مشیر خارجہ امور، سرتاج عزیز۔ اے پی تصویر
مشیر خارجہ امور، سرتاج عزیز۔ اے پی تصویر

اسلام آباد : وزیرِ اعظم کےمشیر برائے امورِ خارجہ اور قومی سلامتی ، سرتاج عزیز نے نے کہا ہے کہ افغان طالبان کے سرکردہ لیڈر، ملا غنی برادر کو آج یا کل میں رہا کیا جاسکتا ہے تاہم انہیں افغانستان نہیں بھیجا جائے گا۔

 ڈان ڈاٹ کام سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سرتاج عزیز نے بتایا کہ افغانستان کو جس پس منظر کے تحت رہا کررہے ہیں، اگر (وہ) افغانستان چلے گئے تو سب کچھ سبوتاژ ہوجائے گا۔

 سرتاج عزیز نے کہا کہ ملا عبدالغنی برادر کو رہا کرنے کے بعد پاکستان میں ہی رکھا جائے گا اور اس بات کا فیصلہ وہ خود کریں گے کہ انہیں کہاں جانا ہے  جہاں سے وہ با آسانی امن عمل کا آغاز کرسکیں گے۔

 سرتاج عزیز نے کہا کہ سیکیورٹی وجوہ کی بنا پر برادر کی رہائی کا مخصوص وقت نہیں بتایا جاسکتا ۔

 گزشتہ ماہ افغان صدر حامد کرزئی نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران ملّا برادر کی رہائی کے مطالبے کو دوہرایا تھا، جنہیں فروری 2010ء میں آئی ایس آئی اور سی آئی اے کی مشترکہ کارروائی میں گرفتار کیا گیا تھا۔

 پاکستان نے گزشتہ نومبر سے افغان جنگجوؤں کو رہا کرنا شروع کردیا تھا، تاکہ وہ اپنے گروہ میں جاکر اپنے ساتھیوں کو مصالحتی عمل میں شمولیت پر آمادہ کرسکیں۔ اب تک تینتس جنگجوؤں کو تین حصوں میں رہا گیا جا چکا ہے۔ آخری گروپ کی رہائی ہفتے کو عمل میں آئی تھی۔

 کابل نے گزشتہ گروپ کی رہائی کا خیرمقدم کیا لیکن ساتھ اس کی اہمیت گھٹا کر اسے معمولی اقدام قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے کہیں زیادہ اہم مرکزی شخصیت ملّابرادر کی رہائی ہے۔

 پینتالیس برس کے طالبان رہنما کا تعلق افغانستان کے صوبے اروزگان سے ہے، جو 1994ء میں افغان طالبان تحریک کے بانیوں میں سے ایک تھے۔ 2001ء دوران جب امریکی حملے کے نتیجے میں طالبان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تو اس وقت وہ طالبان کے کمانڈر تھےاور ان کے پاس طالبان کی روزآنہ کی کارروائیوں اور مالی امور کی نگرانی کی ذمہ داریاں بھی تھیں۔

 ملا برادر کی گرفتاری سے قبل ان کے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ ممکنہ مصالحت کے لیے کابل کے ساتھ رابطے میں رہیں گے، ان کی امن مذاکرات کے لیے بنیادی شرط افغانستان سے غیرملکی افواج کا انخلاء تھی۔

 ملّا برادر جنہیں انتہائی ہلاکت خیز طالبان کمانڈروں میں سے ایک خیال کیا جاتا ہے، انہوں نے 2009ء میں جنگجوؤں کے لیے ضابطہ اخلاق کے نام سے ایک دستاویز تیار کی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ عام شہریوں کو ہلاک کرنے سے گریز کیا جائے، دیہاتیوں کے دلوں کو جیتنے کی کوشش کی جائے اور شدید ردّعمل سے بچنے کے لیے خودکش حملوں سے گریز کیا جائے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں