رہائشی جائیدادوں کا کاروباری استعمال کراچی کی سکونت کو نقصان پہنچائے گا، ماہرین کا انتباہ
ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ صوبائی حکومت کی جانب سے شہر کے رہائشی علاقوں میں تجارتی سرگرمیوں کی اجازت دینے کے فیصلے سے شہریوں کے معیار زندگی میں گراوٹ آئے گی جس سے گاڑیوں کی آمدورفت میں اضافہ ہوگا، آلودگی میں اضافہ ہوگا، ماحول کو نقصان پہنچے گا اور گھروں کو تجارتی استعمال کے قابل بنانے کے لیے غیر منظم ڈھانچہ جاتی تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق منگل کو اربن ریسورس سینٹر (یو آر سی) میں منعقدہ ایک مباحثے سے خطاب کرتے ہوئے ماہرین نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ شہر کے بہت سے علاقے پہلے ہی ہفتہ بھر 24 گھنٹے چلنے والے ہوٹلوں اور گیس سلنڈر اور اسمگل شدہ پیٹرول و ڈیزل جیسی خطرناک چیزیں فروخت کرنے والی دکانوں کے بلا روک ٹوک پھیلاؤ کی وجہ سے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں، ان عوامل نے کئی رہائشی علاقوں کو تیزی سے ناقابل رہائش بنا دیا ہے۔
یو آر سی کے وائس چیئرمین ڈاکٹر نعمان احمد نے کہا کہ کراچی بلڈنگ اینڈ ٹاؤن پلاننگ ریگولیشنز 2002 میں حالیہ ترامیم، جو رہائشی جائیدادوں کے کمرشل استعمال کی اجازت دیتی ہیں، بہت تشویشناک ہیں۔
انہوں نے کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، جسے اب سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کے نام سے جانا جاتا ہے، کے مقاصد کے بارے میں تفصیل سے بات کی اور کہا کہ اس کا ایک اہم مقصد جائیدادوں کے تجارتی اور رہائشی استعمال کو ریگولیٹ کرنا اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ مؤخر الذکر کو سابقہ مقاصد کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔
ڈاکٹر نعمان احمد نے کہا کہ اگر رہائشی جگہوں کے کاروباری استعمال کی اجازت دی جاتی ہے تو اس سے رہائشی علاقوں کے ماحول پر منفی اثر پڑے گا کیونکہ وہاں گاڑیوں اور ایندھن کا اخراج زیادہ ہوگا، گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد بھی ٹریفک کی بھیڑ اور صوتی آلودگی کا باعث بنے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ رہائشی مقامات کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلیوں کی ضرورت ہوگی تاکہ وہ تجارتی استعمال کےقابل ہوسکیں جو ایک اور مسئلہ ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ پہلے ہی دیکھا گیا ہے کہ لوگوں نے یا تو اپنے گھر فروخت کیے یا انہیں شہر کے ان علاقوں میں چھوڑ دیا جہاں تجارتی سرگرمیوں کی اجازت تھی۔
شہر میں خاص طور پر شاہراہ فیصل اور راشد منہاس روڈ پر آتشزدگی کے بڑھتے ہوئے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے ڈاکٹر نعمان احمد نے کہا کہ ان کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جن انفرااسٹرکچر میں آگ لگی وہ تعمیر نہیں کی گئی اور نہ ہی تجارتی سرگرمیوں کے لیے تیار کی گئی، انہوں نے نشاندہی کی کہ یہ ایک اور خطرہ ہے جو حکومت کے اس اقدام کے بعد بڑھنے کا امکان ہے۔
بحث کے دوران ایک شہری نے نشاندہی کی کہ رہائشی عمارتوں میں گیس سلنڈر اور اسمگل شدہ پیٹرول فروخت کرنے والی دکانیں موجود ہیں جس سے بہت سے خطرات لاحق ہیں، مزید برآں چائے کے ہوٹل 24 گھنٹے کھلے رہتے ہیں اور ان کے بیٹھنے کا انتظام گلیوں اور فٹ پاتھوں پر پھیلا ہوا ہے جس سے رہائشیوں کو پریشانی ہوتی ہے۔
سول سوسائٹی کے ایک رکن نے نشاندہی کی کہ حکومت کے فیصلے سے شہر کی آبادی میں مزید اضافہ ہوگا کیونکہ دوسرے شہروں کے لوگ اتنے بڑے شہر میں اس موقع سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، انہوں نے کہا کہ حکومت سندھ کے دیگر شہروں میں بھی تجارتی اور معاشی مواقع بڑھانے پر کام کرے۔
آرکیٹیکٹ اور ٹاؤن پلانر عارف حسن نے کہا کہ شہر کے شہری ادارے زیادہ تر اپنا اصل کام کرنے اور لوگوں کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے آمدنی پیدا کرنے اور شہریوں سے پیسہ کمانے پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ مسائل کے حل کے لیے بنائے جانے والے پلان اور منصوبے تحقیق اور مناسب منصوبہ بندی کے بجائے مفروضوں پر مبنی ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ایسے منصوبے مطلوبہ ہدف حاصل کرنے سے قاصر رہتے ہیں اور اسی وجہ سے بہت سے لوگ ایسے منصوبوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔