لکھاری کراچی میں مقیم محقق ہیں۔
لکھاری کراچی میں مقیم محقق ہیں۔

گزشتہ چند ماہ سے کراچی ڈکیتی، لوٹ مار اور قتل جیسے سفاکانہ اسٹریٹ کرائمز کی لپیٹ میں ہے۔ ڈکیتی مزاحمت کے نتیجے میں سید تراب حسین زیدی کا قتل اسٹریٹ کرائمز کی سنگینی کی ایک دردناک مثال ہے۔ حالات اس نہج ہر پہنچ چکے ہیں کہ اب عبادت گاہیں تک محفوظ نہیں۔ حال ہی میں کراچی کے علاقے کریم آباد میں واقع ایک مسجد میں تین نمازیوں سے ایک ڈاکو نے نقدی اور دیگر قیمتی سامان لوٹ لیا۔

ایک جانب جہاں اپوزیشن جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی کی کارکردگی پر تنقید کررہی ہیں وہیں حکام سابق نگران سیٹ اپ اور متعدد اسٹیک ہولڈرز پر الزام لگا رہے ہیں جن کی وجہ سے پولیس اور متعلقہ انتظامیہ پر سے عوام کا اعتماد ختم ہوچکا ہے۔

ڈان میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق 2022ء سے 2024ء کے درمیان اسٹریٹ کرائمز کے نتیجے میں 250 سے زائد افراد جاں بحق جبکہ ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ لوٹ مار کے واقعات کا اندھا دھند سلسلہ جاری ہے۔ کال سینٹرز اور رات کی شفٹ کرنے والے ملازمین، طلبہ، گھریلو ملازمین سے لےکر مولویوں تک، دکانداروں سے ریڑھی بانوں تک، کوئی بھی اسٹریٹ کرائمز کے بے قابو جن سے محفوظ نہیں۔ پُرتشدد حالات میں خطرناک حد تک اضافہ تشویش ناک ہے اور صوبائی حکومت کو اس کا حل تلاش کرنا اپنی اولین ترجیح بنانا چاہیے۔

تاہم صوبائی انتظامیہ اب بھی پُرامید ہے کہ کراچی سیف سٹی پروجیکٹ اور اس جیسے دیگر اقدامات پر عمل کرکے صورتحال پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اربوں روپے لاگت کے اس منصوبے کا مقصد شہر میں سی سی ٹی وی اور دیگر نگرانی کے آلات لگا کر سڑکوں اور گلیوں کو محفوظ بنانا ہے۔ اگرچہ یہ ایک درست قدم ہے لیکن اصل تشویش کیمروں میں وارداتیں ہوتے دیکھنا نہیں بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے جرائم کے خلاف فوری اور باصلاحیت انداز میں کارروائی کرنا ہے۔

اس ناکام اسکیم پر انحصار کرنے کے بجائے حکام کو پولیس اہلکاروں کی تربیت اور ان کی فٹنس پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ محکمہ میں بھرتی کے لیے اعلیٰ معیارات مقرر کرنے چاہیے اور چند مخصوص حلقوں کو خوش کرنے کے لیے ’سیاسی سفارشوں‘ کے سلسلے کو ختم کرنا چاہیے۔

یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ شہرِ کراچی میں 10 ہزار کلومیٹر سے زائد کی سڑکیں اور گلیاں ہیں۔ ان کے ساتھ ساتھ دیگر عوامی مقامات جیسے بس ٹرمینلز، پارکس، کھیل کے میدان، پیدل چلنے والوں کے لیے پُل، پارکنگ لاٹ، مارکیٹس وغیرہ پر بھی چوکس نگرانی کی ضرورت ہے۔ اس عدد میں شہر کی گنجان شہری آبادیوں میں سروس روڈ اور بند گلیاں شامل نہیں۔

ان وسیع مقامات کی نگرانی کے لیے زیادہ جدید حکمتِ عملیوں کی ضرورت ہے جس کا آغاز قانون نافذ کرنے والے اداروں کی موجودہ حالت کا جائزہ لینے اور اسے جدید ضروریات کے مطابق بنانا چاہیے۔ مثال کے طور پر ٹریفک پولیس شاذ و نادر ہی قانون کی خلاف ورزی کرنے والی بڑی اور مہنگی گاڑیوں کو پکڑتی ہے لیکن ٹریفک چالان کی فہرست کے لیے چھوٹی گاڑیوں پر فوری جھپٹ پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ کالے شیشوں والی گاڑیاں اور بڑی جیپیں جن کے پشت پر بندوق بردار پرائیویٹ گارڈز بیٹھے ہوتے ہیں، وہ ٹریفک سگنلز اور قانون کی دھجیاں اڑاتے نظر آتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ لوگ مجبور ہیں کہ وہ اپنی حفاطت خود کریں۔ بہت سے محلوں میں بیریئرز (رکاوٹیں) اور سیکیورٹی اہلکاروں کو بٹھا کر اپنی گلیاں بند کردی گئی ہیں۔ اگرچہ قانون یوں سڑکوں تک عوام کی رسائی روکنے کی اجازت نہیں دیتا لیکن رہائشیوں کو اپنی حفاظت کے لیے یہی واحد حل نظر آتا ہے۔ یہ سب جانتے ہیں کہ ایک دہائی پہلے تک جب شہر سیاسی خونریزی کی لپیٹ میں تھا، تب ایسی رکاوٹیں لگانا عام تھا۔ 2014ء کے کراچی آپریشن سے عوام کو کچھ ریلیف ملا لیکن اس کے فوراً بعد ہی صورتحال مزید خراب ہوگئی۔

شہر کے منظرنامے میں گیٹڈ کمیونٹیز اور گلیوں کا تصور ایک بار پھر سر اٹھا رہا ہے کیونکہ متعدد لوگوں کے نزدیک ایسے اقدامات سے پُرتشدد واقعات کو کچھ حد تک روکا جاسکتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ان اقدامات کے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے کیونکہ لوگوں کی آمدورفت کو ایک جگہ تک محدود نہیں رکھا جاسکتا۔ انہیں اپنے دفتر اور متعدد دیگر کاموں کے لیے اپنے محلوں سے باہر نکالنا ہوگا۔ ایسے میں امن و امان کی نازک صورتحال ان کے لیے باعثِ تشویش ہے۔

اس کے علاوہ محلوں میں بیریئرز لگانے سے غریب افراد کو نقصان ہورہا ہے۔ میری جانب سے چند سال پہلے کی گئی ایک تحقیق میں انکشاف ہوا کہ بیریئرز اور دیگر رکاوٹیں لگانے سے ریڑھی بانوں، سبزی فروشوں کو ان گیٹڈ کمیونٹیز سے روزگار کمانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

تاہم شہری اپنے رہائشی علاقے کو محفوظ بنانے کے لیے دیگر مؤثر اقدامات لے سکتے ہیں۔ سٹیزن پولیس لائزن کمیٹی کو اس کی قیادت کرنی چاہیے اور مقامی واچ اینڈ وارڈ سسٹم کے ساتھ علاقوں کی نگرانی کرنی چاہیے جس میں رہائشی بھی ان کی مدد کرسکتے ہیں۔

ماضی میں متعدد محلوں میں جرائم پر قابو پانے کا یہ خاص اقدام کافی مؤثر ثابت ہوا۔ اورنگی ٹاؤن جیسی شہری بستیوں نے راہ گیروں اور گاڑیوں پر نظر رکھنے کے لیے گلیوں میں چوکیداری کا نظام اپنایا تاکہ مشکوک افراد کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جائے اور انہیں پکڑا جاسکے۔

ان انتظامات کو جدید بناتے ہوئے کیمروں کا استعمال کیا جانا چاہیے۔ گاڑیوں اور بائکس میں لگائے گئے الارم، ٹریکنگ ٹولز اور جدید جیو فینسنگ طریقہ کار اسٹریٹ کرمنلز کو لگام دے سکتے ہیں۔

لیکن کراچی کو اس وقت، محلوں کو محفوظ بنانے سے بالاتر اقدامات کی ضرورت ہے۔ ایک کثیر الجہتی پالیسی جس میں پولیس اصلاحات شامل ہوں، وہ سماجی و اقتصادی محرومیوں کو دور کرنے اور عوام کو قانون نافذ کرنے والوں پر اعتماد بحال کرنے میں مؤثر حل ثابت ہوسکتی ہے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

تبصرے (0) بند ہیں