قائمہ کمیٹی ارکان کا مون سون بارشوں پر این ڈی ایم اے کی بریفنگ پر اظہار عدم اطمینان
قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی کے متعدد ممبران نے مون سون بارشوں اور اس سے ہونے والے نقصانات پر این ڈی ایم اے کی بریفنگ پر عدم اطمینان کا اظہار کردیا،ممبران نے سوال کیا کہ این ڈی ایم اے بارشوں اور سیلاب سے بچاؤ اور تحفظ کے لیے پہلے اقدامات کیوں نہیں اٹھاتا؟جب سیلاب لوگوں کے گھر تک آجاتا ہے، پھر این ڈی ایم اے پہنچ کر کھانا اور ریلیف سامان بھجوا رہا ہوتا ہے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی کا اجلاس منزہ حسن کی زیرِ صدارت این ڈی ایم ہیڈکوارٹرز میں منعقد ہوا۔
چیئرمین این ڈی ایم نے قائمہ کمیٹی کے ممبران کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کو شدید موسمیاتی تبدیلیوں کا سامنا ہے، 2025 میں پاکستان پانی کی کمی سے متاثر ہونے والا 15 واں ملک بن جائے گا، اس سال مون سون میں معمول سے زائد بارشیں متوقع ہیں، یہ بارشیں سندھ، لوئر پنجاب اور بلوچستان کے کچھ علاقوں میں متوقع ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ گلیشیئر پگھلنے سے بھی سیلاب کا خدشہ ہے، اسلام آباد، خیبرپختونخوا اور اپر پنجاب میں جولائی کے آخر میں مزید بارشیں متوقع ہیں، انہوں نے بتایا کہ این ڈی ایم اے کے پاس جدید کنٹرول روم ہے،پاکستان بہت ہی تیزی سے جنگلات کو کھو رہا ہے۔
چیرمین نے بتایا کہ این ڈی ایم اے 6 ماہ پہلے وارننگ جاری کرتا ہے، ہمارے پاس ڈرونز ہیں جو 100 کلو تک سامان لے جا سکتے ہیں۔
قائمہ کمیٹی کے ارکان نے چیئرمین این ڈی ایم اے کی بریفنگ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آنے والے دنوں میں پھر سے بارشیں متوقع ہیں، ہم آنے والے وقت کے لیے لوگوں کو محفوظ کرنے کے لیے کیا کررہے ہیں؟ جب سیلاب لوگوں کے گھروں تک آجاتا ہے تو پھر این ڈی ایم اے کھانا اور ریلیف کا سامان بھجوا رہا ہوتا ہے، این ڈی ایم اے یہ بتائے کہ ہمیں پہلے سے کیا اقدامات کرنے چاہئیں؟
ارکان نے کہا کہ جہاں بارشیں، سیلاب آنے ہیں وہاں کے لوگوں کے لیے پہلے سے سیٹ اپ بنا دیں، این ڈی ایم اے پہلے سے ایسے اقدامات کیوں نہیں کرتی کہ لوگ محفوظ ہو سکیں؟
کمیٹی کے رکن صاحبزادہ صبغت اللہ نے کہا کہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ آپ نے جو ارلی وارننگ سسٹم بنایا ہے، اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا، جو گلیشئرز پگھل رہے ہیں اس پر این ڈی ایم اے کیا اپنا کردار ادا کررہی ہے؟ میرے حلقہ میں ایک پل سیلاب کے باعث بہہ گیا، اس کی مرمت کے لیے ابھی تک کوئی عملی اقدامات نہیں اٹھایا گیا۔
ممبر کمیٹی اویس جکھڑ نے کہا کہ میرا حلقہ لیہ کئی سالوں سے سیلاب سے تباہ ہوتا آرہا ہے،جو علاقہ مسلسل سیلاب سے متاثرہ ہے، وہاں پر این ڈی ایم اے جاکر کام کرے، میرے حلقہ کے کئی علاقوں میں دریا کے بہاؤ سے کبھی بھی سیلاب آسکتا ہے، جنوبی پنجاب کے جو علاقے سیلاب سے متاثر ہوئے ان کا بریفنگ میں ذکر ہی نہیں ہے۔
انہوں نے کہاکہ ضلع لیہ کے حوالے سے سروے کرکے مخصوص فنڈز مختص کریں، این ڈی ایم اے پوسٹ ڈیزاسٹر اقدامات کیوں نہیں کرتا؟
چیئرمین این ڈی ایم اے نے خود کو بری الذمہ قرار دے دیا
چیئرمین این ڈی ایم اے نے تمام ممبران کے سوالات کے جواب میں خود کو بری الذمہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ صوبائی نوعیت کا مسئلہ ہے، اگر آفت اور ڈیزاسٹر حد سے زیادہ بڑھ جائے تو این ڈی ایم اے مدد کے لیے پہنچتا ہے، ڈی ڈی ایم اے کو بھی مزید مضبوط کیا جائے، ان کی کیپسٹی بھی کم ہے۔
انہوں نے کہاکہ وزرائے اعلیٰ کو درخواست ہے کہ دریاؤں کی گذرگاہوں میں لوگوں کو آباد نہ ہونے دیں، لوگ ایسی جگہوں پر آباد ہوتے ہیں جہاں سے پانی کا گزر ہوتا ہے، شہروں میں صفائی کی صورتحال اچھی نہیں ہوتی، جس کی بنا پر اربن فلڈنگ ہوتی ہے، آفت کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے پہلے صوبائی حکومتیں ذمہ دار ہیں، ضلعی سطح پر ضلعی منیجمنٹ کی پہلے ذمہ داری بنتی ہے۔











لائیو ٹی وی