سپریم کورٹ کا نکاح نامے کو سادہ اور قابل رجسٹرار یقینی بنانے کا حکم
سپریم کورٹ نے حکومت کو نکاح نامے کو آسان بنانے اور یہ یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے کہ نکاح رجسٹرار قابل، ذی علم اور دیانت دار ہوں تاکہ شادی کے بندھن میں بندھنے والے دلہا اور دلہن کے حقوق کا تحفظ کیا جا سکے۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق یہ ہدایات جمعرات کو جاری کیے گئے ایک فیصلے میں دی گئی ہیں۔
یہ فیصلہ 3 رکنی بینچ میں شریک جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے تحریر کیا گیا ہے، یہ بینچ ایک مرد اور عورت کی طرف سے دائر کردہ اپیلوں کی سماعت کر رہا تھا، جو نکاح نامے میں حق مہر سے متعلق درج شرائط پر متفق نہیں تھے۔
فخرہ جبین نامی خاتون نے 13 دسمبر 2021 کے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی، لاہور ہائی کورٹ نے قرار دیا تھا کہ نکاح نامے میں درج شرائط کی تشریح ہمیشہ دلہا کے حق میں کی جانی چاہیے، کیونکہ نکاح کے اس معاہدے میں درج ذمہ داریوں کا بوجھ اسی پر ہوتا ہے۔
22 صفحات پر مشتمل اس فیصلے میں جسٹس اطہر من اللہ نے افسوس کا اظہار کیا کہ نکاح نامے کی تشریح کے تنازعات کی ایک بڑی تعداد سپریم کورٹ تک پہنچ رہی ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ فیملی رولز کے ساتھ منسلک نکاح نامے کے فارمیٹ پر نظرثانی کی ضرورت ہے اور اسے ایسا بنایا جائے کہ ایک عام تعلیم یافتہ فرد بھی اس کے تقاضوں اور خانوں کو سمجھنے میں دشواری محسوس نہ کرے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ موجودہ فارم میں استعمال ہونے والے الفاظ مبہم ہیں اور اس وجہ سے ان کی مختلف انداز میں تشریح ہو سکتی ہے۔
فیصلے کے مطابق وفاقی اور صوبائی حکومتیں نکاح نامے کے فارمیٹ پر نظر ثانی کریں تاکہ اسے زیادہ آسان اور قابلِ فہم بنایا جا سکے اور ان مبہم اصطلاحات کو دور کیا جا سکے جن سے غلط فہمیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔
یہ اقدام نہ صرف فریقین، بالخصوص خواتین کے حقوق کا تحفظ کرے گا بلکہ عدالتی تنازعات میں بھی کمی آئے گی، کیونکہ زیادہ قابلِ فہم نکاح نامہ تنازعات کو جنم دینے کے بجائے ان کی روک تھام کرے گا۔
قابل رجسٹرار
فیصلے میں کہا گیا کہ کئی مقدمات صرف اس وجہ سے پیدا ہوئے کیونکہ نکاح نامے کے کالموں کی سرخیاں مبہم تھیں یا نکاح رجسٹرار نے اپنی قانونی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں۔
جج نے مشاہدہ کیا کہ نکاح رجسٹرار کی دیانت داری، اہلیت، علم اور فہم فریقین کے حقوق، بالخصوص خواتین کے تحفظ کے لیے نہایت اہم ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ ان اہلکاروں کو مسلم فیملی لاز آرڈیننس کی دفعہ 5 (2) کے تحت لائسنس دیا جاتا ہے تاکہ وہ یہ یقینی بنائیں کہ دونوں فریق اپنے حقوق کا استعمال کر رہے ہیں اور نکاح نامے میں کی گئی اندراجات ان کے ارادوں کی درست عکاسی کرتی ہیں۔
حکومت پر لازم ہے کہ وہ یونین کونسلوں کی مناسب رہنمائی کرے اور نکاح رجسٹرار کو لائسنس جاری کرنے کے لیے درکار اہلیت اور معیار متعین کرے۔
اس کے علاوہ، ان اہلکاروں کی تربیت اور کارکردگی کا جائزہ بھی ضروری ہے تاکہ سماجی یا ثقافتی روایات و اثرات خواتین کو دیے گئے قانونی حقوق پر حاوی نہ ہو سکیں۔
پنجاب میں صوبائی اسمبلی نے نکاح رجسٹرارز کے لیے لازم قرار دیا ہے کہ وہ نکاح نامے کے تمام خانوں کو دلہا اور دلہن کی مخصوص معلومات سے درست طور پر پُر کریں۔
فیصلے میں کہا گیا کہ اس ذمہ داری کی خلاف ورزی کی صورت میں نکاح رجسٹرار کو ایک ماہ تک قید اور 25 ہزار روپے جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے، اس قانون سازی کا مقصد خواتین کو استحصال سے بچانا اور ان کے خاندانی تنازعات اور متعلقہ معاملات کے فوری حل کو یقینی بنانا ہے۔
عدالت نے یہ بھی ہدایت کی کہ فیصلے کی کاپیاں کابینہ سیکریٹری اور تمام صوبوں کے چیف سیکریٹریز کو بھیجی جائیں تاکہ وہ نکاح ناموں اور رجسٹرارز سے متعلق مشاہدات اور تجاویز پر غور کریں۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’ہم توقع کرتے ہیں کہ ایسے مؤثر اقدامات کیے جائیں گے جو نکاح کے فریقین، خاص طور پر دلہن کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائیں، کیونکہ وہ مختلف وجوہات، جیسے سماجی اور ثقافتی روایات کی بنا پر زیادہ غیر محفوظ ہو سکتی ہے‘۔













لائیو ٹی وی