• KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:31pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:56pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:59pm
  • KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:31pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:56pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:59pm

پنجابی قوم پرستی کی حقیقت کیا ہے؟

شائع September 18, 2024

ایشیا کے دیگر کثیرالثقافتی ممالک جیسے بھارت اور ملائیشیا کے مقابلے میں پاکستان قدرے مختلف ہے جہاں لسانی بنیادوں پر رسمی طور پر سیاست نہیں کی جاتی۔

بھارت میں ہندوتوا سب سے بڑا سیاسی حلقہ ہے جبکہ ملائیشیا میں ملائے قوم پرستی کو جدید ریاست کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کی مرکزی دھارے کی سیاست میں پنجابی قوم، بہ حیثیت پنجابی ووٹ نہیں دیتے۔

اس کے لیے متعدد وضاحتیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ کچھ لوگوں کے نزدیک پنجابیوں کو پہلے ہی سیاسی منظرنامے میں مراعات حاصل ہیں کیونکہ قومی اسمبلی میں آبادی کے اعتبار سے خطے کو نشستیں دی جاتی ہیں۔ 266 مجموعی نشستوں میں سے شمالی اور وسطی پنجاب براہِ راست تقریباً 100 نشستوں کے ساتھ اس کے منتخب نمائندے حکومتیں بنانے، توڑنے اور اس کی فعالیت میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ نو آبادیاتی دور میں جس طرح معاشی ترقی کی بنیادیں رکھی گئیں اور بھرتیوں کا نظام بالخصوص فوج میں بھرتیوں نے ریاست میں متناسب نمائندگی کے ساتھ ساتھ پنجابیوں کی وسائل تک زیادہ رسائی کو بھی یقینی بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ شمالی اور وسطی پنجاب کے اضلاع ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے انسانی ترقی کے معاملے میں سب سے آگے آگے ہوتے ہیں۔

اگر ریاست اپنے عوام کی سیاسی اور ترقیاتی ضروریات کو پورا کرے گی تو ایسے میں قومیت پر مبنی سیاست کی گنجائش بہت کم رہ جائے گی۔ ایک جانب پاکستان کے چھوٹے نسلی گروہوں کو پسماندگی اور سیاسی حق رائے دہی سے محرومی کے باعث مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ دوسری جانب پاکستان کی اکثریتی قوم یعنی پنجابیوں کو ایسے کسی مسئلے کا سامنا نہیں۔

یہ دلیل کافی حد تک قائل کرتی ہے کیونکہ یہ وضاحت دیتی ہے کہ پنجابی قوم پرستی ہمارے ملک میں کیوں پائی نہیں جاتی۔ تاہم دیکھا جائے تو اکثریت میں ہونا یا مراعات یافتہ قوم ہونا کسی بھی گروہ کو لسانی سیاست میں ملوث ہونے سے روکنے کے لیے کافی نہیں۔

بھارت میں اعلیٰ ذات کے ہندو آج تک معاشی طور پر سب سے زیادہ مراعات یافتہ آبادی ہیں اور انہیں تو اپنی آبادی سے بھی زیادہ نمائندگی حاصل ہے لیکن پھر بھی وہ مسلمانوں اور نچلی ذات کے افراد کے خلاف پُرتشدد، اکثریت پسندی کی سیاست میں متحرک ہیں۔

اس کے بجائے اکثریت اس وقت اکثریتی سیاست کی جانب راغب ہوتی ہے کہ جب اسے محسوس ہونے لگتا ہے کہ انہیں ان کی مراعات سے محروم کیا جارہا ہے، اس سے ان کے اندر متاثرین کا بیانیہ جنم لیتا ہے۔ بھارت میں یہ واضح طور پر نظر آتا ہے جہاں نچلی ذات اور اقلیتی گروہوں کو دی جانے والی مٹھی بھر ریزرویشن جیسی رعایتیں بھی اکثریتی گروہوں کو ناگوار گزرتی ہیں۔ نتیجتاً وہ جارحانہ اقدامات اپناتے ہیں اور وقتاً فوقتاً پُرتشدد ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔

پاکستان میں اس حوالے سے کچھ پیش رفت ہورہی ہے بالخصوص سوشل میڈیا پر، جو اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ آیا پاکستان کی اکثریتی آبادی بھی اسی ڈگر پر چل سکتی ہے یا نہیں۔

سب سے پہلی حقیقی تبدیلی ڈیجیٹل دنیا میں پنجابی ثقافتی احیا کا دوبارہ زندہ ہونا ہے۔ اس خطے کی تاریخ اور ثقافتی ورثے کا احاطہ کرنے والے بہت سے نئے کانٹینٹ کریئٹرز ہیں جو سرحد کی دوسری جانب پنجابیوں کے ساتھ روابط کو اجاگر کرتے ہیں اور پنجابی زبان کے استعمال کو مزید مقبول بناتے ہیں۔

اس طرح کا کانٹینٹ ایک ایسے خطے میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ جہاں 1947ء کے بعد سے ثقافتی تنوع کافی حد تک کم ہوا اور قوم پرستی کی جڑیں مضبوط ہوئیں۔ پنجاب میں سماجی طور پر آگے بڑھنے کا مطلب اکثر پنجابی زبان اور ثقافت کو ترک کرنا ہوتا ہے۔ وہاں شہری متوسط طبقے کے بہت سے لوگ اردو زبان کو اپناتے ہیں اور مذہب کی جانب راغب ہوجاتے ہیں۔

نوجوان نسل کو اپنے ثقافتی ورثے بالخصوص اپنی مادری زبان سے جوڑنا اپنے طور پر ایک قابلِ قدر اقدام ہے۔ ایسا کرنے سے ہم انہیں انتہا پسند مذہبی رجحانات سے دور کرسکتے ہیں جبکہ اگر یہ سرحد پار پنجابیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ انسانی بنیادوں پر روابط بحال کرنے اور ورثے کو مشترکہ اہمیت دینے کا باعث بنتا ہے تو یہ خطے میں امن کو تقویت دینے کی وجہ بنے گا۔ دیگر الفاظ میں ایک زیادہ ترقی پسند اور روادار پاکستان کے لیے پنجابی ثقافتی احیا ضروری ہیں۔

لیکن اس ثقافت کو دوبارہ زندہ کرنے کے پیچھے مزید انتہا پسند منفی رجحانات ہیں۔ جیسے حال ہی میں بلوچستان میں بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے حملوں میں 23 افراد کے قتل کے بعد یہ منفی مطالبات سامنے آئے کہ پنجاب کے شہروں میں قائم کوئٹہ ہوٹلز کا بائیکاٹ کیا جائے جنہیں پختون کاروباری حضرات چلاتے ہیں۔ اس سلسلے کی ایک اور تشویش ناک مثال پنجاب کی جامعات سے پختون اور بلوچ طلبہ کو نمک حرام یا دہشت گردی کے حمایتی قرار دے کر بے دخل کرنے کا مطالبہ تھا۔

یہ پہلا موقع نہیں کہ جب پنجاب میں نسلی تعصب نے سر اٹھایا لیکن یہ اس وقت تباہ کُن ثابت ہوگا کہ جب یہ رجحانات زیادہ عام ہونے لگیں۔ اقلیتی اور اکثریتی گروہوں میں تعصب بھی مختلف طرح کا ہے۔ اقلیتی گروہوں میں تعصب سے بیگانگی اور قدامت پسندی جنم لیتی ہے جبکہ اکثریتی گروہوں میں اکثریت پسندی پیدا ہوتی ہے جس کے نتائج تشدد کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔

پاکستان میں غیرمتوازی طور پر ترقی ہورہی ہے جسے سب کے لیے مساوی بنانے کے لیے کافی حد تک دوبارہ تقسیم اور مثبت اقدام کی ضرورت ہے۔ بلوچستان اور دیگر سابقہ قبائلی علاقے ترقی کے معاملے میں کافی پیچھے ہیں اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بلوچستان یا سابقہ قبائلی علاقوں میں پیدا ہونے والے کسی شخص کو شہری پنجاب یا کراچی میں پیدا ہونے والے کسی شخص کے مقابلے میں کم مواقع اور مراعات میسر ہیں۔

نتیجتاً وہ علاقے جو زیادہ مراعات یافتہ ہیں، انہیں چاہیے کہ مساوات کے فروغ کے لیے اپنی کچھ مراعات کو ترک کریں تاکہ وہ علاقے جو پیچھے رہ گئے ہیں انہیں بھی ترقی میں برابر کا حصہ مل سکے۔ کسی بھی کوشش جیسے پنجاب کی جامعات میں ایسے پسماندہ علاقوں کے لیے داخلہ نشستیں مختص کرنے کو پنجاب میں ناانصافی کے طور پر ہر گز نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ اس کے بجائے اسے سماجی انصاف کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔

سیاسی جماعتیں عمومی طور پر پنجابی قوم پرستی کو بھڑکانے سے اجتناب کرتی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف جسے شہری سندھ اور خیبرپختونخوا میں مضبوط قومی حمایت حاصل ہے، اس نے کبھی پنجابی نسلی تعصب کے مسائل سے فائدہ نہیں اٹھایا۔

دوسری جانب مسلم لیگ (ن) جس کی انتخابی سیاست بڑے پیمانے پر پنجاب سے جڑی ہے، وہ بھی کبھی کبھی نسلی فوائد حاصل کرتی ہے۔ لیکن بڑے معاملات جیسے این ایف سی کی تقسیم اور مرکزی حکومت کو اختیارات کی منتقلی کی بنیاد پر مسلم لیگ (ن) کے سابقہ ریکارڈ کو دیکھا جائے تو وہ وفاق کے طور پر کافی حد تک متوازی فیصلے کرتی ہے۔

آج جب مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت کم ہورہی ہے ایسے میں پارٹی کو لسانی سیاست کرنا کافی پُرکشش لگ سکتا ہے۔ تاہم یہ اہم ہے کہ وہ اس وقت بھی اس سے گریز کررہے ہیں۔

سیاسی نظام پہلے ہی آمرانہ حکمرانی، علاقائی عدم مساوات اور مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے متزلزل ہے، ایسے میں زیادہ اکثریتی تعصب کو ہوا دینے سے حالات مزید خراب ہوں گے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

عمیر جاوید

لکھاری فری لانس کالم نگار ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: @umairjav

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 10 اکتوبر 2024
کارٹون : 9 اکتوبر 2024