اگر ایران بم بنا لیتا ہے تو کیا سعودی عرب یا ترکیہ بھی جوہری طاقت بنیں گے؟

شائع June 24, 2025

امریکا نے آپریشن مڈ نائٹ ہیمر میں ایران کی تین جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا تو دنیا نے دو جوہری ہتھیار رکھنے والی ریاستوں کو مشترکہ طور پر ایک ایسی ریاست پر حملہ کرتے ہوئے دیکھا جس نے مذہبی فتوے کی وجہ سے جوہری بم بنانے سے گریز کیا۔

کیا جوہری ہتھیاروں کی مخالفت کرنا ایران کی غلطی تھی؟ اس کا جواب شاید کسی حد تک 2018ء کی سنگاپور کی تصاویر میں موجود ہے کہ جن میں پیانگ یانگ سے تعلق رکھنے والے جوان نظر آنے والے موٹے مضبوط شخص نے امریکی صدر سے یادگار ملاقات میں ڈونلڈ ٹرمپ کو آسانی سے اپنے قابو میں کیا۔

اتوار کی صبح ایران پر ہونے والی بمباری کے بعد یہ تصور کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ کیا شمالی کوریا کبھی بھی اپنے جوہری ہتھیاروں کو ترک کرے گا جس نے اس کے ملک کو محفوظ رکھا ہوا ہے؟ خود ایران میں اور اس کی حکومت میں شامل لوگ یہ آواز اٹھا رہے ہیں کہ ایران کو ایٹم بم رکھنے کے خلاف قانون کو منسوخ کردینا چاہیے اور جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے سے دستبردار ہوجانا چاہیے۔

اگر ایران بم بنا لیتا ہے (جس کا آیت اللہ خامنہ ای کی نگرانی میں امکان نہیں) تو کیا سعودی عرب یا ترکیہ بھی جوہری طاقت بنیں گے؟

ٹرمپ شاید ٹی وی چینلز پر فتح کے جھنڈے لہرا رہے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے بہت سے فکرمند ممالک کے درمیان جوہری طاقت رکھنے کی خواہش کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ اگرچہ فردو، نطنز اور اصفہان جوہری تنصیبات پر گرائے جانے والے بنکر بسٹر بموں سے ہونے والے نقصان کی حد کے بارے میں تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں لیکن ایرانی حکام کے مطابق کم نقصان ہوا ہے۔

اس کے علاوہ اہم بات یہ ہے کہ افزودہ یورینیم اور ممکنہ طور پر اہم آلات فردو پر حملے سے پہلے ہی خفیہ مقامات پر منتقل کیے جاچکے تھے۔ ضروری نہیں کہ وہ جوہری ہتھیار بنا رہے تھے بلکہ ایسا یہ ظاہر کرنے کے لیے تھا کہ ایران کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ پُرامن جوہری توانائی کی تیاری کے لیے اپنی دیرینہ کوشش جاری رکھے۔

ہفتے کی رات کو بی 2 بمباروں کی جانب سے مہلک مشن سے تین روز قبل 19 جون کو ایک کالم میں تحقیقی صحافی سیمور ہرش نے انکشاف کیا کہ ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کا یہ کام جلد ہی ’اس ہفتے کے آخر‘ میں کیا جائے گا تاکہ اسٹاک مارکیٹس میں اتار چڑھاؤ پیدا نہ ہو۔

سیمور ہرش نے یہ بھی وضاحت کی کہ یہ حملے ہفتے کے شروع میں کیوں نہیں کیے گئے۔ جمعرات کو انہوں نے لکھا، ’تاخیر ٹرمپ کے اصرار پر ہوئی ہے کیونکہ صدر چاہتے ہیں کہ پیر کو وال اسٹریٹ ٹریڈنگ کے آغاز سے قبل بم دھماکوں کے اثرات کسی حد تک کم ہوجائیں‘۔

امریکی حملے کے حوالے سیمور ہرش کی اندرونی معلومات پر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ایران پر ممکنہ اگلے اقدامات کیا ہوں گے۔ ایک بڑا مقصد ایران کی حکومت کو تبدیل کرنے کی امریکا کی دیرینہ خواہش لگتی ہے۔ واشنگٹن میں طویل عرصے سے متحرک ایک امریکی اہلکار جنہیں سیمور ہرش نے معتبر قرار دیا، بتایا کہ اگر ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای ’رخصت‘ ہوجاتے ہیں تو معاملات ’کنٹرول‘ میں ہوں گے۔

انہوں نے اس منصوبے کے حوالے سے اپنے شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔ ’کوئی بھی نہیں جانتا کہ یہ کیسے ممکن ہے جب تک کہ (خامنہ ای کو) قتل نہیں کردیا جاتا۔ امریکی فوجی طاقت کے استعمال اور ایران میں اہداف کو نشانہ بنانے کے بارے میں بہت سی باتیں کی گئی ہیں لیکن کم از کم جو میں دیکھ سکتا ہوں وہ زیادہ حقیقت پسندانہ سوچ کا فقدان ہے کہ وہ ایک انتہائی قابل احترام مذہبی رہنما کو کیسے ہٹائیں گے جن کے بڑی تعداد میں پیروکار ہیں‘۔

1979ء کے انقلاب کی تاریخ اور 45 سال تک اسے برقرار رکھنے والی حکومت کا ایک مختصر جائزہ ظاہر کرتا ہے کہ خامنہ ای کو قتل کرنے سے خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئیں گے۔ جان بولٹن کی قیادت میں نیوکون لابیسٹوں نے بی 2 بمباروں کی تعریف کی ہے اور اب وہ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے اور موساد سے امید کر رہے ہیں کہ وہ ناراض لسانی اقلیتوں جیسے آذریوں، کردوں، بلوچوں سمیت دیگر لوگوں کی مدد سے خانہ جنگی کریں۔

اس اسکرپٹ میں افراتفری اور امن و امان کا بحران پیدا کرنے کے لیے تھانوں پر بمباری کرنا شامل ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ایران کے حکمران علما نے ماضی میں اس سے بھی بدتر حالات کا سامنا کیا ہے۔ نسلی اقلیتوں کی وجہ سے نہیں بلکہ ماؤزے تنگ نواز مرحوم رہنما مسعود راجوی اور ان کے گروپ مجاہدینِ خلق (ایم ای کے) جیسے فارسی مخالفین سے بھی انہیں مشکل صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ 1981ء میں انہوں نے پارلیمنٹ میں دھماکا کرنے سمیت بڑے دیگر حملے بھی کیے تھے۔

اس حملے کے نتیجے میں صدر محمد علی رجائی اور وزیر اعظم محمد جواد باہنر سمیت کئی اعلیٰ عہدے دار جاں بحق ہوئے۔ اس سے قبل ہونے والے ایک بم دھماکے میں پُرکشش شخصیت رکھنے والے چیف جسٹس آیت اللہ بہشتی جاں بحق ہوئے تھے جو آیت اللہ خمینی کے جان نشین مانے جاتے تھے۔

1981ء میں جس دن مجاہدینِ خلق نے ناصر خسرو اسکوائر پر ملک کی ٹیلی کمیونیکیشن کی عمارت کو نشانہ بنایا، ان دنوں میں تہران میں تھا۔ کئی دنوں تک دنیا سے رابطہ منقطع ہوگیا تھا۔ یاد رہے کہ ایران اس وقت امریکی حمایت یافتہ عراقی حملے کا مقابلہ کررہا تھا جبکہ ایرانی فوجیوں کو صدام حسین کے کیمیائی ہتھیاروں کا سامنا تھا۔

ماضی کے ان تجربات کی وجہ سے 13 جون کو اسرائیل کا اچانک حملہ جو مبینہ طور پر مجاہدینِ خلق کی مدد سے کیا گیا تھا، ایران کے لیے حیران کُن نہیں تھا یا ایسا نہیں تھا کہ جس کے لیے وہ مکمل طور پر تیار نہیں تھا۔ شہید ہونے والے اعلیٰ فوجی رہنماؤں کے منصب پر فوری طور پر دیگر کو تعینات کردیا گیا اور ایران کے قابلِ اعتماد ماہرین کے مطابق، ضرورت پیش آنے پر نئے سپریم لیڈر کا انتخاب کرنے کا منصوبہ بھی پہلے سے ہی موجود ہے۔

1991ء میں سیمور ہرش نے اپنی کتاب میں نہ صرف ایران کے لیے بلکہ دنیا کے لیے ایک انتہائی تشویشناک امکان کو بیان کیا۔ ’سیمسن آپشن‘ نامی سیمور ہرش کی کتاب کا نام بائبل کے اس طاقتور ہیرو سے ماخوذ ہے جو اپنے دشمنوں کے ہاتھوں اندھا ہونے کے باوجود اپنے ہاتھوں سے ستونوں کو گرا کر ایک بہت بڑا مندر تباہ کر دیتا ہے اور خود بھی اس کے ملبے تلے دب کر مرجاتا ہے۔

سیمسن آپشن کے پیچھے خیال یہ ہے کہ ایران کی جانب سے انتہائی نازک اہداف پر تباہ کن میزائل حملوں کے نتیجے میں اسرائیل جوہری راستہ اختیار کرسکتا ہے۔ یہ خطرناک امکان مزید بڑھ سکتا ہے کہ اگر ٹرمپ اپنے ’میک امریکا گریٹ اگین‘ (MAGA) کے حامیوں (اور ممکنہ طور پر صدر ولادیمیر پیوٹن) کی جانب سے دباؤ ڈالے جانے پر اپنے اسرائیل نواز حامیوں سے کہہ دیں کہ انہوں نے ایران کے جوہری عزائم کو کچل کر وہ کردار ادا کردیا جس کی ان سے توقع کی جارہی تھی۔

توقع ہے کہ ایران کے وزیر خارجہ ماسکو میں پیوٹن سے اس خوفناک امکان پر تبادلہ خیال کریں گے اور امریکی اڈوں پر حملہ کرکے جنگ کو بڑھانے کے بجائے اسے ختم کرنے کی راہ تلاش کی ہوگی (تادمِ تحریر تہران نے امریکی اڈوں پر حملہ نہیں کیا تھا)۔

جہاں تک ایران میں حکومت کی تبدیلی کے امکانات کا تعلق ہے تو مریم، مسعود راجوی کی بیوہ اور مرحوم شاہ کا بیٹا ایران کا چارج سنبھالنے کے لیے کوشاں ہیں۔ مجاہدینِ خلق کو غدار کے طور پر شدید نفرت کا سامنا ہے جبکہ رضا پہلوی کا اسرائیل مخالف ہے۔ کیوں؟ شاہ ایران نے امریکا میں میڈیا، بینکوں اور مالیاتی اداروں پر اسرائیلی لابی کے کنٹرول پر مشہورِ زمانہ تنقید کی تھی۔ انہوں نے ہی ایران کی جوہری صلاحیتوں پر کام شروع کیا تھا۔

دوسری جانب خامنہ ای کی زیر قیادت موجودہ حکومت درحقیقت ایران کو بم بنانے سے روکنے کا سب سے مضبوط راستہ ہوسکتی ہے۔ تاہم اس کا انحصار قضیہ فلسطین کے منصفانہ اور دیرپا حل پر ہوگا۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

جاوید نقوی

لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 6 جولائی 2025
کارٹون : 5 جولائی 2025