مصنوعی ذہانت سے نوزائیدہ بچوں کے دماغی نشوونما کی جانچ اب چند منٹوں میں ممکن
آج کے جدید دور میں مصنوعی ذہانت (اے آئی) نے زندگی کے مختلف شعبوں میں انقلاب برپا کردیا ہے، خاص طور پر میڈیکل کے شعبے میں اس کی اہمیت روز بروز بڑھ رہی ہے۔
طبی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی تازہ تحقیق کے مطابق مصنوعی ذہانت کی مدد سے نوزائیدہ بچوں کے دماغی نشوونما کی سطح کو صرف چند منٹوں میں جانچنا ممکن ہوگیا ہے۔
یہ پیش رفت بچوں میں دماغی نشوونما کے مسائل کی بروقت تشخیص اور مؤثر علاج میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔
تحقیق کے دوران 272 نوزائیدہ بچوں کے دماغی برقی سگنلز کا تجزیہ کیا گیا، جن میں سے 53 بچے ’میگاسفیلی‘ نامی حالت میں مبتلا تھے۔
یاد رہے کہ میگاسفیلی کی حالت میں بچے کے سر کا سائز غیر معمولی طور پر بڑا ہوتا ہے، جو دماغی نشوونما میں بے قاعدگیوں کا اشارہ ہوسکتا ہے۔
ماہرین نے اس تحقیق میں دو مختلف اے آئی ماڈلز استعمال کیے، پہلا روایتی مشین لرننگ ماڈل اور دوسرا جدید ڈیپ لرننگ ماڈل تھا، روایتی ماڈل مخصوص خصوصیات کا تجزیہ کرتا ہے جب کہ ڈیپ لرننگ ماڈل ڈیٹا کی مدد سے خود نتائج حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
تحقیق سے معلوم ہوا کہ ڈیپ لرننگ ماڈل نے بچوں کی دماغی عمر کی پیش گوئی میں زیادہ درستگی دکھائی، یہ ماڈل بتاسکتا ہے کہ بچے کی دماغی نشونما اس کی عمر کے مطابق ہے، تاخیر کا شکار ہے یا اس سے آگے بڑھ چکی ہے۔
ماہرین کے مطابق زندگی کے ابتدائی سال دماغی نشوونما کے لیے نہایت اہم ہوتے ہیں اور ان سالوں میں ہونے والی ذہنی تبدیلیاں مستقبل کی علمی اور سماجی صلاحیتوں کی بنیاد رکھتی ہیں۔
لہٰذا، دماغی نشوونما کی بروقت اور درست جانچ بچوں کی بہتر دیکھ بھال اور علاج کے لیے نہایت ضروری ہے۔
یہ تحقیق اس جانب واضح اشارہ کرتی ہے کہ مصنوعی ذہانت کی مدد سے نوزائیدہ بچوں میں دماغی مسائل کی جلد اور مؤثر تشخیص ممکن ہے۔
اس سے نہ صرف ڈاکٹروں کو علاج کی مؤثر منصوبہ بندی میں مدد ملے گی بلکہ والدین بھی اپنے بچوں کی صحت کے بارے میں بروقت اور درست معلومات حاصل کرسکیں گے۔