مخصوص نشستوں کا فیصلہ: ’کمزور عوام کو آنے والے وقت کے لیے کمر کس لینی چاہیے‘
وہ راز جسے جانتے تو سب تھے لیکن گزشتہ ہفتے باضابطہ طور پر کھُل کر سامنے آچکا ہے کہ جب عدالت نے اپنی لامحدود حکمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی مخصوص نشستیں حکمران اتحاد و دیگر کو دینے کا فیصلہ دیا۔ عدالت کے اس فیصلے پر چند حلقوں نے نشاندہی کی کہ سپریم کورٹ کے نئے بنائے گئے بینچ نے وہی فیصلہ دیا جس کی ان سے توقع تھی۔
آئندہ دنوں میں اس پیش رفت کی قانونی تفصیلات بتانے کی کوشش کرنے کے لیے طویل اخباری مضامین اور ٹی وی مذاکرے ہوں گے۔ وہ مختلف قوانین اور آئین کے پہلوؤں کے بارے میں بات کریں گے لیکن یہ زیادہ تر ان لوگوں کے لیے الجھن کا باعث ہوں گے جو قانونی ضوابط سے واقف نہیں۔
تاہم باقی ہم لوگ یہ سوچتے رہیں گے کہ بعض پسندیدہ سیاسی جماعتیں پارلیمنٹ میں اضافی نشستیں کیسے حاصل کر سکتی ہیں حالانکہ انہوں نے تو انتخابات میں بھی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کی تھی۔ مخصوص نشستیں کسی بھی سیاسی جماعت کی جانب سے براہ راست پارلیمان میں جیتی جانے والی نشستوں کی بنیاد پر مختص کی جاتی ہیں (لیکن پی ٹی آئی کو شمار نہیں کیا جارہا)۔
ایکس پر صحافی مجید نظامی نے مختصر طور پر اس کی نشاندہی کی۔ انہوں نے لکھا کہ مسلم لیگ (ن) خیبرپختونخوا سے براہ راست صرف 3 نشستوں پر منتخب ہوئی ہے لیکن صوبے کی خواتین کے لیے مختص نشستوں میں سے اسے 5 نشستیں ملیں گی۔ اسی طرح جمعیت علمائے اسلام (ف) کے 2 اراکین خیبرپختونخوا سے منتخب ہوئے ہیں لیکن انہیں 3 مخصوص نشستیں جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کو 2 نشستیں ملیں گی حالانکہ ان کا صرف ایک نمائندہ خیبرپخونخوا سے منتخب ہوا ہے۔
عام لوگوں کے لیے اس فیصلے کی پیچیدہ ریاضی کو سمجھ پانا شاید مشکل ہو لیکن وہ پاکستانی تاریخ کے سادہ اصول سے بخوبی واقف ہیں جوکہ یہ ہے کہ ہماری عدالتیں اپنی روایت کی پیروی کرتی ہیں کہ جہاں سیاسی طاقت اکثر قانونی قواعد سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے حالانکہ ہونا اس کے برعکس چاہیے۔
کئی ماہ سے ٹی وی اسکرینز پر پیغام رساں کم معلومات رکھنے والے لوگوں کو یہ بتا رہے تھے کہ پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں نہیں ملنے والی ہیں۔ اور ایسا اس لیے نہیں کہ پی ٹی آئی کچھ طاقت حاصل کرلے گی اور دوبارہ مزاحمت کرنے کی حالت میں آجائے گی۔ نہیں! یہ فیصلہ کبھی بھی پی ٹی آئی کے بارے میں تھا ہی نہیں۔ یہ معاملہ حکمران اتحاد کو دو تہائی اکثریت دینے کا تھا۔
اس طرح وہ 26ویں ترمیم کے دوران دیکھے جانے والے ڈرامے اور کسی کے آگے پیچھے ہونے سے بچ سکتے تھے جہاں حکومت کی حمایت کے لیے دوسری جماعتوں کو قائل کرنے کی کوشش میں کافی وقت، ایندھن اور ایئر کنڈیشننگ ضائع کی گئی تھی۔ معاشی مشکلات کے اس دور میں بہتر ہے کہ ایسی چیزوں پر پیسہ خرچ نہ کیا جائے۔
اب جبکہ حکمران اتحاد کے پاس مضبوط اکثریت ہے، قوانین بہت تیزی سے منظور کیے جاسکتے ہیں جبکہ وقت اور پیسے دونوں کی بچت ہوگی۔ ہمیں بتایا جارہا ہے کہ قوانین کی ایک طویل فہرست ہے جس میں تبدیلی کے ارادے ہیں۔ ان میں موجودہ ’ہائبرڈ‘ نظام کو قانونی سرپرستی فراہم کرنا، سرکاری اختیارات کے ذریعے کسی کے کنٹرول کو مضبوط کرنا یا 18ویں ترمیم کے کچھ حصوں کو کالعدم کرنا بھی شامل ہوسکتا ہے۔ یعنی امکانات تو بےپناہ ہیں۔ جیسا کہ کہاوت ہے کہ جتنے منہ اتنی باتیں۔ یہ اس لیے بھی سچ ہے کیونکہ دیکھا جائے گا کہ اب آنے والے دنوں اور مہینوں میں اب پارلیمنٹ سے کیا منظور ہوگا۔
یہ صرف نئے قوانین تیزی سے منظور کروانے کے حوالے سے نہیں۔ کنال منصوبہ بھی واپس آسکتا ہے جبکہ 2022ء میں کیے گئے عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد ایک بار پھر اسی طریقے سے خیبرپختونخوا میں بھی پی ٹی آئی حکومت کو گھر بھیجنے کی بھی باتیں ہورہی ہے۔ اب فیصلے کیے جائیں گے کیونکہ انہیں فیصلے کرنے کا اختیار ہے جبکہ عوامی غصہ یا ردعمل کوئی رکاوٹ نہیں۔ ہم ایک ایسے لمحے میں ہیں کہ گویا ’وہ دنیا میں سب سے اوپر ہیں اور باقی سب کو اپنے نیچے دیکھ رہے ہیں‘۔
کسی کو شکوک شبہات بھی نہیں جبکہ مزاحمت بھی کم دکھائی دے رہی ہے۔ سیاسی جماعتیں تو بہت پہلے ہی ہمت ہار چکی ہیں۔ دوسری جانب عام لوگ بھی تھک چکے ہیں جس کی وجوہات کسی حد تک مالی مسائل یا ان کے خلاف تشدد کے خطرات ہیں۔
جہاں تک پی ٹی آئی کی بات ہے تو ان کے کچھ رہنما جیسے عمران خان، ان کی اہلیہ اور یاسمین راشد مہینوں یا برسوں سے جیل میں ہیں اور کسی کو امید نہیں کہ کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ بلوچستان میں ماہ رنگ بلوچ کو خاموش کروا دیا گیا ہے اور اس پر بہت کم لوگوں کو اعتراض ہے جبکہ علی وزیر بھی کوئی بھولی ہوئی داستان بن چکے ہیں۔ منظور پشتین بھی مکمل طور پر منظرعام سے غائب ہیں۔
اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ اقتدار میں رہنے والوں کو گمان ہے کہ اب وہ کسی بھی چیز سے باآسانی بچ سکتے ہیں۔ اور پھر ہم جب یہ سوچتے ہیں کہ ہم نے سب دیکھ لیا ہے، وہ ہمیں غلط ثابت کردیتے ہیں۔ جب عدالت کا یہ فیصلہ سامنے آیا تو لوگ ابھی تک پارلیمان اراکین کی تنخواہوں میں بڑے اضافے کی بات کر رہے تھے۔
یہ سب اس وقت ہورہا ہے کہ جب دہشتگردانہ حملوں میں دوبارہ اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ نصف پاکستان پہلے ہی ریاست کی رٹ کے خلاف جارہا ہے جبکہ ان دہستگردانہ حملوں میں اموات ہورہی ہیں، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات مرتب ہورہے ہیں، حتیٰ کہ غربت میں بھی اضافہ ہورہا ہے لیکن لوگوں کو خاموش رہنا چاہیے کیونکہ بھارت کی جانب سے شاید ایک اور حملہ ہوسکتا ہے۔
کمزور لوگوں کو آنے والے وقت کے لیے کمر کس لینی چاہیے۔ کیونکہ اب ایسے نتائج سامنے آئیں گے کہ جن کے ساتھ ملک اور اس کے لوگ دہائیوں تک جدوجہد کریں گے۔ 1980ء کی دہائی نے ہمارے لیے جہاد کی ایک فیکٹری میراث کے طور پر چھوڑی اور ملک کو غیر ریاستی عناصر کے تشدد کا سامنا کرنا پڑا جو اب بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ 2000ء کی دہائی جنگجوؤں کے نئے گروپ نمودار ہوئے جبکہ ریئل اسٹیٹ کاروبار میں تیزی آئی جبکہ بلوچستان کے مسائل بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔ اب کیا ہوگا؟
یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ایک بار جب اقتدار مضبوط ہوجاتا ہے تو اس کی کمزوری کی جانب سفر بھی آہستہ آہستہ شروع ہوجاتا ہے۔ 2002ء میں لگتا تھا کہ امریکا کو کوئی نہیں روک سکتا جس نے افغانستان میں تیزی سے کامیابی حاصل کرنے کے بعد مشرقِ وسطیٰ کو نئی شکل دینے کے لیے عراق پر بےدردی سے حملہ کیا۔ اگرچہ خطہ اب بھی امریکا کے اس ایڈوینچر کا خمیازہ بھگت رہا ہے، لیکن یہی وہ وقت تھا کہ جب بطور سپر پاور امریکا کے کمزور ہونے کی کہانی کا آغاز ہوا۔
اپنے ملک کی بات کریں تو مسلم لیگ (ن) کی جانب سے پی ٹی آئی کا دھرنا روکے جانے کے بعد ایسا لگتا تھا کہ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کے اقتدار کو کوئی چیلنج نہیں کرے گا۔ لیکن پھر پاناما آیا۔ کچھ عرصہ پہلے تک سندھ میں پی پی پی کی حکمرانی مضبوط نظر آتی تھی لیکن پھر کنال منصوبے کا اعلان ہوا۔ 2006ء میں جب سپریم کورٹ نے اسٹیل ملز کی نجکاری کو منسوخ کیا تو پرویز مشرف بھی ایسی ہی پوزیشن میں تھے۔ تو کوئی نہیں جانتا کہ اچانک انہیں کن مسائل کا سامنا کرنا پڑے۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔













لائیو ٹی وی