’عزت اور ساکھ کبھی بحال نہیں ہوسکتی‘، زیر حراست قیدیوں کی ویڈیوزسوشل میڈیا پر وائرل کرنا غیرقانونی

شائع May 29, 2025
آئین و قانون کے مطابق متاثرین کو قانونی کارروائی کا باقاعدہ حق حاصل ہے — فوٹو: اسکرین گریب
آئین و قانون کے مطابق متاثرین کو قانونی کارروائی کا باقاعدہ حق حاصل ہے — فوٹو: اسکرین گریب

ندا جاوید نے ایک نجی نیوز چینل سے گفتگو میں کہا کہ ہماری زندگیاں مکمل طور پر بدل گئی ہیں، ہم اس کے بعد کبھی بھی پہلے جیسے نہیں رہ سکتے اور یہ بہت تکلیف دہ ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ندا جاوید سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی اپنی ویڈیوز کے ردِعمل پر بات کر رہی تھیں، یہ ویڈیوز پولیس اہلکاروں نے 4 اپریل کو ایک تھانے میں اس وقت بنائی تھیں، جب انہیں پولیس کے مطابق قصور میں ایک ’غیرقانونی پارٹی‘ سے گرفتار کیا گیا تھا، ندا جاوید سوشل میڈیا انفلوئنسر ہیں، ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک میوزک کنسرٹ تھا۔

اس تقریب سے گرفتار کیے گئے 55 مرد و خواتین کو مصطفیٰ آباد تھانے لایا گیا، جہاں ان کی ویڈیوز بنائی گئیں جن میں ان کے چہرے واضح طور پر نظر آرہے تھے اور انہیں سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دیا گیا۔

غیرقانونی کارروائی پر تنقید کے بعد قصور کے ضلعی پولیس افسر عیسیٰ خان سکھیرا نے 5 پولیس اہلکاروں کو ویڈیوز بنانے، شائع کرنے اور چھاپے کی اطلاع منتظمین کو دینے کے الزامات پر معطل کر دیا۔

اس واقعے پر لاہور ہائی کورٹ نے بھی سخت ردِعمل دیا، پولیس کو قانون کی خلاف ورزی پر سرزنش کی اور پنجاب پولیس کے سربراہ سے فورس کی سوشل میڈیا کے استعمال کے بارے میں رپورٹ طلب کی۔

عمومی روش

پنجاب پولیس کے قوانین واضح طور پر افسران کو ایسی ویڈیوز بنانے سے منع کرتے ہیں جن سے مشتبہ افراد یا زیرِ سماعت قیدیوں کی شناخت ظاہر ہو۔

2020 میں پنجاب پولیس نے اپنے افسران کے سوشل میڈیا کے استعمال کے لیے ایک پالیسی جاری کی جس میں کہا گیا کہ کوئی بھی پولیس اہلکار ایسے مواد کا تبادلہ نہیں کرے گا جو گرفتار ملزمان کی شناخت، پولیس آپریشن یا تفتیش میں شامل اہلکاروں کی شناخت، یا تفتیش کی رازداری کی قانونی شرائط کی خلاف ورزی کرتا ہو۔

واضح ہدایات کے باوجود، پنجاب بھر کے تھانوں میں مشتبہ افراد کی ویڈیوز ان کے چہرے واضح طور پر دکھاتے ہوئے بنائی جاتی ہیں۔

روزنامہ ’ڈان‘ کے تجزیے سے معلوم ہوا کہ اگرچہ یہ ویڈیوز پولیس کے سرکاری سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر نہیں ڈالی جاتیں، پھر بھی اکثر گمنام اکاؤنٹس، مقامی کرائم رپورٹرز یا چھوٹے نیوز پلیٹ فارمز کے ذریعے یہ آن لائن آجاتی ہیں۔

کئی ویڈیوز جو آن لائن دستیاب ہیں، تھانوں کے اندر ریکارڈ کی گئی ہیں، جن میں مقامی پولیس اہلکاروں کو ملزمان کے ساتھ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

2021 سے اب تک ایسی 50 سے زائد ویڈیوز مختلف ٹک ٹاک اکاؤنٹس اور فیس بک صفحات پر پوسٹ کی جا چکی ہیں، یہ ویڈیوز مبینہ طور پر راولپنڈی، اٹک، میلسی، ہٹیاں، سیالکوٹ، لاہور، فتح جنگ، وہاڑی، کہروڑ پکا، ننکانہ صاحب، جہلم، ساہیوال، گوجر خان اور سرگودھا کے تھانوں میں ریکارڈ کی گئیں۔

پنجاب پولیس کے ترجمان نے ’ڈان‘ کو بتایا کہ محکمے کی پالیسی کے تحت زیرِ سماعت قیدیوں کی انٹرویوز یا ویڈیوز بنانا سختی سے ممنوع ہے۔

محکمہ تعلقاتِ عامہ کے سید مبشر حسین نے کہا کہ ہم زیرِ سماعت قیدیوں کے انٹرویوز کی اجازت نہیں دیتے۔

انہوں نے کہا کہ جو افسر اس پالیسی کی خلاف ورزی کرتا ہے اس کے خلاف محکمانہ کارروائی کی جاتی ہے۔

افسران، کرائم رپورٹرز کا گٹھ جوڑ

وکلا اور کرائم رپورٹرز نے ’ڈان‘ کو بتایا کہ یہ ویڈیوز پولیس افسران خود بناتے ہیں اور انہیں ذاتی تشہیر کے لیے پھیلاتے ہیں۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے 2 کرائم رپورٹرز، جنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی، وہ پولیس کے ساتھ باقاعدگی سے کام کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ تھانے کی سطح کے افسر، کانسٹیبل اور ایس ایچ اوز یہ ویڈیوز اپنی کارکردگی دکھانے اور عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے ریکارڈ اور تقسیم کرتے ہیں۔

ایک کرائم رپورٹر، جو ٹک ٹاک پر تھانوں میں بنائی گئی کئی ملزمان کی ویڈیوز شیئر کرتے ہیں، نے بتایا کہ جب پولیس کسی گینگ کو پکڑتی ہے تو وہ خاص طور پر ہم سے کوریج کی درخواست کرتی ہے۔

ایڈووکیٹ وشال احمد شاکر کہتے ہیں کہ پولیس افسران اور رپورٹرز کے درمیان گٹھ جوڑ ہے، جس میں یا تو پولیس اہلکار رپورٹرز کو خود بلاتے ہیں یا رپورٹرز پولیس کو زیرِ حراست ملزمان کے انٹرویوز لینے کے لیے پیسے دیتے ہیں۔

2023 میں وشال شاکر نے لاہور ہائی کورٹ میں ایک پبلک انٹرسٹ پٹیشن دائر کی، جس میں زیرِ حراست قیدیوں کے انٹرویوز نشر کرنے کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔

جسٹس علی ضیا باجوہ نے اس مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے پولیس کو ہدایت کی کہ وہ کسی بھی ایسی کارروائی میں معاونت نہ کرے جو شہری کے وقار، رازداری اور عزت کے حق کی خلاف ورزی ہو۔

’عزت کو نقصان‘

سابق انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) طارق کھوسہ نے کہا کہ یہ ویڈیوز نہ صرف قانون کی خلاف ورزی ہیں بلکہ صوبائی پولیس سربراہان کے احکام کی بھی خلاف ورزی کرتی ہیں۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ ملزمان کی ویڈیو صرف تفتیش کے دوران بطور ثبوت ریکارڈ کی جا سکتی ہے، اور ایسا بھی کسی دوسرے پولیس افسر یا شخص کی موجودگی میں اور ملزم کی رضامندی سے ممکن ہے۔

وشال شاکر کے مطابق سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی بیشتر ویڈیوز میں ایسے افراد شامل ہیں جو جوئے، پتنگ بازی، شیشہ نوشی اور جسم فروشی جیسے جرائم میں گرفتار کیے گئے تھے، جن کے مقدمات شاذ و نادر ہی سزا پر منتج ہوتے ہیں۔

’ڈان‘ کی جانب سے دیکھی گئی کم از کم 27 ویڈیوز میں خواتین ملزمان کے چہرے واضح طور پر نظر آرہے تھے، انہیں پارٹیوں، ہوٹلز، کوٹھوں اور مساج سینٹرز پر مبینہ چھاپوں کے دوران گرفتار کیا گیا اور ان پر فحاشی اور جسم فروشی کے الزامات لگائے گئے تھے۔

ایڈووکیٹ وشال شاکر کے مطابق جب خواتین ضمانت یا بری ہو کر معاشرے میں واپس آتی ہیں تو یہ ویڈیوز ان کے لیے شدید خطرے کا باعث بن جاتی ہیں، جسم فروشی کے 90 فیصد مقدمات بریت پر منتج ہوتے ہیں، کیونکہ جسم فروشی تبھی ثابت ہوتی ہے جب پیسے کا لین دین ثابت ہو۔

طارق کھوسہ کا کہنا ہے کہ خواتین سے متعلق ان ویڈیوز کا استعمال اکثر بلیک میلنگ اور بھتہ خوری کے لیے کیا جاتا ہے، یہ سب ذاتی مفاد کا معاملہ ہے۔

وشال شاکر کا کہنا تھا کہ یہ ویڈیوز کسی شخص کی عزتِ نفس کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتی ہیں، یہ آئین کے آرٹیکل 14 کی بھی خلاف ورزی ہیں، جو کہتا ہے کہ کسی انسان کی عزت کسی صورت پامال نہیں کی جاسکتی۔

انہوں نے مزید کہا کہ عدالتوں نے بارہا اس اصول کی توثیق کی ہے کہ بریت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جرم کیا ہی نہیں گیا، لیکن یہ ویڈیوز اس بات کو ختم کر دیتی ہیں کہ بری ہونے کے باوجود میری ساکھ اور عزت کبھی بحال نہیں ہو سکتی۔

متاثرین کو کیا قانونی حقوق حاصل ہیں؟

لاہور سے تعلق رکھنے والی ہائی کورٹ کی وکیل اقصیٰ جاوید کے مطابق اگر کسی فرد کی ویڈیوز اُس کی مرضی کے بغیر آن لائن شیئر کی جائیں تو اُسے درج ذیل قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل ہے۔

آئین کا آرٹیکل 14 ’وقار اور نجی زندگی کے حق‘ کی ضمانت دیتا ہے اور کسی ملزم کی ویڈیو بنانا یا اُسے عام کرنا بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، اس خلاف ورزی پر پولیس کے خلاف آئینی درخواست دائر کی جا سکتی ہے۔

مزید برآں، ایسے اقدامات اختیار کا ناجائز استعمال بھی شمار ہو سکتے ہیں، خاص طور پر تعزیراتِ پاکستان 1860 کی دفعہ 166 کے تحت، جو ایسے سرکاری ملازم سے متعلق ہے جو جان بوجھ کر کسی کو نقصان پہنچانے کی نیت سے قانون کی خلاف ورزی کرے۔

اگر ویڈیو ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر شیئر کی جائے تو یہ پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 (پیکا) کی خلاف ورزی بھی ہے، جس میں دفعہ 21 شامل ہے جو کسی شخص یا کم عمر فرد کی عزت و وقار کے خلاف جرائم سے متعلق ہے، اور دفعہ 24 جو سائبر اسٹاکنگ سے متعلق ہے، جس میں کسی کی تصویر یا ویڈیو اُس کی اجازت کے بغیر بنانا یا تقسیم کرنا شامل ہے۔

ایسے معاملات میں متاثرہ فرد قومی سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی میں انفرادی حیثیت میں پولیس کے خلاف شکایت درج کرا سکتا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 5 دسمبر 2025
کارٹون : 4 دسمبر 2025