وکٹوریہ میوزیم کی تلاش - 2
فرئیر کا وکٹوریہ میوزیم، جناح کا اسٹیٹ بینک اور آج کا کراچی سپریم کورٹ -- فوٹو -- اختر بلوچ
is blog ko Hindi-Urdu mein sunne ke liye play ka button click karen [soundcloud url="http://api.soundcloud.com/tracks/110042531" params="" width=" 100%" height="166" iframe="true" /]
محمودہ رضویہ اپنی کتاب ‘ملکہ مشرق’ مطبوعہ 1947 میں لکھتی ہیں کہ برنس گارڈن میں عجائب گھر ہے۔ جو کہ جنگ کی وجہ سے فریئر ہال منتقل کر دیا گیا تھا۔ عجائب گھر میں ہر مردہ جانور دوائیں لگا کر رکھا گیا ہے۔ موئن جو دڑو سے دستیاب چیزیں بھی یہاں موجود ہیں۔ ہند اور بیرون ہند کے رہنے والوں کے مجسمے اور دنیا بھر کے مشاہیر کی تصاویر اور دو انسانی ڈھانچے بھی رکھے ہیں۔ یہ سب تو اپنی جگہ ٹھیک۔ محبوب واپس ملتان چلے گئے، لیکن ہمارے ذہن میں یہ سوال چھوڑ گئے کہ آخر وکٹوریہ میوزیم گیا کہاں؟ یہ اس بلاگ کا دوسرا حصّہ ہے، پہلے حصّے کے لئے کلک کریں
ہمارے ایک دوست اعجاز صاحب سے جب ہم نے اس سلسلے میں بات کی تو انھوں نے کہا کہ "سونے" کی تجارت کرنے والی ایک معروف کمپنی جس کا اپنا ایک نجی ٹی وی چینل بھی ہے، اپنے مرکزی دفتر کا پتہ اشتہارات میں زیب النساء سٹریٹ بالمقابل میوزیم بلڈنگ بتاتی ہے۔ ہم زیب النساء اسٹریٹ پہنچے۔ وہاں ایک قدیم عمارت پر کمپنی کا بوڑڈ لگا تھا۔ اعجاز صاحب کا خیال تھا کہ غالباََ یہی میوزیم بلڈنگ ہوگی۔ ہم نے انھیں یاد دلایا کہ پتے میں بالمقابل کہا جاتا ہے۔ انھوں نے میری بات سے اتفاق کیا۔ عمارت کے بالمقابل آئیڈیل لائف انشورنس کارپوریشن کی عمارت تھی۔ یہ عمارت دیکھتے دیکھتے ہم گلی میں داخل ہوگئے۔ گلی میں ایک اور قدیم عمارت کے آثار نمایاں تھے۔ اس پر ایک پرانا خستہ حال بورڈ لگا ہوا تھا جس پر فرنیچر مارٹ تحریر تھا۔ یہاں سے مایوس ہوکر ہم مذکورہ سونا بیچنے والی کمپنی کے دفتر پہنچے۔ وہاں پر ایک صاحب نے بتایا کہ یہ پتہ ان کے پرانے دفتر کا پتہ ہے۔ جو زیب النساء اسٹریٹ پر کپڑے کی ایک مشہوردکان کے بالمقابل ہے۔ وہاں سے نکل کر ہم کپڑے کی دکان پہنچے۔ دکان مالک نے بتایا کہ یہاں میوزیم کی کوئی بلڈنگ نہیں تھی۔ ہاں البتہ اس عمارت میں کپڑے کی ایک دکان تھی جس کا نام پاک میوزیم کلاتھ ہاؤس تھا جو عرصہ ہوا بند ہو گئی ہے۔ اس کی تصدیق آس پاس کے دو ایک دکانداروں نے بھی کی۔ ہم نے نئے سرے سے وکٹوریہ میوزیم کی تلاش شروع کی۔ ایس ایف مرکاہم اپنی کتاب دی میوزیمز آف انڈیا' مطبوعہ 1936 میں وکٹوریہ میوزیم کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ موسم گرما میں میوزیم کے اوقات کار 8 بجے صبح سے 11:30 بجے اور شام 3 بجے سے 6 بجے تک ہوتے تھے جبکہ سردیوں میں 9 بجے صبح سے 12 بجے اور شام 3 بجے 6:30 تک ہوتے تھے۔ جمعہ کا دن "پردہ نشین" خواتین اور 12 سال تک کی عمر کے بچوں کے لیے مخصوص ہوتا تھا۔ میوزیم کی بنیاد 1851 میں سر بارٹل فریر نے رکھی۔ 1870 میں میوزیم کا انتظام بمبئ حکومت سے لے کراچی میونسپل کارپوریشن کے حوالے کر دیا گیا۔ 1928 کو تعمیر ہونے والی عمارت کی ذمّہ داری بھی اس کے ذمے تھی۔ مزید لکھتے ہیں کہ میوزیم برنس گارڈن میں واقع ہے۔ مرکزی ہال کے علاوہ تین کمرے اور اس کے ساتھ راہداریاں بھی ہیں۔ ان کا رقبہ 15000 فٹ ہے۔ نیشنل میوزیم آف پاکستان کے بارے میں 1970 میں مطبوعہ ایک کتابچے کے مصنف ایس اے نقوی لکھتے ہیں کہ نیشنل میوزیم آف پاکستان کراچی کے دل میں واقع ہے۔ جہاں شہر کے تمام علاقوں سے لوگ پہنچ سکتے ہیں۔ احاطے میں پہلے برنس گارڈن نامی ایک عوامی تفریحی پارک ہے۔ میوزیم جس مقام پر موجود ہے وہ انجل اور اسٹریچن سڑکوں، شاہراہ کمال اتاترک اور کچہری سڑک کے سنگم کے بعد ایک چوراہے میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ عوام کے لیے مرکزی دروازہ شاہراہ کمال اتاترک کی طرف واقع ہے۔ میوزیم میں بالغ افراد کے داخلے کی فیس 12 پیسے اور 12 سال سے کم عمر کے بچوں کی داخلہ فیس 6 پیسے ہے۔ ہفتے کے دن میوزیم میں داخلہ مفت ہے۔ ہمارے ایک صحافی دوست اشرف سولنگی جو ہمارے بلاگ باقاعدگی سے پڑھتے ہیں نے مشورہ دیا کہ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری کی عمارت بھی ایک قدیم عمارت ہے۔ اس پر بھی آپ کو کچھ لکھنا چاہیے۔ میں نے ہامی بھر لی۔ اچانک میرے دل میں یہ خیال آیا کہ سپریم کورٹ کی عمارت بھی تو برنس گارڈن سے متصل ہے۔ ہو سکتا ہے وہاں سے کوئی معلومات مل جائیں۔
پاکستان کے پہلے اسٹیٹ بینک کی یادگاری تختی -- فوٹو -- اختر بلوچ --. اگلے دن ہم اشرف سولنگی کے ساتھ سپریم کورٹ کراچی جا پہنچے۔ جہاں ہم نے اسسٹنٹ رجسٹرار شمس فاروقی سے ملاقات کی تو انھوں نے کہا کہ اس بارے میں انہیں کوئی معلومات نہیں کہ یہ عمارت کتنی قدیم ہے۔ ہاں مگر وہ یہ جانتے ہیں کہ قیام پاکستان کے بعد اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا افتتاح قائدآعظم محمد علی جناح نے اسی عمارت میں کیا تھا۔ فاروقی صاحب کا کہنا تھا کہ عمارت کی تاریخ کے بارے میں وہ کئی بار اسٹیٹ بینک لکھ چکے ہیں لیکن وہاں سے کوئی جواب نہیں آیا۔ سپریم کورٹ کی عمارت سے باہر نکلتے ہوئے ہم نے اپنے دوست اعجاز کو فون پر پوری صورتحال سے آگاہ کیا۔ انھوں نے کہا کمال کرتے ہیں آپ، یہی تو وکٹوریہ میوزیم ہے! جب ہم نے کہا کہ پہلے تو آپ اسے زیب النساء اسٹریٹ پر بتا رہے تھے تو انہوں نے کہا وہ تو میں اس حوالے سے کہہ رہا تھا کہ شاید چارلس نیپئر نے جو چیزیں جمع کیں تھیں وہ وہیں کہیں کسی عمارت میں رکھی ہونگی۔ قصہ مختصر ہندی کی ایک مثل ہے؛ 'مایا تیرے تین نام پرسو، پرسا، پرس رام'۔ وکٹوریہ میوزیم کی بلڈنگ کے ساتھ بھی غالباََ یہی ہوا۔ یہ پہلے وکٹوریہ میوزیم تھی، پھر اسٹیٹ بینک بنی پھر کراچی واٹر بورڈ کا دفتر اور اب سپریم کورٹ کراچی رجسٹری ہے۔ اس کے احاطے میں ایک چھوٹی سی خوبصورت مسجد بھی بنا دی گئی ہے جس کا مینار وکٹوریہ میوزیم کے گنبد سے اونچا ہے۔
سپریم کورٹ کراچی کے احاطے میں واقع مسجد -- فوٹو -- اختر بلوچ --. وکٹوریہ میوزیم کی بلڈنگ کے ساتھ بھی غالباََ یہی ہوا۔ یہ پہلے وکٹوریہ میوزیم تھی، پھر اسٹیٹ بینک بنی پھر کراچی واٹر بورڈ کا دفتر اور اب سپریم کورٹ کراچی رجسٹری ہے۔ اس کے احاطے میں ایک چھوٹی سی خوبصورت مسجد بھی بنا دی گئی ہے جس کا مینار وکٹوریہ میوزیم کے گنبد سے اونچا ہے۔
اختر حسین بلوچ سینئر صحافی، مصنف اور محقق ہیں. سماجیات ان کا خاص موضوع ہے جس پر ان کی کئی کتابیں شایع ہوچکی ہیں. آجکل ہیومن رائٹس کمیشن، پاکستان کے کونسل ممبر کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں












لائیو ٹی وی
تبصرے (20) بند ہیں