بھارت کا سندھ طاس معاہدہ معطل کرنا 24 کروڑ لوگوں کی بقا کیلئے خطرہ ہے، پاکستان کا انتباہ
پاکستان نے اقوام متحدہ کو خبردار کیا ہے کہ بھارت کا سندھ طاس آبی معاہدے (آئی ڈبلیو ٹی) کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے کا فیصلہ خطرناک اقدام، بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے، اور 24 کروڑ سے زائد افراد کی بقا کے لیے خطرہ ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ میں مسلح تنازعات میں پانی کے تحفظ سے متعلق ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ ایسے اقدامات کے رونما ہونے سے پہلے ہی متحرک ہو جائے، جو انسانی بحران کو جنم دے سکتے ہیں یا خطے کو عدم استحکام سے دوچار کر سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے نائب مستقل مندوب عثمان جدون نے سلووینیا کی جانب سے بلائے گئے آریا فارمولا اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ بین الاقوامی قانون، بشمول انسانی حقوق کے قانون، معاہداتی قانون اور عرفی بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم بھارت کے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے غیر قانونی اعلان کی شدید مذمت کرتے ہیں، بھارت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے قانونی فرائض کی مکمل پاسداری کرے، اور پاکستان کے لیے زندگی کی علامت ان دریاؤں کا بہاؤ روکنے، موڑنے یا محدود کرنے سے باز رہے، ہم ایسے کسی بھی اقدام کو کبھی قبول نہیں کریں گے۔
عثمان جدون نے بھارتی قیادت کے خطرناک بیانات کی طرف بھی توجہ دلائی اور کہا کہ ’پاکستان کے عوام کو بھوکا مارنے‘ جیسے اعلانات بھارتی قیادت کی انتہا درجے کی خطرناک اور بگڑی ہوئی سوچ کو ظاہر کرتے ہیں۔
پاکستان نے اقوام متحدہ کے اس فورم کو استعمال کرتے ہوئے پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کے خلاف عالمی اتفاق رائے کی اپیل کی۔
سفیر عثمان جدون نے سلامتی کونسل پر زور دیا کہ وہ ان معاملات پر قریب سے نظر رکھے اور جہاں ضروری ہو، بروقت اقدامات کرے۔
سلامتی کونسل کو ایسے حالات کی نشاندہی کرنی چاہیے، جہاں بین الاقوامی قانون، بشمول عالمی انسانی قانون (آئی ایچ ایل) کی خلاف ورزیاں امن و سلامتی کو خطرے میں ڈال سکتی ہوں، یا انسانی بحران کو جنم دے سکتی ہوں۔
پاکستان کے بیان میں 3 اہم نکات کو اجاگر کیا گیا ہے، جن میں قانونی پابندیاں، جنگ میں شامل فریقوں کی ذمہ داریاں، پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی مذمت شامل ہیں۔
بین الاقوامی قانون، انسانی حقوق بشمول بین الاقوامی انسانی قانون، پانی کے وسائل اور متعلقہ بنیادی ڈھانچے پر حملوں کی ممانعت کرتا ہے۔
پانی تک رسائی سے انکار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور طے شدہ اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔
تنازع میں شامل تمام فریق عالمی انسانی حقوق کے پابند ہیں اور انہیں ایسے اقدامات سے گریز کرنا چاہیے، جن کے نتیجے میں انسانی بحران پیدا ہو۔
مزید برآں، پانی کو دباؤ ڈالنے یا جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا ناقابل قبول اور غیر مستحکم کن اقدام ہے۔
سفیر عثمان جدون نے کہا کہ یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ ایک ملک، جو بدنیتی پر مبنی عزائم رکھتا ہے، اس نے پانی کو ہتھیار بنانے کے ساتھ ساتھ اسے سودے بازی کا ذریعہ بھی بنا لیا ہے۔
یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسلام آباد میں بھارت کی جانب سے معاہداتی نظام کو بائی پاس کرنے اور عالمی ثالثوں، بالخصوص عالمی بینک کے کردار کو غیر مؤثر بنانے کی کوششوں پر شدید تشویش پائی جا رہی ہے، عالمی بینک 1960 میں انڈس واٹر ٹریٹی کا ضامن رہا ہے۔
پاکستانی حکام ان بھارتی اقدامات کو ایک وسیع تر حکمت عملی کا حصہ سمجھتے ہیں، جس کا مقصد تعاون پر مبنی ڈھانچے کو کمزور کرنا اور غیر عسکری ذرائع سے اسلام آباد پر دباؤ ڈالنا ہے۔
نائب مستقل مندوب عثماان جدون نے عالمی سطح پر تنازعات کے دوران پانی کے وسائل کے تحفظ کی کوششوں کی حمایت کا اعادہ کیا، اور اس بات پر زور دیا کہ پانی کو سیاسی یا عسکری ہتھیار بنانے کی کسی بھی کوشش کے خلاف واضح، اصولی اور متحد موقف اپنانا ہوگا۔
دہشت گردی کا الزام مسترد
ایک الگ اجلاس میں، دہلی اور اسلام آباد کے نمائندوں کے درمیان اقوام متحدہ میں شدید زبانی جھڑپ ہوئی، جب پاکستانی سفیر عاصم افتخار احمد نے حالیہ جھڑپ کے دوران بھارتی فوج پر شہری علاقوں کو نشانہ بنانے کا الزام لگایا۔
یہ تبادلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں }مسلح تنازعات میں شہریوں کے تحفظ{ پر ہونے والی بحث کے دوران پیش آیا۔
بھارتی سفیر پروتنینی ہریش نے پاکستانی ہم منصب کے سخت بیان کا جواب دیا، اور روایتی الزامات دہراتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو دہشت گردی کی پالیسی اپنانے کے بعد شہریوں کے بارے میں بات کرنے کا کوئی حق نہیں۔
پاکستانی مندوب صائمہ سلیم نے بھارتی سفیر پر ’گمراہ کن معلومات، موضوع سے ہٹنے اور انکار‘ کا سہارا لینے کا الزام عائد کیا اور کہا کہ بھارت خود دہشت گردی میں ملوث ہے۔
انہوں نے کہا کہ کوئی بھی چیز حقائق کو چھپا نہیں سکتی، بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں بے گناہ شہریوں کو کھلے عام قتل اور زخمی کرتا ہے، پاکستان پر کھلی جارحیت کر کے شہریوں کو نشانہ بناتا ہے، اور نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں دہشت گردی اور قتل کی کارروائیوں کی سرپرستی کرتا ہے۔
صائمہ سلیم نے کہا کہ بھارت دریاؤں کا بہاؤ روکنے جیسے انتہائی اقدام پر بھی اتر آیا ہے، یہ دریا پاکستان کے 24 کروڑ عوام کی زندگی کے لیے ناگزیر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان اور عالمی برادری نے پہلگام واقعے کی مذمت کی تھی، اگر بھارت کے پاس چھپانے کو کچھ نہیں، تو اسے واقعے کی قابل اعتبار، غیر جانبدار اور آزادانہ تحقیقات پر آمادگی ظاہر کرنی چاہیے تھی۔
انہوں نے کہا کہ اس کے برعکس بھارت کشمیری عوام کی جائز آزادی کی جدوجہد کو دبانے کے لیے ریاستی دہشت گردی کا استعمال جاری رکھے ہوئے ہے۔
کھلی جارحیت
صائمہ سلیم نے یاد دلایا کہ رواں ماہ کے اوائل میں بھارت نے پاکستان کے خلاف کھلی جارحیت کی، بے گناہ شہریوں پر بلااشتعال حملے کیے، جن میں 40 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں 7 خواتین اور 15 بچے شامل تھے، جب کہ 121 افراد زخمی ہوئے، جن میں 10 خواتین اور 27 بچے شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کو دوسروں کو شہریوں کے تحفظ پر لیکچر دینے کا کوئی حق نہیں۔
صائمہ سلیم نے زور دیا کہ پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی کوششیں اور قربانیاں عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہیں، اور اسلام آباد اس لعنت کے خلاف اپنی وابستگی پر قائم ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے برعکس بھارت فعال طور پر دہشت گرد گروہوں کی مالی معاونت اور حمایت کر رہا ہے، جن میں ’فتنہ الخوارج‘ (جو کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان، بلوچستان لبریشن آرمی اور اس کی مجید بریگیڈ پر مشتمل ہے) شامل ہیں، جو پاکستان میں بے گناہ شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں۔
انہوں نے عالمی مندوبین کی توجہ حالیہ خضدار میں اسکول بس پر وحشیانہ حملے کی طرف مبذول کروائی، جس میں معصوم اسکول جانے والے بچے جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ اگر بھارت واقعی امن، سلامتی اور بہتر ہمسائیگی تعلقات کا خواہاں ہے، تو اسے ریاستی دہشت گردی ختم کرنی چاہیے، کشمیریوں پر ظلم بند کرنا چاہیے، بین الاقوامی قانون، اقوام متحدہ کے منشور اور دوطرفہ معاہدوں کی پاسداری کرنی چاہیے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے لیے بامقصد بات چیت کرنی چاہیے۔