’گڈ مسلم، بیڈ مسلم‘ اور زہران ممدانی کا نیویارک
وہ اچانک اور تیزی سے اُبھر کر سامنے آئے ہیں۔ یہاں تک کہ ڈونلڈ ٹرمپ بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جو یہ سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں کہ زہران کوامے ممدانی آخر کون ہیں۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ وہ 4 نومبر کو نیویارک کے میئر انتخابات کے لیے مضبوط امیدوار ہیں اور وہ فلسطین کی آزادی کے لیے آواز اٹھاتے ہیں۔
وہ شاید یہ بھی جانتے ہیں کہ زہران، نریندر مودی کو گجرات کے قتل عام کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں حالانکہ بھارت کی سپریم کورٹ بھی 2002ء کے مسلمانوں کے قتل عام کے لیے مودی کو کلین چٹ دے چکی ہے۔
انتخاب سے قبل ایک انٹرویو میں میئر کے امیدواروں سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ بھارتی وزیراعظم کو نیویارک میں ریلی نکالنے میں مدد فراہم کریں گے۔ سب نے انکار کیا لیکن زہران ممدانی نے زور دے کر کہا کہ وہ اگر نیویارک کے میئر منتخب ہوتے ہیں تو وہ کبھی بھی مودی سے ملاقات کرنا نہیں چاہیں گے۔
زہران کو شاید اس حوالے سے زیادہ فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں کہ آیا یہ اطلاعات درست ہیں یا غلط کہ مودی کو ستمبر میں مستعفی ہونا پڑے گا کیونکہ وہ 75 برس کے ہوجائیں گے۔ یہ ریٹائرمنٹ کی وہ عمر ہے جو انہوں نے بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) کے تمام رہنماؤں کے لیے خود متعین کی ہے۔
لیکن زہران ممدانی کے ناقدین (اور کچھ ان کے حامی بھی) یہ سمجھ نہیں پائے ہیں کہ وہ ڈیموکریٹک انتخابات میں پسندیدہ امیدوار اینڈریو کومو کو شکست دینے میں کیسے کامیاب ہوئے۔ کومو کے دولت مند حامیوں میں بروکلین کے صہیونی یہودی شامل ہیں جنہوں نے ممدانی کو شکست دینے کے لیے 2 کروڑ 50 لاکھ ڈالرز جمع کرنے میں مدد کی لیکن اس کے باوجود بھی وہ زہران ممدانی کو شکست نہیں دے پائے۔
فطری طور پر وہ حالیہ واقعات سے پریشان ہیں۔ زہران ممدانی نے انہیں پُرسکون انداز میں تسلی بخش جواب دیا ہے۔ نفرت پر مبنی جرائم کے حوالے سے تشویش میں مبتلا ہیں جن میں امریکا میں بڑھتی یہود مخالفت بھی شامل ہے۔ انہوں نے نفرت پر مبنی جرائم سے نمٹنے کے لیے شہر کے بجٹ میں 800 فیصد اضافہ کرنے کے اعادہ کیا ہے۔
اس کے باوجود ٹرمپ نے انہیں کمیونسٹ جنونی کہا ہے اور اب خبریں ہیں کہ مسحور کُن مسکراہٹ والے یوگینڈا کے 33 سالہ تاریک وطن کو قتل کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔
زہران جن کا پس منظر سیکولر اور ترقی پسند ہندو اور مسلم دونوں روایات سے جڑا ہے، کو سمجھنے کے لیے ان کے درمیانی نام کوامے سے مدد مل سکتی ہے۔ ان کے والدین نے ممکنہ طور پر ان کا نام افریقی رہنما کوامے نکروما کے نام پر رکھا ہے جو ممدانی خاندان کی سیاسی اقدار کے بارے میں جو کچھ ہم جانتے ہیں، اس کے مطابق ہے۔
بائیں بازو کے بنیاد پرست سیاست دان نے گھانا کو برطانیہ سے آزادی دلائی لیکن 1966ء میں جب وہ چین کا دورہ کر رہے تھے تو مغربی طاقتوں کی حمایت یافتہ فوجی بغاوت میں ان کا تختہ الٹ دیا گیا۔ کانگو کے پیٹرائیس لومومبا، زیمبیا کے کینیتھ کاؤنڈا اور تنزانیہ کے جولیوس نیریرے کے ساتھ کوامے نکرومہ بھی نوآبادیاتی قوت سے آزاد ہونے والے افریقہ اور دیگر نئے ممالک کے لوگوں کے لیے ہیرو بن گئے۔
جنوبی ایشیائی لوگوں نے انہیں ایک دوست کے طور پر دیکھا اور جواہرلال نہرو نے انہیں ایک کامریڈ یعنی قریبی اتحادی کے طور پر پیش کیا۔ کچھ کا یہ بھی ماننا ہے کہ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کا پرامن مزاحمت کا خیال کوامے سے متاثر تھا۔
ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ زہران ممدانی کمپالا، یوگینڈا میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد گجراتی شیعہ مسلم ہیں جنہوں نے ایک مدرس کے طور پر اپنے کریئر کا آغاز کیا اور نوآبادیات، نسلی تنازعات اور ہجرت پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔ محمود ممدانی نے نوآبادیات اور معاشرے پر شاندار تصانیف لکھی ہیں جبکہ ان کی کتاب ’گڈ مسلم، بیڈ مسلم‘ زیادہ مشہور ہے۔ والد کی علمی جستجو پر بحث کرکے ہم زیادہ بہتر انداز میں یہ جان سکتے ہیں کہ ان کا بیٹا زہران ممدانی کون ہے۔
گڈ مسلم، بیڈ مسلم میں محمود ممدانی نے سیاسی اسلام کی نشونما پر بات کی ہے اور ان سوالات کے جوابات دیے ہیں جو سابق امریکی حمایت یافتہ اسامہ بن لادن کی جانب سے امریکا پر ایک بڑا حملہ کرنے کے بعد سے امریکیوں میں جنم لیے ہیں۔ محمود ممدانی نے عام خیال کو چیلنج کیا کہ ’اچھے‘ مسلمان وہ ہیں جو مغربی یا سیکولر ہیں جبکہ ’برے‘ مسلمانوں کو قدامت پسند یا انتہا پسند کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
وہ دلیل دیتے ہیں کہ سیاسی اسلام کا تصور درحقیقت مغرب کے ساتھ جدید تعلقات سے پروان چڑھا ہے۔ وہ کہتے ہیں اس کا پُرتشدد پہلو بعد میں سامنے آیا، بنیادی طور پر ’اس وقت کہ جب امریکا نے ویتنام میں اپنی شکست کے بعد پراکسی جنگوں کا استعمال‘ شروع کیا۔
یہ کتاب حالیہ ایران-اسرائیل تصادم کے حوالے سے متعلقہ معلوم ہوتی ہے۔ ایران پر حکمرانی کرنے والے ’ملاؤں‘ کی مغرب میں توہین کی جاتی ہے، ایران کی 5 ہزار پرانی تہذیب کی حریفوں کی جانب سے مذمت کی جاتی ہے حالانکہ یہ وہ ممالک ہیں جو 1919ء میں سلطنت عثمانیہ کی شکست کے بعد مشرق وسطیٰ کی برطانوی اور فرانسیسی نوآبادیاتی قوتوں میں تقسیم کے بعد وجود میں آئے۔
اگر غور کریں تو مغرب نے سرد جنگ کے بعد جن جن ممالک کو نشانہ بنایا جیسے عراق، لیبیا، الجزائر، شام، لبنان اور یمن، سب دراصل سیکولر تھے۔ تو ایسا لگتا ہے کہ سیکولر ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہاں اگر آپ سیکولر نہیں تو آپ ملعون ہیں جسے کبھی بھی نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔
محمود ممدانی کی دیگر قابلِ ستائش کتابوں میں ایک اور کتاب شامل ہے جو روانڈا میں نسلی تشدد کو سمجھنے کا ایک نیا طریقہ پیش کرتی ہے۔ اس کے علاوہ اہم کتاب Neither Settler nor Native: The Making and Unmaking of Permanent Minorities، اس معمول کے خیال کو چیلنج کرتی ہے کہ جدید ریاست کا آغاز 1648ء میں ویسٹ فیلیا کے معاہدے سے نہیں ہوا بلکہ انہوں نے دلیل دی کہ یہ 1492ء میں شروع ہوا کہ جس سال اسپین نے اپنی یہودی اور مسلم آبادیوں کو بے دخل کیا جو یورپ کے امریکا میں نوآبادیاتی قوت بننے سے میل کھاتا ہے۔
زہران ممدانی کی والدہ میرا نائر معروف ترقی پسند فلم ساز ہیں۔ ان کی کچھ معروف فلموں کو متوازی سنیما کا حصہ سمجھا جاتا ہے یعنی فلم سازی کا ایسا انداز جو حقیقی زندگی کے مسائل اور سماجی موضوعات پر مرکوز ہے۔ ان کی مقبول فلموں میں مون سون ویڈنگ، مسیسیپی مصالحہ اور دی نیمسیک شامل ہیں۔ لیکن بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ان کا سب سے بہترین کام وہ فلم ہے جو انہوں نے یوگینڈا کی کچی آبادیوں میں زندگی کے بارے میں بنائی تھی۔
میرا نائر کی فلمیں، کہانی سنانے کے اپنے جاندار انداز، گہری ثقافتی تفصیلات، شناخت، نقل مکانی اور انسانی رشتوں جیسے موضوعات پر توجہ دینے کے لیے جانی جاتی ہیں۔ بیٹے کی سیاست میں والدین کی چھاپ نمایاں ہے۔
وہ امر زہران ممدانی کی جیت کو قابلِ ذکر بناتا ہے، جیسا کہ دی گارڈین نے نشاندہی کی ہے کہ زہران نے ’فلسطین کی آزادی کے لیے اپنی آواز اٹھانے سے دستبردار ہونے سے انکار کر دیا ہے، یہ ایک ایسا مؤقف ہے جو طویل عرصے سے ایک ایسی جماعت کے امیدواروں کے لیے انتہائی مہلک ثابت ہوا جن کی اسٹیبلشمنٹ اسرائیل کی بے دریغ حمایت کرتی ہے‘۔
زہران ممدانی کی جیت کے پیچھے دیگر طاقتور عوامل بھی ہیں۔ نیویارک کے لیے ان کا نقطہ نظر فرینک سیناترا کے ذاتی عزائم اور اسے ’ڈھیر میں سب سے اوپر‘ بنانے کے خیال سے قدرے مختلف ہے۔ اس کے بجائے زہران، شاعر ساحر لدھیانوی کی بمبئی میں عدم مساوات کے بارے میں گہری مایوسی سے متاثر دکھائی دیتے ہیں، جن کا مشہور شعر ہے کہ ’چین و عرب ہمارا، ہندوستان ہمارا، رہنے کو گھر نہیں ہے، سارا جہاں ہمارا‘۔
زہران، ساحر لدھیانوی کی طرح محنت کش طبقے کے ساتھ کھڑے ہیں جو ’رات بھر محنت کرتے ہیں تاکہ وہ دن میں عزت کی زندگی گزار سکیں جہاں فیکٹری میں 8 گھنٹے کام کرنا یا ٹیکسی چلانا رہن کی ادائیگی، لائٹس آن رکھنے اور اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کے لیے کافی ہو‘۔
یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔