پاکستان کا عالمی انسداد دہشتگردی کے ڈھانچے میں اندرونی اصلاحات کی ضرورت پر زور

شائع July 1, 2025
— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان نے اقوام متحدہ کے انسدادِ دہشت گردی کے ڈھانچے میں اندرونی اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا ہے تاکہ ایک متوازن اور انسانی حقوق پر مبنی عالمی فریم ورک تیار کیا جا سکے۔

تفصیلات کے مطابق پاکستان کو 4 جون کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) کی کاؤنٹر ٹیررازم کمیٹی کا نائب چیئرمین مقرر کیا گیا تھا جس پر وزیراعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ اس تقرری سے عالمی برادری کا پاکستان کی انسدادِ دہشت گردی کی صلاحیتوں پر اعتماد ثابت ہوتا ہے۔

اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مشن کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار احمد نے کہا کہ انسدادِ دہشت گردی کا ڈھانچہ اتنی استعداد رکھتا ہو کہ وہ طویل تنازعات کے اسباب سے نمٹنے کی صلاحیت، انسدادِ دہشت گردی کے نام پر ہونے والی ناانصافی، جبر اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں کا خاتمہ کرے۔

انہوں نے کہا ’ہمیں دہشت گردی اور غیر ملکی قبضے کے خلاف جائز جدوجہد اور حقِ خودارادیت کے درمیان واضح فرق بھی کرنا چاہیے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ کا انسداد دہشت گردی دفتر (یو این او سی ٹی) کو بھی انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی کے احترام کو یقینی بنانا چاہیے تاکہ رکن ممالک کی جانب سے انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کا غلط استعمال نہ ہو اور اگر ہم ان مسائل سے نظریں چراتے رہیں گے تو ہماری انسدادِ دہشت گردی کی کوششیں مزید طویل ہو جائیں گی۔

ان کا کہنا تھا کہ کامیاب انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیاں بین الاقوامی قانون کے فریم ورک میں مربوط کوششوں کی متقاضی ہیں۔

پریس ریلیز کے مطابق پاکستانی سفیر نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ ہر قسم کی دہشت گردی کا مقابلہ اجتماعی اور بلا امتیاز انداز میں کرے، دہشت گردی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہونے سے روکے اور عوامی رائے کو آج درپیش اصل چیلنجوں سے ہٹانے کی کوششوں کو ناکام بنائے۔

عاصم افتخار احمد نے نے کہا کہ پابندیوں کے نظام میں نئی اور ابھرتی ہوئی خطرات کو شامل کرنے کے لیے ضروری ترامیم کی جائیں اور اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ جہاں کئی ممالک میں دائیں بازو کی انتہاپسند اور فاشسٹ تحریکوں کے ابھرنے سے دہشت گردانہ تشدد بڑھ رہا ہے، وہیں ہم دیکھتے ہیں کہ غیر مسلموں کے دہشت گردانہ اقدامات کو محض پرتشدد جرم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

اقوام متحدہ میں پاکستانی سفیر نے اس بات کو اجاگر کیا کہ انسدادِ دہشت گردی بین الاقوامی امن و سلامتی کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے ’سب سے اہم ستونوں میں سے ایک‘ ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان خود دہشت گردی کا بڑا شکار رہا ہے، جس نے 80 ہزار سے زائد جانوں کی قربانی دی ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اربوں ڈالر کا معاشی نقصان برداشت کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کی کوئی سرحد نہیں اور یہ جدید انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجیز کی مدد سے ایک عالمی دنیا میں نئی اور ابھرتی ہوئی شکلوں میں ڈھل رہی ہے، اس لیے ’موثر اور بامعنی‘ انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں کی ضرورت ہے جو ’رکن ممالک کے درمیان متفقہ اصولوں‘ پر مبنی ہوں۔

پریس ریلیز کے مطابق پاکستانی سفیر نے عالمی انسدادِ دہشت گردی ڈسکورس میں اصولوں، نرم قوانین اور ’’غیر لازمی رہنما اصولوں‘‘ کے شامل ہونے پر بھی تشویش ظاہر کی، جو سلامتی کونسل کی 1373 کاؤنٹر ٹیررازم کمیٹی یا ماہرین کی رپورٹس کے ذریعے سامنے آتے ہیں لیکن جن پر وسیع رکنیت کا اتفاق نہیں ہوتا۔

انہوں نے تجویز دی کہ اس مقصد کے لیے جنرل اسمبلی کے تحت ایک ’ضمنی ادارہ بطور بین الحکومتی فریم ورک‘ قائم کیا جائے تاکہ ان معاملات کا عالمی سطح پر جائزہ لیا جاسکے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ انٹرپول اور اقوام متحدہ کی ایجنسیوں جیسے عالمی کمپیکٹ اداروں کے کام کو قومی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ ضم کرنا دہشت گردوں کی نقل و حرکت اور دہشت گردی کی مالی معاونت سے متعلق معلومات اور انٹیلی جنس کے تبادلے کو نمایاں طور پر بہتر بنا سکتا ہے۔

عاصم افتخار نے کہا کہ ہمیں کچھ اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کو ضم کرنا چاہیے یا ان کے مینڈیٹ محدود کرنے چاہییں تاکہ یو این او سی ٹی کے کام کو مربوط کیا جا سکے، بہت سی ایجنسیز ایک ہی نوعیت کا کام کر رہی ہیں جس سے صلاحیت بڑھانے کی کوششوں سمیت کام میں تکرار پیدا ہو رہی ہے۔

خیال رہے کہ سلامتی کونسل کی کاؤنٹر ٹیررازم کمیٹی (سی ٹی سی) سلامتی کونسل کی قرارداد 1373 (2001) کے تحت قائم کی گئی تھی، جو امریکا میں 11 ستمبر کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد 28 ستمبر 2001 کو متفقہ طور پر منظور کی گئی۔

یہ کمیٹی، جس میں سلامتی کونسل کے تمام 15 رکن ممالک شامل ہیں، اس قرارداد کے نفاذ کی نگرانی کرتی ہے، جس کے تحت ممالک کو کہا گیا کہ وہ اپنی قانونی اور ادارہ جاتی صلاحیت کو مضبوط بنانے کے لیے متعدد اقدامات کریں تاکہ وہ اپنے ملک، خطے اور دنیا بھر میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کا مقابلہ کر سکیں۔

پاکستان کو قرارداد 1988 (2011) کے تحت قائم کردہ سلامتی کونسل کی اُس کمیٹی کی سربراہی بھی سونپی گئی ہے جو افغان طالبان پر پابندیوں کے نفاذ کی نگرانی کرتی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 15 دسمبر 2025
کارٹون : 14 دسمبر 2025