فوج پر حملے جاری رکھیں گے، طالبان

شائع September 17, 2013

فائل فوٹو۔۔۔۔۔

پشاور: تحریک طالبان پاکستان نے منگل کو ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ اب بھی پاکستانی افواج سے حالت جنگ میں ہیں کیونکہ امن مذاکرات کا آغاز ہونا باقی ہے اور پاکستانی افواج تاحال ان کے خلاف آپریشن میں مصروف ہیں۔

یاد رہے کہ یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب دو روز قبل پاکستانی طالبان کی جانب سے فوجی قافلے کو نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں میجر جنرل ثنااللہ، لفٹیننٹ کرنل توصیف احمد اور سپاہی عرفان اللہ ہلاک ہو گئے تھے۔

تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے نامعلوم مقام سے اے ایف سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 'جنگ ابھی جاری ہے، اسے حکومت نے شروع کیا تھا اور انہیں ہی اسے روکنا ہو گا'۔

رواں سال مئی میں ہونے والے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد وزیر اعظم منتخب ہونے والے نواز شریف نے امن مذاکرات پر زور دیا تھا اور گزشتہ ہفتے تمام بڑی سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے ان کے اس عمل کی حمایت بھی کی تھی۔

ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اتوار کو کیے گئے طالبان حملے سے شدت پسندوں سے مجوزہ مذاکرات متاثر ہو سکتے ہیں۔

اس حوالے سے پیر کو آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بھی واضح موقف اختیار کرتے ہوئے کہا تھا کہ شدت پسندوں کو امن مذاکرات کی پیشکش کا فائدہ اٹھانے نہیں دیں گے۔

تاہم طالبان کا کہنا ہے کہ وہ مزید حملے بھی کریں گے کیونکہ ہمیں امن مذاکرات کی باقاعدہ دعوت نہیں دی گئی۔

'امن مذاکرات کے لیے کسی نے بھی ہم سے رابطہ نہیں کیا حتیٰ کہ قبائلی جرگہ نے بھی ہم سے بات نہیں کی، اگر وہ یہ جنگ ختم کرنا چاہتے ہیں تو انہیں جنگ بندی کا اعلان کرنا ہو گا'۔

طالبان نے اتوار کو شدت کے خاتمے اور مذاکرات کے لیے اپنی شرائط کا اعلان کرتے ہوئے قبائلی علاقوں سے فوج سے واپسی اور قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔

لیکن اتوار کو فوج نے ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ امن مذاکرات کے لیے طالبان باغیوں کو شرائط طے کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

طالبان ترجمان سے جب مستقبل کے لائحہ عمل کے حوالے سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ہم فوج پر حملے کا کوئی موقع ضائع نہیں کریں گے۔

ماضی میں طالبان سے کیا گیا معاہدہ فوری طور پر ٹوٹ گیا تھا اور اس پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اس معاہدے سے طالبان کو دوبارہ سے متحدہ ہونے کا موقع ملا۔

تبصرے (2) بند ہیں

Amir nawaz khan Sep 18, 2013 09:10am
عساکر پاکستان پر حملے اورمذاکرات ساتھ ساتھ نہ چلیں گے۔یاد رہے کہ حکومت نے اے پی سی کے بعد ، دہشت گردوں کو امن مذاکرات کی دعوت دی مگر طالبان نے جواب میں پاک فوج کے اعلیٰ افسران کو شہید کر کے حکومت پیغام دیا ہے کہ وہ بہت طاقت ور ہیں اور حکومت کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اوریہ کہ حکومت انہیں ختم نہیں کرسکتی؟ لگتا ہے کہ ایسا طالبان نے حکومت کو دباؤ میں لانے کے لیے کیا ہے تاکہ وہ حکومت سے اپنی شرائط منوائیں سکیں اور حکومت سے مذاکرات میں بہتر پوزیشن میں آجائیں۔ مگر یہ حملہ پاکستان کے لیے بہت بڑاچیلنج ہے کیونکہ اس میں حکومت کو براہ راست چیلنج کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے طالبان پاکستان کے شاہد اللہ شاہد نے امن مذاکرات شروع کرنے سے قبل اپنی شرائط پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت مذاکرات میں سنجیدہ ہے‘ توہمارے ساتھی طالبان قیدی رہا کرے اور فاٹا سے فوج واپس بلائے‘ اور اس طرح اعتماد سازی کا ماحول بنائے۔ لگتا ہے طالبان ایسا القائدہ کےا شاروں پر کر رہے ہیں اور مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے درپے ہیں کیونکہ ایمن الظواہری پاکستان کو مجاہدین کے لیے محفوظ ٹھکانہ بنانا چاہتے ہیں، تاکہ پاکستان کواسلامی نظام قائم کرنے کے لیے جدوجہد کی غرض سے استعمال کیا جائے۔ ایسا لگتا ہے کہ طالبان لمبے چوڑے، ناممکن و ناقابل عمل و قبول مطالبات وشرائط پیش کر رہے ہیں جن سے مذاکرات کا عمل شروع ہونے سے قبل ہی ختم ہو جانے کا قوی خدشہ موجود ہےاور ان حالات میں یہ بیل منڈھے چڑہتی نظر نہ آتی ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ تحریک طالبان نے پاک فوج پر حملے جاری رکھنے کے اعلان کے ساتھ حکومت پاکستان سے مذاکرات کے دروازے عملاً بند کردیئے ہیں ۔ تحریک طالبان کی جانب سے یہ کہنا کہ وہ پاکستانی فوج پر حملے جاری رکھے گی اور اس سلسلے میں ہر موقع استعمال کرے گی ، یہ عملاً پاکستانی قوم کو پیغام ہے کہ طالبان پاکستان کے ساتھ کسی بھی مثبت مذاکرات کے لئے فی الحال تیار نہیں ہیں۔ طالبان سے مذاکرات کر کے امن و آتشتی کی راہ ہموار کرنا وقت کی اہم ضرورت ہےاور خود طالبان کے حق میں بہتر ہے کیونکہ اس سے خون خرابہ ختم ہو گا اور ملک میں امن قائم ہو سکتا ہے اور طالبان قومی سیاسی دھارے میں بھی آ سکتے ہیں مگر طالبان کو بھی امن کی اس خواہش کو پاکستان کی کمزوری نہ سمجھنا چاہئیے۔ طالبان کو یہ سمجھ لینا چاہئیے کہ انہیں دہشت گردی ترک کرنے اور القائدہ و لشکر جھنگوی جیسی دہشت گرد و فرقہ پرست جماعتوں سے قطع تعلق کرنا ہی ہو گا۔
فوج پر حملے اور مذاکرات-- تجزیہ - پاکستان کی آواز Sep 18, 2013 11:48am
[…] تھا کہ ہم فوج پر حملے کا کوئی موقع ضائع نہیں کریں گے۔ فوج پر حملے جاری رکھیں گے، طالبان | Dawn Urdu عساکر پاکستان پر حملے اورمذاکرات ساتھ ساتھ نہ چلیں […]

کارٹون

کارٹون : 29 جون 2025
کارٹون : 28 جون 2025