سپریم جوڈیشل کونسل سابق جج کیخلاف کارروائی نہیں کر سکتی، فیض حمید، عرفان رامے

15 فروری 2024
دونوں سابق فوجی افسران نے اپنے وکیل خواجہ حارث احمد کے توسط سے  23 صفحات پر مشتمل اپنا مختصر بیان جمع کرایا—فوٹو:ڈان نیوز
دونوں سابق فوجی افسران نے اپنے وکیل خواجہ حارث احمد کے توسط سے 23 صفحات پر مشتمل اپنا مختصر بیان جمع کرایا—فوٹو:ڈان نیوز

انٹر سروس انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید، بریگیڈیئر (ر) عرفان رامے نے شوکت عزیز صدیقی کیس میں اپنا جواب جمع کرادیا جس میں سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے والے یا ریٹائر ہونے والے ججوں کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی جاری رکھنے کی آئین میں گنجائش نہیں ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دونوں سابق فوجی افسران نے اپنے وکیل خواجہ حارث احمد کے توسط سے 23 صفحات پر مشتمل اپنا مختصر بیان جمع کرایا۔

انہوں نے اپنے جواب میں استدلال کیا کہ آئین کی کوئی بھی شق جو سپریم جوڈیشل کونسل کو کسی ریٹائرڈ جج کے خلاف کارروائی کا کوئی اختیار، فرض یا ذمہ داری دیتی ہے وہ نہ صرف آئینی شقوں کی خلاف ورزی ہے بلکہ وہ آئین کو دوبارہ لکھنے کے مترادف ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 ججوں پر مشتمل بینچ نے 23 جنوری کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کی سپریم جوڈیشل کونسل کے فیصلے اور 11 اکتوبر 2018 کے اس نوٹیفکیشن کے خلاف اپیل پر اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا جس کے تحت انہیں ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی میں 21 جولائی 2018 کو تقریر کرنے پر عدالت عالیہ کے جج کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔

اپنی تقریر میں سابق جج شوکت عزیز صدیقی نے ریاستی ادارے کے بعض بالخصوص آئی ایس آئی کے افسران کے عدلیہ سے متعلق معاملات میں ملوث ہونے اور ہائی کورٹ کے بینچوں کی تشکیل میں مبینہ طور پر کردار ادا کرنے کے خلاف بیانات دیے تھے۔

سپریم جوڈیشل کونسل نے اپنی سفارشات میں کہا تھا کہ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی میں تقریر کرتے ہوئے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے نہ صرف ضابطہ اخلاق کی کچھ شقوں کی واضح خلاف ورزی کی بلکہ بطور جج مقررہ ضابطہ اخلاق کو بھی پامال کیا۔

سماعت کو مکمل کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے مختلف مدعا علیہان کی نمائندگی کرنے والے وکلا سے رائے بھی طلب کی تھی تاکہ اس بات کا تعین کیا جا سکے کہ کیا سپریم جوڈیشل کونسل نے شوکت عزیز صدیقی کو ان کے عہدے سے ہٹانے کی سفارش کرنے سے قبل کوئی انکوائری کی تھی۔

اب فوجی افسران کی جانب سے جمع کرائےگئے مختصر بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر آئین بنانے والے اراکین اسمبلی کی منشا ججوں کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی جاری رکھنے کی ہوتی تو وہ ایسا کرنے کا طریقہ کار طے کرتے اور اس مقصد کے حصول کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کو اختیارات بھی دیتے۔

بیان میں استدلال کیا گیا ہے کہ جیسے ہی جج کا عہدہ ختم ہو جاتا ہے، اس کے خلاف کارروائی شروع کرنے یا جاری رکھنے کا پورا مقصد ہی کالعدم ہو جاتا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کا سامنا کرنے والا جج اگر آرٹیکل 195 کے مطابق ریٹائر ہو جاتا ہے تو اس کے خلاف آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی جاری رکھنا آئین کی خلاف ورزی ہو گی۔

بیان میں وضاحت کی گئی ہے کہ درخواست گزار جج سے واضح طور پر کہا گیا کہ وہ اپنے ان سنگین الزام کی حمایت میں جو انہوں نے 21 جولائی 2018 کو ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی سے اپنے خطاب کے دوران لگائے تھے ثبوت فراہم کریں تو درخواست گزار مبینہ طور پر کوئی شواہد فراہم کرنے میں بری طرح ناکام رہے اور ان کا ابتدائی جواب ثابت کرتا ہے کہ ان کے پاس اپنے الزامات کی حمایت میں کوئی مواد یا ثبوت نہیں ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے درخواست گزار کی تقریر کا جائزہ لیا اور اپنی متفقہ رائے میں اس نے قرار دیا کہ تقریر کرتے ہوئے درخواست گزار نے ہائی کورٹ کے جج کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی۔

تبصرے (0) بند ہیں