ایچ آر سی پی کی کینال پروجیکٹ پر احتجاج کرنے والے طلبہ کے خلاف درج ایف آئی آر پر تشویش
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے جامشورو پولیس کی جانب سے سندھ یونیورسٹی کے تقریباً 100 طلبہ کے خلاف درج ایف آئی آر پر تشویش کا اظہار کیا، جن کا مبینہ طور پر منگل کو پولیس کے ساتھ تصادم میں ہوا تھا۔
واضح رہے کہ 4 مارچ کو جامشورو پولیس نے چولستان کینال اور پنجاب کی لاکھوں ایکڑ اراضی کو دریائے سندھ کے پانی سے سیراب کرنے کے لیے بنائے جانے والے نہروں کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کیا۔
طلبہ کے خلاف ایف آئی آر 5 مارچ بروز بدھ درج کی گئی تھی، جن میں سے 37 مختلف قوم پرست گروپوں کے طلبہ ونگ کے کارکن ہیں۔
تصادم کے بعد سپرنٹنڈنٹ سلیم پنہور کی طرف سے ان کے خلاف شکایت درج کرائے جانے کے بعد بہت سے افراد کو جلد ہی گرفتار کر لیا گیا تھا۔
تاہم، ایس ایس پی جامشورو ظفر صدیق اور سیاسی اور قوم پرست جماعتوں کے متعدد سینئر رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات کے بعد انہیں رہا کر دیا گیا تھا۔
ایچ آر سی پی نے ایف آئی آر پر اظہار تشویش کرتے ہوئے کہا کہ مظاہرین کے خلاف ’غیر متناسب طاقت کے استعمال‘ پر تشویش ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے کہا کہ ہم حکومت سندھ کو یاد دلاتے ہیں کہ بین الاقوامی بہترین طریقہ کار کے تحت، عوامی سڑکوں میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والی غیر متشدد اسمبلیوں کو صرف اس بنیاد پر طاقت کے ساتھ منتشر نہیں کیا جانا چاہیے کہ اس سے رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم نے مطالبہ کیا کہ ایف آئی آر واپس لی جائے اور جو لوگ ابھی تک زیر حراست ہیں انہیں رہا کیا جائے۔
واضح رہے کہ 4 مارچ کو سندھ یونیورسٹی میں تقریب کا اہتمام کچھ قوم پرست جماعتوں نے کیا تھا، جس میں جئے سندھ قومی محاذ (جسقم) اور اس کے طلبہ ونگ نے ان سندھی طلبہ کو خراج تحسین پیش کیا، جنہوں نے 4 مارچ 1967 کو ’ون یونٹ‘ کے خلاف شروع کی گئی تحریک میں حصہ لیا تھا۔
اس تقریب میں سندھ یونیورسٹی کیمپس سے انڈس ہائی وے کے قریبی حصے تک مارچ کیا گیا، تاہم، مارچ کے راستے پر تعینات پولیس کی مضبوط نفری نے سیکڑوں مرد و خواتین طلبہ کے ساتھ ساتھ شریک قوم پرست جماعتوں کے کارکنوں کو ہائی وے کی طرف جانے سے روکنے کی کوشش کی۔
اس سے دونوں فریقوں کے درمیان جھڑپ ہوئی اور پولیس کو مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے گولے داغے اور لاٹھی چارج کرنا پڑا۔