• KHI: Clear 21.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 13.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 12.1°C
  • KHI: Clear 21.2°C
  • LHR: Partly Cloudy 13.9°C
  • ISB: Partly Cloudy 12.1°C

مصطفیٰ عامر 6 جنوری کو قتل ہونے سے چند گھنٹے قبل عدالت میں پیش ہوا تھا

شائع February 28, 2025

کراچی کی انسداد منشیات عدالت نے مقتول مصطفی عامر کا نام منشیات کیس سے خارج کردیا ، مقتول قتل کیے جانے سے چند گھنٹے قبل عدالت میں پیش ہوا تھا۔

کراچی کی انسداد منشیات عدالت میں تفتیشی افسر کی رپورٹ کے مطابق مصطفی عامر کاقتل ہوگیاہے، مصطفی عامرکو 31 جنوری 2024 کو گرفتارکیا گیا تھا جبکہ 20 مارچ 2024 کو مصطفی عامر اور نعمان یعقوب کی ضمانت منظورہوگئی تھی۔

مصطفی عامر رواں سال 6 جنوری کو قتل ہونے سے چند گھنٹے قبل عدالت میں آخری بار پیش ہوا تھا، قتل کیے جانے کے باوجود 22 فروری تک مصطفی عامرکےعدالت سے وارنٹ گرفتاری جاری ہوتے رہے، مصطفی کے 2 ساتھی میاں عمار حمید اور فیصل یعقوب اشتہاری ہیں۔

واضح رہے کہ ڈیفنس کا رہائشی نوجوان مصطفیٰ عامر رواں سال 6 جنوری کو لاپتہ ہوا تھا جس کے بعد اس کی والدہ کی مدعیت میں پہلے گمشدگی کا مقدمہ درج کیا گیاتھا، بعدازاں 25 جنوری کو تاوان کی کال موصول ہونے کے بعد اغوا برائے تاوان اور لاش کی نشاندہی ہونے پر قتل کا مقدمہ درج کیا گیاتھا۔

گزشتہ روز کراچی کی سٹی کورٹ میں واقعے کے گواہ غلام مصطفیٰ نے بیان ریکارڈ کراتے ہوئے مرکزم ملزم ارمغان قریشی کو بطور ملزم شناخت کرلیا تھا، بیان ریکارڈ کرانے کے دوران گواہ نے سنسنی خیز انکشافات کیے تھے۔

گواہ نے ملزم ارمغان کی شناخت کرتے ہوئے عدالت کو بتایا تھا کہ بنگلے میں ’باس‘ رہتے تھے، اوپر والے فلور پر ملزم ارمغان رہتا ہے، ہمارا کھانا بھی باس آن لائن منگواتے تھے، ہم نیچے رہتے تھے، جب کام ہوتا تھا تو باس ہمیں بلاتے تھے، گھر کا گیٹ ریموٹ سے کھلتا تھا۔

گواہ نے مزید بتایا تھا کہ ہمیں باہر جانے کی بھی اجازت نہیں تھی، 6 جنوری کو رات 9 بجے ایک لڑکا آیا، بلیک ٹراؤزر میں جو اوپر چلاگیا۔

عدالت نے استفسار کیا تھا کہ بلیک ٹراؤزر والا لڑکا دیکھنے میں کیسا تھا؟ جس پر گواہ نے بتایا تھا کہ وہ دبلا پتلا تھااور اوپر چلا گیا، پھر کچھ دیربعد گالم گلوچ کی آواز آئی، پھر کچھ دیر بعد فائرنگ کی آواز آئی۔

گواہ غلام مصطفیٰ نے بتایا کہ باس نے کیمرے میں دیکھ کر ہمیں اوپر بلایا، ہمیں کمرے میں رہنے کا کہا گیا اور کہا کہ ڈرو نہیں، تھوڑی دیر بعد باس نے اوپر بلایا اور کہا کہ کپڑا اور شاور لیکر آؤ، میں اوپر چلا گیا، باس کے پاس ایک لڑکا چھوٹے قد کا چشمہ لگایا ہوا موجود تھا۔

گواہ نے عدالت کے روبرو بیان میں کہا کہ ہم سے باس نے خون صاف کرایا، ایک لڑکا بلیک ٹراؤزر میں موجود تھا لال پھول والے، لیکن وہ لڑکا نہیں تھا جو آیا تھا، خون صاف کرکے رات ایک بجے ہم کھانا کھانے بیٹھ گئے۔

گواہ نے بتایا تھا کہ جب میں نے دیکھا رات ایک بجے جو لڑکا آیا تھا، اس کی گاڑی اور وہ موجود نہیں تھا، تب میں اپنے کمرے میں جاکر سوگیا، نیند نہیں آرہی تھی، فجر کی نماز پڑھی، دن ایک ڈیڑھ بجے اٹھے تو زور سے گیٹ پیٹ رہے تھے آوازیں دے رہے تھے، جب ہم نے گیٹ کھولا تو باس اور اسکا دوست موجود تھے، ہمیں کہا کہ گیٹ کیوں بند کیا ہم نے کہا ہم سمجھے آپ سو گئے ہیں۔

گواہ نے بتایا تھا کہ باس نے کہا کہ ٹھیک ہے جاکر آرام کرو کوئی مسئلہ نہیں، پھر باس نے اسی دن اوپر بلایا ہم دونوں کو بولتے ہیں کہ نشان صاف کرو مگر اس وقت ٹراؤزر جہاں رکھا تھا وہاں موجود نہیں تھا، باس نے ہمیں چھٹی دے دی، ہمیں اوپر جانے کی اجازت نہیں تھی، پانی پینے یا کھانا کھانے کے لیے فون کرتے تھے۔

گواہ غلام مصطفیٰ نے بتایا تھا کہ کچھ دن بعد پولیس کا چھاپہ پڑا، اوپر سے فائرنگ ہورہی تھی ہم اپنے کمرے میں ہی تھے، ہم چھپ گئے تھے، کیوں کہ آمنے سامنے فائرنگ ہو رہی تھی، ہم چھپ کر باہر نکلے اور چلے گئے، ہم 10 تاریخ کو بنگلے کے آس پاس سامان اٹھانے آئے تو پولیس نے پکڑ لیا۔

کیس کا پس منظر

یاد رہے کہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) سی آئی اے مقدس حیدر نے 14 فروری کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مقتول مصطفیٰ عامر 6 جنوری کو ڈیفنس کے علاقے سے لاپتا ہوا تھا، مقتول کی والدہ نے اگلے روز بیٹے کی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا تھا۔

25 جنوری کو مصطفیٰ کی والدہ کو امریکی نمبر سے 2 کروڑ روپے تاوان کی کال موصول ہونے کے بعد مقدمے میں اغوا برائے تاوان کی دفعات شامل کی گئی تھیں اور مقدمہ اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (اے وی سی سی) منتقل کیا گیا تھا۔

بعد ازاں، اے وی سی سی نے 9 فروری کو ڈیفنس میں واقع ملزم کی رہائشگاہ پر چھاپہ مارا تھا تاہم ملزم نے پولیس پر فائرنگ کردی تھی جس کے نتیجے میں ڈی ایس پی اے وی سی سی احسن ذوالفقار اور ان کا محافظ زخمی ہوگیا تھا۔

ملزم کو کئی گھنٹے کی کوششوں کے بعد گرفتار کیا گیا تھا، جس کے بعد پولیس نے جسمانی ریمانڈ لینے کے لیے گرفتار ملزم کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا تو جج نے ملزم کا ریمانڈ دینے کے بجائے اسے عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا، جس کے خلاف سندھ پولیس نے عدالت عالیہ میں اپیل دائر کی تھی۔

ملزم نے ابتدائی تفیش میں دعویٰ کیا تھا کہ اس نے مصطفیٰ عامر کو قتل کرنے کے بعد لاش ملیر کے علاقے میں پھینک دی تھی لیکن بعدازاں اپنے بیان سے منحرف ہوگیا تھا، بعدازاں اے وی سی سی اور سٹیزنز پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) اور وفاقی حساس ادارے کی مشترکہ کوششوں سے ملزم کے دوست شیراز کی گرفتاری عمل میں آئی تھی جس نے اعتراف کیا تھا کہ ارمغان نے اس کی ملی بھگت سے مصطفیٰ عامر کو 6 جنوری کو گھر میں تشدد کا نشانہ بناکر قتل کرنے کے بعد لاش اسی کی گاڑی میں حب لے جانے کے بعد نذرآتش کردی تھی۔

ملزم شیراز کی نشاندہی کے بعد پولیس نے مقتول کی جلی ہوئی گاڑی حب سے برآمد کرلی تھی جبکہ حب پولیس مقتول کی لاش کو پہلے ہی برآمد کرکے رفاہی ادارے کے حوالے کرچکی تھی جسے امانتاً دفن کردیا گیا تھا، مصطفیٰ کی لاش ملنے کے بعد مقدمے میں قتل کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔

تفتیشی افسران کے مطابق حب پولیس نے ڈی این اے نمونے لینے کے بعد لاش ایدھی کے حوالے کی تھی، گرفتار کیا گیا دوسرا ملزم شیراز ارمغان کے پاس کام کرتا تھا، قتل کے منصوبے اور لاش چھپانےکی منصوبہ بندی میں شیراز شامل تھا۔

کراچی پولیس کا کہنا ہے کہ مقتول مصطفیٰ کا اصل موبائل فون تاحال نہیں ملا ہے، ملزم ارمغان سے لڑکی کی تفصیلات، آلہ قتل اور موبائل فون کے حوالے سے مزید تفصیلات حاصل کی جائیں گی۔

بعدازاں پولیس نے لاش کے پوسٹ مارٹم کے لیے جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں قبر کشائی کی درخواست دی تھی جس پر گزشتہ روز عدالت نے قبر کشائی کا حکم جاری کردیا تھا۔

دریں اثنا، 15 فروری کو ڈان نیوز کی رپورٹ میں تفتیشی حکام کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑے کی وجہ ایک لڑکی تھی جو 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی تھی، لڑکی سے انٹرپول کے ذریعے رابطے کی کوشش کی جارہی ہے۔

تفتیشی حکام نے بتایا کہ ملزم ارمغان اور مقتول مصطفیٰ دونوں دوست تھے، لڑکی پر مصطفیٰ اور ارمغان میں جھگڑا نیو ایئر نائٹ پر شروع ہوا تھا، تلخ کلامی کے بعد ارمغان نے مصطفیٰ اور لڑکی کو مارنے کی دھمکی دی تھی۔

پولیس حکام نے بتایا کہ ارمغان نے 6 جنوری کو مصطفیٰ کو بلایا اور تشدد کا نشانہ بنایا، لڑکی 12 جنوری کو بیرون ملک چلی گئی جس سے انٹرپول کے ذریعے رابطہ کیا جارہا ہے، کیس کے لیے لڑکی کا بیان ضروری ہے۔

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025