’پاکستان اس موڑ پر بھی واشنگٹن اور تہران کے درمیان ثالثی کا اہم کردار ادا کرسکتا ہے‘
ایران اسرائیل تنازعے کے حوالے سے پاکستان کے پاس کوئی بہتر آپشن موجود نہیں خاص طور پر اب کہ جب امریکا بھی اس میں ملوث ہوچکا ہے۔
اگر پاکستان اس سے دور رہنے کا انتخاب کرتا ہے تب بھی اسے پناہ گزینوں کے سرحد پار کرنے یا ہتھیاروں کی اسمگلنگ جیسے محرکات کی صورت میں بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔ پاکستان، ایران سے آنے والے بلوچ عسکریت پسندوں اور بھارت اور اسرائیل کے قریبی تعلقات کے پیش نظر اس امکان کے حوالے سے بھی تشویش میں مبتلا ہے کہ اسرائیل، ایران کی فضائی حدود کا طویل مدتی کنٹرول حاصل کرلے یا وہاں اسرائیل دوست حکومت کا قیام عمل میں آئے۔
اگر پاکستان ایران کا ساتھ دیتا ہے تو خطرہ ہے کہ وہ بین الاقوامی سطح پر تنہا ہوجائے گا جبکہ اسے اپنی سرزمین پر اسرائیلی یا امریکی حملوں کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ دوسری جانب امریکا اور اُن خلیجی ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات خراب ہوسکتے ہیں جو ایران کی حمایت نہیں کرتے اور یوں پاکستان کے مشرق وسطیٰ کے تنازع میں براہ راست شمولیت کا خطرہ ہے۔
اگر پاکستان، اسرائیل کی حمایت کرنے میں امریکا کی مدد کرتا ہے خاص طور پر اگر اضافی امریکی حملوں کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے تو یہ ماضی کی غلطیوں کی طرح پاکستان کے لیے سنگین مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔ جہاں امریکا کا ساتھ دینے سے واشنگٹن کے ساتھ تعلقات مضبوط ہوسکتے ہیں اور قیمتی ڈالرز مل سکتے ہیں وہیں یہ ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کو بھی جنم دے گا اور بلوچ عسکریت پسندی میں بھی اضافہ ہوگا (کیونکہ تہران سرحد پار سے باغی گروپوں کو فعال کرکے پاکستان کو کمزور کرنے کی کوشش کر سکتا ہے)۔
دیگر گروہ جو ممکنہ طور پر پُرتشدد اور نوآبادیاتی مخالف جذبات رکھتے ہیں، تنازعے کا حصہ سمجھ کر ریاست پر بھی حملہ کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایرانی تیل تک رسائی ختم ہونے سے پاکستان کی معیشت کو بھی قابلِ ذکر نقصان پہنچے گا۔
ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملے کے بعد بھی تنازع کا مذاکرات کے ذریعے خاتمہ بہترین انتخاب ہے لیکن ابھی یہ آپشن زیرِ غور نہیں کیونکہ ایران امریکی حملوں کے خلاف جوابی کارروائی کرنے کے لیے خود کو پابند محسوس کرے گا۔ تاہم واشنگٹن یہ مطالبہ کررہا ہے کہ ایران اسی صورت میں مذاکرات کی میز پر آئے کہ جب وہ جوہری افزودگی ترک کرنے کے لیے تیار ہو۔
اپنے جوہری پروگرام کی مکمل معطلی پر تہران کی رضامندی کا امکان نہیں ہے خاص طور پر اس روشنی میں کہ پچھلے دو سالوں میں ایران اور اس کی پراکسیز کے خلاف اسرائیلی اور امریکی اقدامات میں تیزی آئی ہے۔ اگر کچھ ہوگا تو ممکنہ طور پر یہ ہوگا کہ ایران کی حکومت مستقبل میں حملوں کو روکنے کے لیے جوہری پروگرام کی تعمیرِ نو پر اب زیادہ توجہ دے گی۔
دوسری جانب اسرائیلی حالیہ چند ماہ میں عادی ہوچکے ہیں کہ وہ من چاہی کارروائیاں کرے جیسے انہیں استثنیٰ ملا ہوا ہے جبکہ امریکا نے انہیں اپنی غیرمشروط حمایت کا یقین دلایا ہے (حالانکہ امریکا میں اس طرح کی حمایت کے خلاف رائے عامہ میں تبدیلی آنا شروع ہو گئی ہے۔)
اس موڑ پر بھی پاکستان، واشنگٹن اور تہران کے درمیان ثالثی کا اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ پاکستان بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ساتھ اپنے معنی خیز تعلقات اور ایک ’فرنٹ لائن‘ ریاست کے طور پر اپنے ماضی کے تجربے کی وجہ سے ایسا کرنے کی اچھی پوزیشن میں ہے۔
ہماری اسٹیبلشمنٹ امریکا کو یہ بھی یاد دلا سکتی ہے کہ خطے میں ماضی کی مغربی فوجی کارروائیاں کس طرح ناکام ہوئیں اور ہم مزید حملوں کے بجائے تحمل سے کام لینے پر زور دے سکتے ہیں۔ لیکن یہ بھی آسان نہیں کیونکہ شاید پاکستان کے لیے ایران پر امریکی بنکر بسٹر حملوں پر بات کرنا مشکل ہو کیونکہ خدشہ ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام پر کوئی بھی مؤقف اختیار کرنے سے عالمی توجہ پاکستان کے جوہری اثاثوں پر مبذول ہوسکتی ہے۔
اس بحران میں پاکستان کے محدود آپشنز، اُس قومی حکمت عملی کے نتائج کو ظاہر کرتے ہیں کہ جہاں سیکیورٹی اور فوج پر بہت زیادہ توجہ مرکوز ہے۔ دیگر ممالک کے برعکس پاکستان کے پاس انسانی حقوق، تجارت، علاقائی تعاون یا ٹیکنالوجی و دیگر کے گرد گھومتے مضبوط پیغامات نہیں ہیں جو اس کے ردعمل کو ترتیب دے سکیں۔ امریکی حملوں کے بعد پاکستان کی سب سے بڑی تشویش ممکنہ طور پر یہ یقینی بنانا ہوگا کہ اس کا جوہری پروگرام اس طرح کے کسی حملے سے محفوظ رہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک اپنے تمام معاملات میں سلامتی کو ترجیح دے گا۔
پاکستان اس مشکل میں تنہا نہیں ہے۔ آج کی ’انسانی حقوق کے خاتمے‘ کی دنیا میں جب انسانی طاقت اور آزاد عالمی فیصلہ سازی کو نمایاں اہمیت نہیں دی جاتی تو اس دور میں سیکیورٹی اور فوجی اہداف کو ترجیح دینا ناگزیر ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 2023ء میں انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر ایک مختلف کہانی بیان کی جارہی تھی جس میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ انسانی حقوق اب بھی اہم ہیں اس حقیقت کے باوجود کہ یہ گلوبل نارتھ کی منافقانہ خارجہ پالیسیز کی وجہ سے پیدا ہونے والے تاریک نقطہ نظر کے برعکس تھا جہاں انسانی حقوق کو حقیقی طور پر برقرار رکھنے کے بجائے اکثر سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
جیوف ڈینسی اور کرسٹوفر فیئرس کی جانب سے 109 ممالک کے گوگل ٹرینڈز ڈیٹا کے تجزیے کی بنیاد پر کی گئی تحقیق ظاہر کرتی ہے کہ انسانی حقوق میں دلچسپی کم نہیں ہوئی ہے بلکہ گلوبل ساؤتھ کے لوگ گلوبل نارتھ کے لوگوں کی نسبت انسانی حقوق کے مسائل میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ اسی طرح اوپن سوسائٹی فاؤنڈیشنز کے 2023ء کے سروے میں سامنے آیا کہ دنیا بھر میں 72 فیصد لوگ خاص طور پر گلوبل ساؤتھ میں انسانی حقوق کے حوالے سے مثبت نظریہ رکھتے ہیں۔
غزہ اور سوڈان جیسے خطوں میں تنازعات اور جنگ سے جنم لینے والے قحط جیسے بحرانوں کی وجہ سے انسانی حقوق کے بارے میں یہ مثبت نظریہ پچھلے دو سالوں میں کمزور ہوا ہے۔ لیکن پھر بھی واضح طور پر ایک ایسے حل کی خواہش کی جاتی ہے جو صرف فوجی یا سیکیورٹی طریقوں پر منحصر نہ ہو۔ ممکن ہے کہ پاکستان بنیادی عناصر جیسے انسانی حقوق کے تحفظ اور وقار کو اولین ترجیح بنا کر ایران بحران کی دلدل سے نکلنے کا ایک بہتر راستہ تلاش کرلے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔