں چلا اور بابو بھائی کے ووٹ دینے کی باری آگئی۔ اب وہ پولنگ کے عملے کے سامنے کھڑے اپنی شناخت کروارہے تھے۔

پولنگ عملے کے رکن نے ان کا شناختی کارڈ ہاتھ میں لیا، دیکھا، چونکا، بابو بھائی کو گھورا اور شناختی کارڈ سرگوشی کرتے ہوئے دوسرے رکن کو پکڑا دیا۔ اس نے بھی یہ سب حرکتیں دہرائیں اور کارڈ آگے بڑھا دیا، ہوتے ہوتے شناختی کارڈ پولنگ عملے کے بڑے صاحب کے ہاتھوں میں جاپہنچا جنہوں نے تاریخ پیدائش پر انگلی رکھی اور کھا جانے والے لہجے میں بولے، ’9 مئی اس روز دنیا میں آتے آپ کو شرم نہیں آئی۔ اس دن ملک اتنے بڑے سانحے سے دوچار تھا اور آپ ننگے پتنگے پیدا ہورہے تھے، ننگ ملت، ننگ دیں ننگ وطن!‘

بابو بھائی شناخت کروانے گئے تو تمام پولنگ عملے نے ان کے شناختی کارڈ کو بغور دیکھا
بابو بھائی شناخت کروانے گئے تو تمام پولنگ عملے نے ان کے شناختی کارڈ کو بغور دیکھا

’حضور! آپ کو ہمارے اس تاریخ کو پیدا ہونے پر اعتراض ہے، ننگے پیدا ہونے پر یا اس پر کہ ہم پیدا ہی کیوں ہوئے؟‘

’میں آپ کے فضول سوالوں کا جواب دینے کا پابند نہیں۔ میں تو بس یہ جانتا ہوں کہ 9 مئی کو جو ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا اور اس کی مذمت کرنی ہے اور آپ 9 مئی کو ہوئے‘۔

’سرکار! تاریخ کے ساتھ ایک نظر سال بھی دیکھ لیجیے۔ اگر ہم 9 مئی2023ء کو تولد ہوتے تو اتنی جلدی اتنے بڑے کیسے ہوسکتے تھے؟ ہم آدمی ہیں کوئی ق لیگ اور استحکام پاکستان پارٹی تھوڑی ہیں کہ ادھر پیدائش ہوئی ادھر پالنے ہی میں پڑے پڑے بڑے ہوگئے اوپر کا دودھ پی کر۔ ویسے ہم نے جنم لیتے ہی رو کر سانحہ 9 مئی کی قبل ازوقت مذمت کردی تھی‘، بابو بھائی نے بڑی لجاجت سے کہا۔

’اوہ اچھا لیکن ایک مسئلہ تو ہے ناں۔ آپ اپنی سالگرہ ہر 9 مئی کو مناتے ہوں گے، کیک کاٹتے ہوں گے، موم بتیاں جلاتے اور اہل خانہ کے ساتھ مل کر ہیپی برتھ ڈے گاتے ہوں گےآپ کو غیرت نہیں آئے گی ایسا کرتے ہوئے؟‘ پولنگ افسر کا پارہ دوبارہ چڑھنے لگا۔

’ارے جناب! سالگرہ ہم مناتے ہی نہیں لیکن آپ نے اب غیرت جگادی ہے تو اسے سونے نہیں دیں گے تھپڑ، لاتیں، گھونسے مار مار کر جگائے رکھیں گے۔ ہر سال نو مئی کو یوم مذمت منائیں گے اور ہیپی برتھ ڈے کی جگہ کسی طرح بھی حلق سے نورجہاں کی آواز نکال کر میرے یا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھا گایا کریں گے‘۔

بابو بھائی کی یہ باتیں سن کر پولنگ اسٹیشن کا سردار خوش ہوا، انہیں شاباشی دی۔

بابو بھائی نے اطمینان کا سانس لے کر عرض کیا، ’شاباشی کے ساتھ ووٹ کی پرچی بھی دے دیں‘۔

’ایسے کیسے دے دیں، آپ نے سنا نہیں، دن رات بتایا جاتا ہے، ووٹ قوم کی امانت ہے، پوری قوم کی امانت کسی ایک فرد کو کیسے سونپی جاسکتی ہے بھلا؟‘

’دن رات بتایا جاتا ہے، ووٹ قوم کی امانت ہے‘
’دن رات بتایا جاتا ہے، ووٹ قوم کی امانت ہے‘

پولنگ افسر نے تیوری پر بل ڈالتے ہوئے بابو بھائی کو یوں دیکھا کہ انہیں ووٹ ڈالنے کی اپنی خواہش ’ڈالے‘ میں پڑے کسی بے کس کی طرح نظر آنے لگی۔

’اللہ آپ کا بھلا کرے، آپ نے تو ہماری آنکھیں کھول دیں، ہمیں شدت سے احساس ہورہا ہے کہ ہم نے بلاجواز یہاں آکر آپ کو بلاوجہ زحمت دی‘۔ انہوں نے روہانسے لہجے میں شرمندگی کا اظہار کیا۔

’ارے نہیں بھئی، آپ کا آنا بالکل بھی بلاجواز نہیں، بلکہ آپ کا آنا تو اس ڈبے میں ووٹوں کے پائے جانے کا جواز ہے۔ آپ اتنی دور آئے، قطار میں لگے، انتظار کیا، اب آپ کا اتنا حق تو بنتا ہے کہ ہم سرکاری ملازم، عوام کے خادم، آپ کی تکلیف پر نادم، آپ کو کم از کم ووٹ کی پرچی پر ٹَھپّا لگانے کی زحمت سے بچالیں، ہے کہ نہیں، تو یہ لگایا ہم نے ٹَھپّا، یہ کیا تہہ، یہ حوالے کیا آپ کے، اب جائیے اسے ڈبے میں ڈال دیجیے، اور یاد رکھیے ووٹ ڈالنا آپ کی ذمے داری ہے ٹَھپّا لگانا نہیں‘۔

بابو بھائی نے ہدایت پر من وعن عمل کیا اور انگلی پر سیاہی لگواکر گھر کی راہ لی۔ واپسی کے سفر میں نہ جانے کیوں وہ بار بار انگلی میں لگی سیاہی، پھر راستے میں کھڑی گاڑیوں کے شیشے میں اپنا منہ بغور دیکھتے رہے۔

تبصرے (0) بند ہیں