بلوچستان میں سونے اور تانبے کی کان کنی کے منصوبے مقامی آبادی کو کیسے نقصان پہنچا رہے ہیں؟

شائع July 4, 2025
بلوچستان کے علاقے کچاؤ میں بچے اپنے بکریوں کے ساتھ کھڑے ہیں—تصویر: کاظم بلوچ
بلوچستان کے علاقے کچاؤ میں بچے اپنے بکریوں کے ساتھ کھڑے ہیں—تصویر: کاظم بلوچ

صوبہ بلوچستان کے ضلع چاغی میں کچاؤ کا پہاڑی قصبہ واقع ہے جس کی سرحدیں ایران اور افغانستان سے ملتی ہیں۔ چاغی اربوں ڈالرز کے تانبے اور سونے کے ریکوڈک پروجیکٹ کا صدر مرکز بھی ہے جہاں ایک حالیہ فزیبلٹی مطالعے میں 60 ارب ڈالرز سے زائد مالیت کے ذخائر کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

طویل عرصے سے تاخیر کا شکار اس منصوبے میں پہلی کھدائی 1992ء میں شروع ہوئی لیکن قانونی، سیکیورٹی اور ملکیتی مسائل کی وجہ سے یہ کانیں 2028ء تک پیداوار شروع کریں گی۔ اس منصوبے سے بہت سی رقم آنے کی توقع ہے لیکن کچاؤ کے رہائشیوں کے لیے یہ تشویش کا باعث بن رہا ہے۔

ایک مقامی حمید بلوچ کا کہنا ہے کہ کچاؤ اپنے میٹھے پانی کے چشموں کے لیے جانا جاتا ہے۔ انہوں نے ڈان کو بتایا، ’ہم پریشان ہیں کہ ہمارا پانی کان کنی کے منصوبے کے لیے استعمال ہورہا ہے جس سے ہمارے ذخائر ختم ہو رہے ہیں‘۔ حمید نے انکشاف کیا کہ یہاں کی آبادی، چھوٹی چھوٹی بستیوں پر مشتمل ہے اور ان بستیوں کی تعداد سیکڑوں میں ہے۔ ان کا روزگار زراعت اور مویشیوں سے منسلک ہے جس سے پانی کا بحران ایک وجودی مسئلہ بن رہا ہے۔

حمید بلوچ کہتے ہیں، ’اس منصوبے کے لیے ہمارے علاقے میں کچاؤ کے رہائشیوں کو اعتماد میں لیے بغیر ٹیوب ویل لگائے گئے ہیں‘۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ اس علاقے میں ایک جانب بنیادی انفرااسٹرکچر کا فقدان ہے لیکن وہیں دوسری جانب ٹیوب ویل تک جانے والی سڑکوں کو تعمیر کیا گیا ہے۔ حمید نے سوال کیا کہ ’جب وہ یہاں سے سارا پانی لے جائیں گے تو ہم کہاں جائیں گے؟‘

دم توڑتی ماحولیات

یہ مسئلہ پہلے ہی واضح ہے۔ ضلع کے دور دراز علاقوں بشمول ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر دالبندین، پینے کے صاف پانی کے حصول کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔ مزید یہ کہ بلوچستان ایک ایسے خطے میں ہے جہاں عام طور پر کم بارش ہوتی ہے۔

پاکستان کے محکمہ موسمیات کے اعداد و شمار کے مطابق، صوبے میں سالانہ تقریباً 176 ملی میٹر بارش ہوتی ہے جبکہ معدنیات سے مالا مال چاغی ضلع سمیت اس کے مغربی حصوں میں 50 ملی میٹر سے بھی کم بارش ہوتی ہے۔ شدید موسمی واقعات جیسے خشک سالی سے لے کر گزشتہ سال کی طوفانی بارشیں، صورت حال کو مزید خراب کرتے ہیں اور لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کرتے ہیں۔

فی الحال کچاؤ میں اتنا پانی ہے کہ خواتین اور بچے پانی کے حصول کے لیے پہاڑ سے نیچے ایک مختصر سفر کرتے ہیں۔ لیکن حمید کا کہنا ہے کہ پانی کی سطح کم ہورہی ہے اور بعض مقامات پر پانی کھارا ہوگیا ہے۔

اس منصوبے میں 50 فیصد حصص رکھنے والی کینیڈا کی فرم بیرک گولڈ (باقی 50 فیصد بلوچستان اور پاکستان کی حکومتوں کے درمیان مساوی طور پر تقسیم ہیں)، اس سے متفق نہیں ہے۔ اس کی ترجمان سامعہ شاہ ڈان کو ایک ای میل کے ذریعے بتاتی ہیں کہ یہ پروجیکٹ صرف زیر زمین پانی کے ایک بڑے ذریعے کا چھوٹا حصہ استعمال کرے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ پانی پہلے ہی پینے یا کاشتکاری کے لیے بہت زیادہ کھارا ہے جبکہ اسے استعمال کرنے کے لیے صفائی کے مہنگے عمل سے گزارنا پڑے گا۔

ریکوڈک منصوبے سے قریبی قصبے ماحولیاتی اعتبار سے نقصان کا سامنا کررہے ہیں
ریکوڈک منصوبے سے قریبی قصبے ماحولیاتی اعتبار سے نقصان کا سامنا کررہے ہیں

انہوں نے یہ بھی کہا کہ قریب میں کوئی کمیونٹی یا پانی کا وسیلہ میں نہیں اور نہ ہی اس علاقے میں کوئی جنگلی حیات موجود ہے جو اس پانی پر انحصار کرتی ہو۔ اپنے جواب میں، سامعہ شاہ نے زور دے کر کہا کہ آزاد مطالعات نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ زیرزمین پانی زمین کے اوپر موجود ماحولیاتی نظام سے منسلک نہیں ہے اور یہ منصوبہ مستقبل میں دیگر کو پانی استعمال کرنے سے نہیں روکے گا۔

تجزیہ کار اور دی اکنامک ڈیولپمنٹ آف بلوچستان کے مصنف سید فضلِ حیدر کا کہنا ہے کہ ریکوڈک منصوبے کے لیے پانی، پروجیکٹ سائٹ سے تقریباً 70 کلومیٹر دور زمینی نظام سے آئے گا۔ انہوں نے ڈان کو یہ بھی بتایا کہ اس بات کا مطالعہ کرنا بھی ضروری ہے کہ سینڈک کاپر گولڈ مائن جوکہ اسی ضلع میں ریکوڈک سے تقریباً 90 کلومیٹر دور ہے، وہاں 20 سال سے کی جانے والی کان کنی نے ماحول کو کس طرح متاثر کیا ہے۔

فضلِ حیدر کہتے ہیں، ’اس طرح کے مطالعے کے نتائج اگلی دہائی میں ریکوڈک سے ہونے والے ممکنہ ماحولیاتی اثرات کو ظاہر کر سکتے ہیں‘۔

’وعدے پورے نہیں کیے گئے‘

پاک-ایران سرحد کے قریب تفتان کے جنوب میں چاغی میں واقع چھوٹا قصبہ تالاپ دو دہائیوں سے سینڈک منصوبے کو پانی فراہم کررہا ہے۔ سینڈک، ریکوڈک کی طرح اربوں ڈالر کا منصوبہ ہے اور 2000ء کے اوائل سے یعنی کئی سالوں سے وہاں چینی تانبا اور سونا نکال رہے ہیں۔ کچاؤ کی طرح تالاپ ایک چھوٹا سا شہر ہے جس میں 50 سے زائد گھر ہیں اور وہاں صرف چند سو لوگ آباد ہیں۔

مقامی کاشتکار خدا بخش بلوچ نے کہا کہ تالاپ میں پانی کی سطح کم ہوچکی ہے۔

انہوں نے ڈان کو بتایا، ’سینڈک پروجیکٹ سے پہلے پانی کی سطح 60 فٹ تھی۔ یہ اب 100 فٹ گہر اہے لیکن ماضی کے برعکس یہ کھارا بھی ہے‘۔ خدابخش کا کہنا ہے کہ کم تنخواہ والی چند ملازمتوں کے علاوہ، قصبے کو وہ زیادہ تر فوائد حاصل نہیں ہوئے ہیں جن کا ان سے وعدہ کیا گیا تھا۔

ڈان نے جن جن رہائشیوں سے بات کی ان میں سے زیادہ تر نے خدا بخش سے ملتے جلتے خدشات کا اظہار کیا۔ انہوں نے فصل اور پانی کے خراب معیار اور انفرااسٹرکچر کے مسائل کی شکایات کیں۔ ان میں سے ایک عطااللہ بھی تھے جنہوں نے کہا کہ جب حکام کو پروجیکٹ کے لیے پانی درکار تھا تو ہم سے چاند توڑ لانے جیسے اونچے اونچے وعدے کیے گئے تھے۔

عطااللہ نے بتایا، ’انہوں نے اب تک ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا بلکہ انہوں نے ہماری مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔ ہمارا پانی صاف ہوتا تھا اور ہم دیگر فصلوں کے علاوہ گندم بھی اُگاتے تھے۔ اب ہمیں واشاپ (قریبی شہر) تک سفر کرنا پڑتا ہے جوکہ تقریباً آدھا گھنٹہ دور ہے جہاں سے ریڑھی پر ہم پانی لے کر آتے ہیں‘۔

کم ہوتے وسائل، آبادی کی نقل مکانی

بہت سی وجوہات نے تالاپ اور کچاؤ کے قصبوں کے لوگوں کو بہتر مواقع کی تلاش میں نقل مکانی کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ایک وجہ تفتان سے تالاپ تک 32 کلومیٹر طویل سرحدی دیوار کی تعمیر بھی ہے جس نے سرحد کے پار روزگار کے مواقع کم کر دیے ہیں۔ اس کے علاوہ علاقے کو اکثر خشک سالی اور سیلاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے زندگی مشکل ہوتی جارہی ہے۔

نوشکی سے تعلق رکھنے والے زاہد مینگل کوئٹہ میں قائم غیر منافع بخش تنظیم عزت فاؤنڈیشن کے سربراہ ہیں۔ 2000ء کی دہائی کے اوائل سے ان کی تنظیم دیگر مقامات کے علاوہ چاغی اور نوشکی کے قحط زدہ اضلاع میں امدادی سرگرمیاں انجام دے رہی ہے۔ زاہد نے کہا، ’اس طرح کی خشک سالی بلوچستان کے حصوں کو متاثر کرتی رہتی ہے جس سے زراعت کو نقصان پہنچتا ہے۔ اگرچہ یہ اثرات سالوں میں آہستہ آہستہ سامنے آتے ہیں لیکن یہ سنگین ہیں‘۔

کچاؤ اور تالاپ میں پانی کی سطح میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے
کچاؤ اور تالاپ میں پانی کی سطح میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے

کوئٹہ میں بلوچستان یونیورسٹی کے ڈیزاسٹر مینجمنٹ ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ڈاکٹر سید عین الدین کہتے ہیں کہ بارشوں کی کمی اور زیرِزمین پانی کی سطح میں کمی، گزشتہ چند دہائیوں کے دوران گہرے کنوؤں کی پمپنگ خاص طور پر بلوچستان کے مغربی علاقوں میں جہاں چاغی واقع ہے، خشک سالی کا سبب بن رہی ہے۔

حالیہ برسوں میں چاغی اور اردگرد کے اضلاع طوفانی بارشوں اور سیلابوں کا شکار ہوئے ہیں۔ ماضی کے برعکس شدید بارشوں اور سیلابوں کا ذمہ دار ماہرین موسمیاتی تبدیلی کو ٹھہراتے ہیں بالخصوص چاغی جہاں تاریخی اعتبار سے کم بارشیں ہوتی رہی ہیں۔

تالاپ کی ایک بزرگ خاتون مدینہ بی بی کا کہنا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف تالاپ بلکہ قریبی علاقوں سے بھی لوگ نقل مکانی کررہے ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’یہاں اب ایسا کچھ نہیں جس کی وجہ سے لوگ یہاں رہیں۔ ہماری زمین اور مویشی کھارے پانی کی وجہ سے برباد ہوچکے ہیں‘۔

اگرچہ ان کا نقل مکانی کا کوئی ارادہ نہیں لیکن وہ اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے پریشان ہیں۔ مدینہ بی بی نے بتایا، ’وہ کام کے سلسلے میں تفتان جاتے تھے لیکن اب بدقسمتی سے وہاں بھی نہیں جاسکتے کیونکہ سرحد پر دیوار تعمیر ہوچکی ہے‘۔

تالاپ اور کچاؤ کے لوگ بلوچستان کے ساتھ ساتھ سرحد پار سے ایران کی طرف بھی منتقل ہورہے ہیں جہاں اکثر کے خاندان رہتے ہیں۔ نتیجتاً کچاؤ اور تالاپ اب ویران نظر آتے ہیں۔

اب میں کچاؤ کی وادیوں میں کھڑا تھا جہاں کبھی پہاڑوں کی چوٹیوں پر برف ہوا کرتی تھی اور چشمے بہا کرتے تھے لیکن اب اس قصبے میں خاموشی کا راج ہے۔

تالاپ میں بھی یہی صورت حال ہے۔ یہ خاموشی امن کی علامت نہیں بلکہ یہ اس لیے ہے کیونکہ آوازوں کی شنوائی نہیں ہوئی اور وعدے پورے نہیں کیے گئے جبکہ پانی کم ہونے کے ساتھ ساتھ یہاں کی زمین میں آہستہ آہستہ خاموش ہورہی ہے۔ اگر ہم اب بھی ان کی آوازیں نہیں سنتے ہیں تو یہ چشمے مکمل طور پر خشک ہوجائیں گے، یہاں آبادی ختم ہوجائے گی اور اگر کچھ باقی رہ جائے گا تو وہ تانبے کے خواب ہوں گے جو اس زمین کی مرتی ہوئی روح کے عوض پورے کیے جائیں گے۔


یہ تحریر انگریزی میں پڑھیے۔

محمد اکبر نوتزئی
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 18 جولائی 2025
کارٹون : 17 جولائی 2025