کراچی: زلزلے کے دوران ملیر جیل سے 200 سے زائد قیدی فرار، ایک ہلاک، 2 زخمی
کراچی میں زلزلے کے جھٹکوں کے دوران ملیر جیل سے 200 سے زائد قیدی فرار ہوگئے، 78 سے زائد مفرور قیدیوں کو دوبارہ گرفتار کرلیا گیا، فرار ہونے کے دوران ایک قیدی ہلاک، جب کہ 2 زخمی ہوگئے۔
جیل انتظامیہ کا کہنا ہے کہ پیر کی رات زلزلے کے دوران نقصان سے بچنے کے لیے قیدیوں کو بیرکوں سے باہر بٹھایا گیا تھا، زلزلے کے دوران قیدیوں نے ہنگامہ آرائی شروع کردی۔
حکام کے مطابق قیدیوں نے پولیس اہلکاروں کو تشدد کا نشانہ بنایا، اور ماڑی کا گیٹ بھی توڑ ڈالا، ڈی آئی جی جیل خانہ جات حسن سہتو کے مطابق ملیر جیل میں سرچ آپریشن مکمل کرلیا گیا ہے، پولیس، رینجرز اور ایف سی نے ملیر جیل کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔
ملیر کے مختلف علاقوں میں لانڈھی جیل سے فرار قیدیوں کی گرفتاری کے لیے مساجد میں اعلان کا سلسلہ شروع کیا گیا، اعلانات میں شہریوں سے قیدیوں کی گرفتاری میں مدد کی اپیل کی گئی۔
وزیر داخلہ سندھ کا ملیر جیل کا دورہ
سندھ کے وزیر داخلہ ضیاالحسن لنجار نے ملیر جیل کا دورہ کرکے صورتحال کا جائزہ لیا اور میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ملیر جیل کی دیوار نہیں ٹوٹی، قیدی گیٹ سے باہر نکلے ہیں۔
ضیاالحسن لنجار نے کہا کہ فرار ہونے والے قیدی سنگین جرائم میں ملوث نہیں تھے، ملیر جیل میں پیش آنے والے واقعے میں کوتاہی بھی ہوسکتی ہے۔
مفرور قیدیوں کی گرفتاری کیلئے ٹیمیں تشکیل، تحقیقات ہوگی
انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) سندھ غلام نبی میمن نے تصدیق کی کہ گزشتہ شب کراچی کی ڈسٹرکٹ جیل ملیر سے 200 سے زائد قیدی فرار ہو گئے تھے، تاہم انہوں نے بتایا کہ فرار قیدیوں میں سے 78 کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا ہے، جب کہ ایک قیدی لگنے سے ہلاک ہوگیا۔
پولیس حکام نے بتایا کہ قیدی جیل کی بیرونی دیوار کو توڑ کر فرار ہوئے، جو اتوار سے علاقے میں محسوس کیے جانے والے کئی کم شدت کے زلزلوں کے باعث کمزور ہو چکی تھی، پولیس نے پورے علاقے کو گھیرے میں لے لیا، اور کسی کو بھی شناخت کے بغیر اندر یا باہر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی پی) غلام نبی میمن نے بتایا کہ 138 قیدیوں کی گرفتاری کے لیے ٹیمیں تشکیل دی جا رہی ہیں، انہوں نے جیل کا دورہ کیا اور جیل و پولیس حکام سے بریفنگ لی ہے، غلام نبی میمن کے مطابق جیل میں تقریباً 2 ہزار قیدی موجود تھے، جنہیں زلزلے کے بعد تقریباً رات 12:45 بجے بیرکوں سے نکال کر گنتی کے لیے جمع کیا گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ زیادہ تر قیدی نشے کے عادی تھے، ایسے قیدیوں کی ذہنی کیفیت ایسی ہوتی ہے کہ وہ ہجوم کی نفسیات کا شکار ہو جاتے ہیں، لہٰذا جب جیل کے اندر ایسا ماحول بنا، تو قیدیوں نے جیل کا دروازہ کھول کر بھاگنے کی کوشش کی۔

پولیس سربراہ نے بتایا کہ جیل مین تعینات فرنٹیئر کور (ایف سی) اہلکاروں نے قیدیوں کو روکنے کے لیے ہوائی فائرنگ کی، اور اندازاً 700 گولیاں چلائی گئیں، جیل سے تقریباً 213 فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں نے فوری کارروائی کرتے ہوئے 78 قیدیوں کو دوبارہ گرفتار کیا،کارروائی کے دوران ایک قیدی گولی لگنے سے ہلاک ہوا، جب کہ 2 دیگر زخمی ہوئے، اس وقت صورت حال مکمل طور پر قابو میں ہے۔
سندھ پولیس کے سربراہ نے کہا ہے کہ مفرور 138 قیدیوں کو دوبارہ گرفتار کرنے کے لیے ٹیمیں تشکیل دی جا رہی ہیں، ایک قیدی کو اس کی والدہ خود واپس جیل لے کر آئیں، پولیس اور جیل انتظامیہ کے پاس تمام فرار شدہ قیدیوں کی معلومات موجود تھیں۔
ایک سوال کے جواب میں صوبائی پولیس سربراہ نے رائے دی کہ بظاہر کچھ کوتاہیاں ضرور ہوئی ہوں گی، جن سے فائدہ اٹھا کر قیدی فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔
تاہم انہوں نے بتایا کہ سندھ حکومت نے اس واقعے کی وجوہات معلوم کرنے اور ذمہ داری کا تعین کرنے کے لیے ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

پولیس سرجن ڈاکٹر سمیّہ سید نے بتایا کہ 45 سالہ ایک نامعلوم قیدی کو جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر لایا گیا، جہاں وہ گولی لگنے کے باعث پہلے ہی دم توڑ چکا تھا، ڈاکٹر پولیس کے قانونی کاغذات کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ پوسٹ مارٹم کیا جا سکے۔
پولیس سرجن نے مزید بتایا کہ 4 دیگر قیدی، جو گولیوں سے زخمی ہوئے تھے، انہیں بھی علاج کے لیے اسپتال لایا گیا، زخمی قیدیوں 28 سالہ محمد طاہر، کو بائیں بازو پر گولی لگی اور گولی جسم سے باہر نہیں نکلی، 25 سالہ عبد الہادی جس کے کولہے اور ران پر گولیاں لگیں، 35 سالہ اختر نعیم جس کو پچھلے حصے پر گولی لگی۔
پولیس سرجن نے بتایا کہ قیدیوں کے حملے کے دوران 2 پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے، جن کے نام 22 سالہ سکندر اور 40 سالہ محمد شمریز ہیں، ان کو پاؤں، کمر اور گردن میں چوٹیں اور خراشیں آئیں، جن کا ہسپتال میں علاج کیا جا رہا ہے۔













لائیو ٹی وی